صحت انصاف کارڈ: اہم فلاحی منصوبہ کرپشن کی نذر ہوسکتا ہے

February 16, 2020

فلاحی ریاست کا تصوّر،خواہش نئی نہیں۔ آج سے ہزاروں برس قبل معروف یونانی فلسفی، افلاطون نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف، ’’جمہوریہ‘‘ میں ایک مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا تھا۔ بعد ازاں، مسلمان مفکّر اور ’’معلّمِ ثانی‘‘ (یاد رہے کہ فلسفے کی دُنیا میں ارسطو کو ’’معلّمِ اوّل‘‘ کہا جاتا ہے) ابو نصر فارابی نے بھی اپنی تصنیف” المدینۃ الفاضلہ“ میں ایک مثالی شہر کا تصوّر پیش کیا۔ فارابی ریاست کو ایک ’’نامیاتی کُل (Organic Whole)‘‘ تصوّر کرتے تھے، جس کے تمام افراد جسدِ واحد کی طرح باہم مربوط ہوں اور حُکم ران کا تعلق ریاست سے ویسا ہی ہو، جیسا کہ دل کا جسم سے ہوتا ہے۔

قدیم زمانے میں ریاستیں صرف حُکم رانوں کے مفادات تک محدود ہوا کرتی تھیں، تاہم بتدریج ریاست سے متعلق نِت نئے تصوّرات سامنے آئے، جن کے نتیجے میں انسانی زندگی میں بہتری رُونما ہوئی۔ بانیٔ پاکستان نے بھی نئی ریاست کا کردار واضح کر دیا تھا۔ قائد اعظم محمّد علی جناحؒ کا قول ہے کہ ’’ہمارے لیے پاکستان کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم ایک ایسی ریاست قائم کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، اپنی تہذیب و ثقافت کو ترقّی دیں اور اسلام کے اجتماعی نظامِ عدل کے اصولوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔‘‘

وزیرِاعظم، عمران خان راجن پور کے شہریوں میں صحت کارڈز تقسیم کررہے ہیں

خوراک، رہایش، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کسی بھی ریاست کی فلاح و بہبود میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے، جب کہ ایک متوازن و خوش حال معاشرے کی تشکیل کے لیے علاج معالجے جیسی سہولت کی فراہمی بھی ناگزیر ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ دہائیوں کے دوران آبادی میں بے ہنگم اضافے، ناقص حکمتِ عملی اور ماحولیاتی آلودگی سمیت دیگر عوامل کے سبب پاکستان میں غُربت اور مُہلک امراض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس کے برعکس علاج معالجے کی سہولتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

نتیجتاً، خطِ غُربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کروڑوں شہری بیماری کی صورت میں اتائی ڈاکٹروں یا نام نہاد روحانی معالجین کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان میں سرکاری سطح پر صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کے دَور میں ’’1122‘‘نامی ایمبولینس سروس شروع کی گئی تھی، جس میں ابتدائی طبّی امداد کی سہولت بھی دست یاب تھی۔ 2015ء میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے دَورِ حکومت میں’’ پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام‘‘ (PMNHP) شروع کیا گیا، جس کے تحت مستحق خاندانوں کو صحت کارڈز جاری کیے گئے۔

سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف نے صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت یقینی بنانے کے علاوہ سرطان اور امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو بِلا معاوضہ منہگی ادویہ کی فراہمی بھی شروع کی۔ نیز، سروسز اسپتال، لاہور میں ذیابطیس کے مریضوں کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کیا۔ دریں اثنا، پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں کی ایمرجینسیز میں مریضوں کے مفت چیک اپ کے علاوہ مفت ادویہ کا بندوبست کیا گیا اور ان اقدامات کے نتیجے میں محروم طبقے کو کسی حد تک ریلیف ملا۔

پنجاب کے ایک اسپتال کا اندرونی منظر

پاکستان تحریکِ انصاف نے 2013ء میں خیبر پختون خوا میں اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد صوبے میں علاج معالجے کی مفت سہولتوں کی فراہمی کے لیے مستحق افراد کو ’’صحت انصاف کارڈز‘‘ جاری کیے ۔ بعد ازاں، مرکز اور پنجاب میں بھی حکومت بنانے کے بعد 2019ء میں پہلے سے جاری پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام کے تحت ’’صحت سہولت پروگرام‘‘ کا آغاز کیا۔ اس پروگرام میں رجسٹرڈ خاندانوں کوصحت انصاف کارڈکے ذریعے علاج معالجے کی سہولتیں مفت فراہم کی جائیں گی۔

ذرایع کے مطابق صحت انصاف کارڈزپاکستان و پنجاب بیت المال، محکمۂ زکوٰۃ و عُشر اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے مستحق افراد ہی کو جاری کیے جائیں گے۔ فی الوقت صحت کارڈ کی سہولت 53شہروں میں میسّر ہے۔ اگر کسی فرد کا تعلق ان میں سے کسی ایک شہر سے ہے اور وہ صحت کارڈ حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اُسے سب سے پہلے اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر 8500پر ایس ایم ایس کرنا ہو گا۔ سی این آئی سی نمبر بھیجنے کے فوراً بعد اُسے ایک جوابی ایس ایم ایس موصول ہو گا، جس کے ذریعے اُسے یہ پتا چل جائے گا کہ آیا وہ صحت کارڈ کا اہل ہے یا نہیں۔

ایس ایم ایس کے علاوہ متعلقہ ویب سائٹ پر بھی اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر ڈال کر صحت کارڈ کے لیے اہل یا نا اہل ہونے کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کارڈ حاصل کرنے کے اہل ہیں، تو پھر اپنے ضلعے میں قائم صحت انصاف کارڈ ڈسٹری بیوشن سینٹر سے اپنا کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ منتخب کردہ سرکاری و نجی اسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے صحت کارڈ کے ساتھ قومی شناختی کارڈ دکھانا لازم ہے اور اگر کسی بچّے کا علاج کروانا مقصود ہو، تو اُس کا ’’ب فارم‘‘ ساتھ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔

پہلے مرحلے میں پنجاب میں 70لاکھ خاندانوں میں صحت انصاف کارڈز تقسیم کیے جائیں گے، جن کے کُل ارکان کی تعداد تقریباً 3کروڑ 50لاکھ بنتی ہے، جب کہ فروری 2019ء میں اس منصوبے کے آغاز سے لے کر اب تک کم و بیش 30لاکھ افراد صحت انصاف کارڈ حاصل کر چُکے ہیں۔ نیز، کارڈ ہولڈرز کو پینل پر موجود اسپتالوں کی فہرست بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ وزیرِ صحت پنجاب، ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق ’’گرچہ اس وقت صحت کارڈ کے تحت علاج پر آنے والے اخراجات کی حد 7لاکھ 20ہزار روپے مختص کی گئی ہے، لیکن بوقتِ ضرورت اس رقم میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ نیز، اپنے ضلعے سے باہر جا کر علاج کروانے والے افراد کو سفر کے اخراجات بھی دیے جائیں گے۔‘‘

تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پروگرام میں منہگے آپریشنز اور علاج کی سہولت کیوں شامل نہیں کی گئی ؟ مذکورہ پروگرام کو ثانوی اور ترجیحی علاج میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ثانوی علاج کے لیے اسپتال میں داخلے کی صورت میں کارڈہولڈرز کو سالانہ 60ہزار روپے تک کی رقم کا تحفّظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس کٹیگری میں حمل و زچگی اور ان سے متعلقہ عوارض، ایسے حادثات، جن کے نتیجے میں اسپتال میں داخل ہونا ضروری ہو، اور اسپتال سے رخصت ہونے کے بعد ایک بار مفت طبّی معاینہ شامل ہے۔ ثانوی علاج کے لیے اسپتال میں داخلے کی صُورت میں ایڈمٹ ہونے سے ایک دن قبل کی اور ڈس چارج ہونے کے بعد پانچ دن کی ادویہ کی فراہمی بھی اسپتال کرے گا، جب کہ ترجیحی علاج کی غرض سے اسپتال میں داخل ہونے والے رجسٹرڈ خاندانوں کو 3لاکھ روپے تک کی رقم کا تحفّظ فراہم کیا گیا ہے، جسے علاج طویل ہونے کی صورت میں 7.5لاکھ روپے تک بڑھایا جائے گا۔

اس درجے میں امراضِ قلب اورذیابطیس سے متعلق وہ پیچیدگیاں کہ جن کے باعث اسپتال میں داخل ہونا ضروری ہو، حادثے کی صُورت میں لگنے والی چوٹیں، اعضا (دل، جگر، گُردوں، پھیپھڑوں) کے ناکارہ ہونے کی صورت میں علاج (ماسوائے پیوندکاری)، دائمی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں کا علاج، جیسا کہ یرقان، کالا یرقان، آخری درجے پر گُردوں کی بیماری اور اعصابی نظام کی جرّاحی وغیرہ شامل ہے۔ کارڈ میں رقم موجود ہونے کی صُورت ہی میں اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، جب کہ منتخب کردہ اسپتال میں پیدایش کی صُورت میں رجسٹرڈ خاندان کے نئے فرد کو بھی صحت کارڈ سے مستفید ہونے کی سہولت حاصل ہو گی۔

صحت کارڈ کو صرف اسپتال میں داخل ہو کر علاج کروانے کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نیز، اسے استعمال نہ کرنے کی صورت میں کارڈ ہولڈرز کو کسی بھی قسم کی رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ اسپتال میں داخل ہونے کی صُورت میں مریض کو ایک سال میں زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ کرائے کی مد میں ایک ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں، مریض کے دورانِ علاج فوت ہو جانے پر اس کی تجہیز و تدفین کے لیے مبلغ 10ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔ پروگرام میں رجسٹرڈ خاندان کے افراد کے لیے تعداد اور عُمر کی کوئی قید نہیں۔

صحت سہولت پروگرام میں خواتین کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ثانوی علاج میں نارمل ڈیلیوری، سی سیکشن/ سرجری، زچگی کی پیچیدگیاں، بچّے کی ولادت سے پہلے چار بار اور ولادت کے بعد ماں اور بچّے کا ایک بار معاینہ، حفاظتی ٹیکے اور خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ شامل ہیں۔نیز، پروگرام میں ہر قسم کی او پی ڈی، خود کُشی کی کوشش، شراب نوشی سمیت دیگر نشہ آور اشیا و ادویہ کے استعمال، جنسی، نفسیاتی و اعصابی امراض، جراحی برائے تبدیلیٔ جنس، بانجھ پن کے خاتمے اور ہارمونز کی بے قاعدگی کے علاج اور ان سے متعلق تشخیصی ٹیسٹوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔

پروگرام کے تحت پینل پر موجود اسپتالوں میں کارڈ ہولڈرز کی راہ نمائی کے لیے کائونٹرز بنانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا، لیکن اس پر تا حال عمل درآمد نہیں ہو سکا، جب کہ دیگر اُمور بھی سُست روی کا شکار ہیں۔ اسی طرح صحت کارڈ میں تیزی سے پھیلتے امراض، ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر کے علاج کا بھی کوئی ذکر نہیں، جب کہ ذیابطیس سے متاثرہ مریض کو کسی قسم کی پیچیدگی لاحق ہونے کی صُورت میں اسپتال میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، سات لاکھ سے زاید رقم تو مختص کر دی گئی ہے، لیکن اوپن ہارٹ سرجری سمیت کسی بھی پیوند کاری کو شامل نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم کی معاونِ خصوصی برائے سماجی تحفّظ، ڈاکٹر سنیعہ نشتر کے مطابق آیندہ مالی سال کے بجٹ میں سماجی بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا اور ساتھ ہی رواں برس ستمبر میں سماجی تحفّظ کا پروگرام بھی متعارف کروایا جائے گا۔ نیز، ملازمتوں میں معذور افراد کے 2فی صد کوٹے پر بھی سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا، جب کہ معذور حکومتی اہل کاروں کے لیے سرکاری رہایش گاہوں میں 2فی صد کوٹا مختص کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔

معاونِ خصوصی نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ مستحق معذور افراد کو وِہیل چیئرز، آلۂ سماعت اور سفید چَھڑیاں مفت مہیا کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں، نادرا میں رجسٹرڈ تمام مستحق معذور افراد کو بھی صحت کارڈز جاری کیے جائیں گے، تاکہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کا مفت علاج کروا سکیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام سہولتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تمام سرکاری اسپتالوں کو اقوامِ متّحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام معذور افراد کو سرٹیفکیٹس جاری کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ پس ماندہ علاقوں کے 20اسپتالوں میں معذور افراد کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے جائیں گے، جہاں مصنوعی بازو اور ٹانگیں لگانے کی سہولت بھی دست یاب ہو گی۔ نیز، ناگہانی آفات و حادثات کے شکار مستحق افرادکے لیے، جن کے پاس صحت کارڈ موجود نہیں، ایک خصوصی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے 48گھنٹے میں انہیں علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

صحت سہولت پروگرام کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن اکثر کارڈ ہولڈرز اس کے استعمال اور اس کے تحت دی گئی سہولتوں سے واقف نہیں اور نہ ہی حکومت کی جانب سے انہیں اس سلسلے میں مناسب آگہی فراہم کی گئی ہے۔ دوسری جانب اس پروگرام کی ساکھ پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔مثال کے طور پر پنجاب میں صحت کارڈز تقسیم تو کر دیے گئے، لیکن یہ فی الوقت ایکٹیو یٹ نہیں کیے گئے۔

گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (نون) کی رُکن، رابعہ فاروقی کا تحریکِ التوا پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’پنجاب حکومت کے صحت کارڈز ایکٹیو یٹ نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے شہری علاج سے محروم ہیں۔ صحت کارڈز تقسیم تو کر دیے گئے، مگر کارڈ ہولڈر مریض علاج نہ ہونے کے باعث اسپتالوں سے مایوس لوٹ رہے ہیں۔ ‘‘یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر دسمبر 2019ء سے کارڈ کے لیے مختص کردہ رقم کی ٹرانزیکشن جاری ہے، تو پھر یہ رقم کہاں استعمال ہو رہی ہے۔

نیز، اگر کسی مرحلے پر غفلت یا کرپشن ہو رہی ہے، تو فوری طور پر اس کے تدارک کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ مؤثر نگرانی نہ ہونے کی وجہ ہی سے مُلک میں شروع ہونے والے عوامی فلاح و بہبود کے اہم منصوبے کرپشن کی نذر ہو گئے، جس کی حالیہ اور اہم ترین مثال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہونے والی کرپشن ہے۔ گزشتہ دنوں جھنگ کے علاقے، شور کوٹ سے تعلق رکھنے والے محمّد صدیق نامی کارڈ ہولڈر نے پنجاب کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ، لاہور سے اپنا علاج کروایا، مگر چوں کہ اس کا کارڈ ایکٹیویٹ نہیں تھا، لہٰذا اُسے اپنے عزیز و اقارب سے قرض لے کر علاج پر آنے والے اخراجات ادا کرنا پڑے۔

یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں، بلکہ اب تک ایسے متعدد واقعات سامنے آ چُکے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ غور ہے کہ کارڈ ہولڈرز کے پینل پر بیش تر سرکاری اسپتال ہیں، جہاں پہلے ہی حد سے زیادہ مریض موجود ہوتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کا معقول بندوبست بھی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر حکومت سرکاری اسپتالوں کے معیار میں بہتری لائے اور گزشتہ حکومتوں کی طرح پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں تشخیصی ٹیسٹ اور ادویہ کی سہولت مفت کر دے، تو اس کے نتیجے میں شہریوں کو کافی ریلیف ملے گا۔

یاد رہے کہ موجودہ پنجاب حکومت نے سابقہ حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی اس سہولت کو نہ صرف ختم کر دیا ہے، بلکہ ادویہ اور ٹیسٹوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے، جب کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت جوں کی توں ہے۔ بِلاشُبہ صحت سہولت پروگرام کے تحت صحت انصاف کارڈ کو کارگر بنانا قدرے مشکل کام ہے، مگر کارڈز سے متعلق پائے جانے والے ابہام دُور کر کے اس کے تحت طبّی سہولتوں کی فراہمی کو سہل بنایا جا سکتا ہے۔