اس شہر کی بزرگی سے انکار نہیں

February 13, 2020

تسنیم امجد

محرومی کسی بھی شے کی ہو، انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔اس شہر کی بز ر گی سے انکار نہیں۔عوام اس قدر مسا ئل کا شکار ہیں کہ ان کے لئے جینا محال ہو رہا ہے۔ہر سیاستدان اپنے انتخاب سے قبل یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں اسے لندن اور پیرس کے ہم پلہ بنا دو ں گالیکن ان سنہرے خوابو ں کے عوض جو دِکھائی دیتا ہے وہ بس وہی چوپٹ راج ، اس شہر کے بیشتر علاقے بنیادی سہو لتو ں سے محروم ہیں۔وہا ں کے باسی کبھی کبھار اپنی مدد آپ کے تحت سنوارنے کی کو شش کرتے ہیں لیکن کہاں تک ؟

مسلسل لا پر وائیوں نے مسا ئل کو بے تحاشا بڑ ھا دیا ہے۔کا ش ہم اپنی پہچان، تہذیب و روایات کی ہی حفاظت کرلیں۔ہم وہ جن سے دوسری قو مو ں نے سیکھا۔دنیا میں بو دو باش کے معیا ی انداز کیا ہیں، ہمارے آباء نے اقوام عالم کوسکھا یا ۔دوسروں نے ہماری تعلیمات کو مستعار لیا اور معزز بن گئے اور ہمارے لئے ہی مثال بن گئے۔

ہم اپنے ماضی پر فخر اور حال پر رونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

لکی اسٹار ، صدر ،کرا چی کا ایک اہم مقام ہے ۔کلفٹن جانے کا راستہ اسی سے ہو کر گزرتا ہے ۔آرام باغ روڈ،پا کستان نیوی فلیٹ کلب وغیرہ کے راستے پر جاتے ہوئے سوا ئے افسوس کے کچھ نہیں ہوتا۔ان تمام حالات کے باوجود یہ آج بھی وطن کا اقتصا دی پاور ہاؤس ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ رو شنیو ں کا شہر آج اندھیروں کا شہر بن چکا ہے ۔منی پاکستان کہلانے والا شہر ،بھتہ خوری ،قتل و غارت، لوٹ مار ،چوری ڈکیتی اور دیگر بےشمار مسائل میں گھرا ہے ۔صفائی ستھرائی کا بھی کو ئی معقول انتظام نہیں ۔سیو ریج سسٹم اس قدر خراب ہے کہ بارش کے بعد سڑ کو ں پر مہینو ں پا نی کھڑا رہتا ہے۔یو ں لگتا ہے کہ روشنیو ں کے اس شہر کو نظر لگ گئی ہے۔

وطن ہزا روں بلکہ لاکھوں جا نوں کی قر با نیوں سے حا صل ہوا۔ان کی قربا نیاں کیا اپنے لئے تھیں؟ ان ہی جیسا جذ بہ زندہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ وطن بھی گھر ہی ہے۔ جس طرح ہمیںصاف گھر اچھا لگتا ہے اسی طرح صاف ماحول بھی پسند ہو نا چاہئے۔اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی چلتی گاڑی سے اکثر آئس کریم یا چپس کے ریپر شیشہ کھول کر باہر پھینک دیتے ہیں۔

یہ خیال کئے بغیر کہ باہر سڑک صاف ہے۔اصولی طور پر جمہوریت عوام دوست ہوتی ہے، حکومتی پالیسیاں بناتے ہوئے عوام کی بہبود کا خیا ل رکھا جاتا ہے لیکن ا فسوس ہم صرف اشرافیہ کے تحفظ اور ان کے مفاد کو ترجیح د یتے ہیں، جبکہ عوام کی اکثریت استحصال کا شکار ہے ۔ بالا دست طبقے کی زندگی آسان سے آسان تر اور غریب عوام کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

کاش! ہم سمجھ سکیں کہ وطن تو ماں کی مانند ہے ،جس نے اپنے آنچل میں ہمیشہ ہمیں پناہ دی ہے ۔اس کے سر سے چادر کھینچنے کی کو شش سنگین غداری ہے۔شکایتوں سے پہلے اپنے گریبان میں جھا کنا ضروری ہے ۔

انتظا میہ کا کہنا ہے کہ شہر سے کئی ٹن گندگی روزانہ نکلتی ہے، جسے گا ڑ یوں میں بھر بھر کر شہر سے باہر لے جایا جاتا ہے ۔جہا ں تک سیوریج کا تعلق ہے ،یہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔نئے منصوبے کی شروعات سے قبل ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ضروری ہو جاتی ہے،اس طرح وقت کا بیشتر حصہ اس کی نذر ہو جاتا ہے ۔تب تک کی تا خیر نئے منصوبے کی تا خیر کا سبب بنتی ہے ۔ بجٹ تو منظور ہوا نئے منصوبے کے لئے لیکن اس ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کہاں سے ہو ؟

اس طرح منصوبے میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے ۔شہر میں 3 لاکھ 50 ہزار کے لگ بھگ مین ہول ہیں۔ان کے ڈھکنوں اور دوسری دیکھ بھال کے لئے الگ نگران چاہئے لیکن ایسا ہر گز نہیں۔ مین پاور کی کمی سے بھی ذمہ داریوں میں تاخیر ہوتی ہے ۔عوام کو یہ شعور کون دلائے کہ کر تا دھرتاؤں پر تکیہ کم سے کم کریں۔خود ہمت سے کام لیں ۔اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے یکجہتی کا دامن تھا میں تو ان شاءاللہ، قدرت کی جانب سے مدد ہو گی۔