جب ہم کورنگی میں رہتے تھے

February 13, 2020

شکور پٹھان

زندگی بڑی ہی پرسکون گذر رہی تھی۔ گھر میں کچھ نہیں تھا لیکن کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی۔ ضرورتیں الحمدللّٰہ پوری ہوجاتی تھیں، آسائشوں کی نہ طاقت تھی نہ ضرورت اور تعیشات کا تصور ہی نہیں تھا۔ ہم اپنی دنیا میں مگن تھے اور خوش تھے۔ سستا زمانہ تھا۔ ابا کی قلیل آمدنی میں بخوبی گذارہ ہوجاتا۔ کرائے کا کوارٹر تھا لیکن کرایہ ادا کرکے بھی گھر کا خرچ چل جاتا تھا ۔

اسکول کی کوئی فیس نہیں تھی ۔ اپوا اسکول کی فیس کا یوں یاد نہیں کہ یہ بھی سرکاری عمارت میں بنا ہوا تھا اور مجھے نہیں یاد کہ کبھی امی اسکول آئی ہوں فیس دینے۔ انہیں تو خبر ہی نہیں تھی کہ اسکول ہے کہاں؟۔ رہے ابا، تو وہ صبح سویرے کام پر نکل جاتے اور شام کو گھر آتے۔ اتوار کے سوا ابا نے ساری زندگی کبھی چھٹی نہیں کی۔ اسکول میں ہم فیس تو کیا دیتے الٹا ہمیں امریکی امداد کے تحت ہر ماہ سر بہ مہر گھی کے ڈبے اور خشک دودھ ملتا اور دلیہ کے پیکٹ ملتے، بلکہ امریکیوں کے پرانے کپڑے بھی ملتے جنہیں امی نے گھر لانے سے منع کردیا تھا۔ باجی کو بھی گھی اور دودھ ملتا جو ہماری مہینے بھر کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتا۔

خشک دودھ البتہ چائے میں نہ ڈالا جاتا کہ ان دنوں پاؤڈر کا دودھ، گڑ کی چائے وغیرہ “غربت” کی علامت تھا اور ہمارے گھر میں، جہاں بیٹھنے کے لیے کرسی تک نہ تھی اور ہم پٹروں اور پیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ، اپنے آپ کو کبھی غریبوں میں شمار نہ کرتے۔ امی ہماریہنر مند تھیں اور خشک دودھ اور دلیے سے مزے مزے کی چیزیں بناتیں۔

گھر میں جو دودھ آتا وہ اتنا خالص ہوتا کہ امی اس کی بالائی جمع کرکے ہمیں ناشتے کے لیے پراٹھے کے ساتھ “فریش کریم” بھی دیتیں ،جس کا اپنا ہی ایک مزہ تھا جو آج کل عنقا ہے۔ اسی بالائی سے امی اصلی گھی بھی بناتیں جو رمضان میں ہمیں چاولوں پر ڈال کر دیتیں۔ اصلی گھی کی اپنی ایک خوشبو تھی جسے سونگھ کر آج ہمارے بچّے منہ بناتے ہیں۔

آٹا ، چینی اور مٹی کا تیل راشن پر ملتا تھا،جس کا ہر گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق کوٹا مقرر تھا۔ شرافت اور ایمانداری کا زمانہ تھا اور راشن کارڈ میں غلط اندراج ایک گھناؤنا فعل سمجھا جاتا۔ راشن کارڈ سے سفید چینی ملتی، جس کا کوٹا، عید، بقر عید، شب برات اور رمضان میں بڑھا دیا جاتا، جس کا خصوصی اعلان اخبار میں کیا جاتا تھا۔

عیسائیوں، ہندوؤں، پارسیوں کو بھی کرسمس، ایسٹر، دیوالی اور نوروز وغیرہ پر خصوصی کوٹا ملتا۔اگر کسی تقریب وغیرہ کے لیے زیادہ چینی کی ضرورت ہو تو بازار سے خوردہ قیمت پر مل جاتی لیکن لوگ باگ زیادہ تر “ پاکستانی شکر” جو بھورے رنگ کی ہوتی یا گڑ سے کام چلا لیتے۔ اب پھر امی یاد آئیں، وہ گڑ سے جو چیزیں بناتی تھیں وہ چینی سے کہیں زیادہ مزیدار ہوتیں۔ ہماری امی اور دادی تو ویسے بھی گڑ کی چائے پیتی تھیں لیکن اس کی ترکیب کچھ اور تھی۔ وہ بغیر دودھ کی چائے کی سڑکیاں لیتیں اور گڑ کی ڈلیاں چوستی جاتیں۔ دوپہر، سہ پہر کبھی کھیلتے ہوئے بھوک لگتی تو امی روٹی پر گھی چپڑ کر اور گڑ کھرچ کر ایک “ رول” بنا دیتیں اور یہ ہمارا دل پسند کھاجہ ہوتا۔

رمضان بڑا ہی سادہ ہوتا۔ شام کو افطار سے کچھ پہلے دکان سے برف ہاتھ میں لے کر آتے جو بڑا مشکل کام تھا۔ راستے بھر برف ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کرتے۔ گھر میں یہ روح افزا یا شربت گلاب میں ڈالا جاتا۔ گھر میںاس کی خوشبو پھیلی ہوتی۔ آج بھی روح افزا شربت کا پہلا گھونٹ بچپن کی وادیوں میں لے جاتا ہے۔

گھر میں کیسے بھی حالات رہے، افطار کی ایک پلیٹ مسجد کے لیے ضرور بھیجی جاتی۔ مسجد سے گھر واپس آکر میں گلی کے نکڑ پر کھڑا ہوجاتا کہ ڈھول کی آواز سن کر دوڑتا ہوا گھر آؤں اور روزہ کھلنے کی اطلاع دوں۔ کورنگی میں بجلی نہیں تھی اور مسجد کے پاس ایک بڑا سا نقارہ نما ڈھول بجا کر کر افطار کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اور یہیں میں نے رمضان کے مکمل روزے رکھے۔

ابا جیسے ہی شام کو گھر آتے میں ان سےاخبار لے لیا کرتابچوں کی کہانیاں پڑھنے کے لیے،جس نے وہ کہانیاں پڑھی ہیں، وہ انہیں بھلا نہیں سکتے۔

آپ ذرا اس دور کا تصور کیجئے کہ نہ گھر میں ریڈیو تھا، ٹیلیویژن تو آیا ہی نہ تھا، نہ فرنیچر یا کوئی آسائش گھر میں تھی لیکن پڑھنے لکھنے کا ماحول موجود تھا ۔ ابا ہر ماہ باجی اور میرے لیے بچوں کا کوئی نہ کوئی رسالہ ضرور لاتے اور ہم بچپن سے کھلونا نئی دہلی، تعلیم و تربیت، بچوں کی دنیا، پھلواری اور غنچہ جیسے رسالوں کے قاری بن گئے تھے۔ یہی نہیں ، کبھی کبھار امی کے لیے “ بانو” زیب النِسا” یا حور وغیرہ بھی آتے۔ یہی نہیں ابا انگریزی کے رسالے” کھیلوں کا اخبار “ اسپورٹائمز” گجراتی اخبار “دیگر بہت سے اخبار وغیرہ لاتے تھے۔

گو ٹی وی اسٹیشن نہیں تھا لیکن صنعتی نمائش کی بدولت ہمیں کورنگی تھانے کے باہر نصب شدہ ٹیلیویژن پر پہلی بار 1963 میں ٹی وی دیکھنے کو ملا۔ لیکن آج میں ٹی وی کی نہیں بلکہ اس نمائش کی بات کروں گا جو کبھی کراچی میں لگی تھی اور اس جیسی نمائش میں نے کراچی تو کیا، کہیں اور بھی نہیں دیکھی۔

پاکستان بین الاقوامی صنعتی نمائش (Pakistan International Industrial Fair ) موجودہ ایکسپو سینٹر اور نیشنل اسٹیڈیم کے درمیان والے علاقے پر لگی تھی۔ اس سے پہلے یہ بندر روڈ کے اختتام پر یعنی موجودہ “ پرانی نمائش” پر لگی تھی جو میں نے نہیں دیکھی۔ لیکن نئی نمائش تو یوں لگتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے۔

سن تریسٹھ کی اس نمائش کا سحر بھلائے نہیں بھولتا۔ اس نمائش کا تصور کرتا ہوں تو سب سے پہلے اسے بڑے سے شعلے کا خیال آتا ہے جو سوئی گیس کمپنی کے اسٹال کی چمنی سے بلند ہوتا تھا اور دور سے نظر آتا تھا۔ اسی طرح ریلوے کا اسٹال تھا، جہاں ایک بہت بڑا سا ماڈل ریلوے لائنوں اور اسٹیشنوں کا تھا، جن پر ریلیں دوڑتی پھرتی تھیں۔

ایک اسٹال شاید کے پی ٹی یا نیوی کا تھا، جہاں ایک چھوٹا سا جہاز پانی میں کھڑا تھا۔ جرمنی والوں کے اسٹال پر پہلی بار مشینی آدمی یا“ روبوٹ” دیکھا۔ ایک اسٹال TIP یعنی ٹیلیفون انڈسڑی آف پاکستان کا تھا ،جہاں نمونہ ٹیلیفون پر زندگی میں پہلی بار “ ہیلو” کہا۔

اس نمائش کی رنگینی بیان کرنا میرے قلم کی طاقت سے باہر ہے۔ ہر اسٹال سے کچھ نہ کچھ تحفے ضرور ملتے۔ کھانے پینے کے اسٹال اس لحاظ سے یادگار ہیں کہ یہاں سے دو ایسے مشہور نام ابھرے جو آج تک موجود ہیں ۔ ایک تو تھے پراٹھا کباب والے “ بندو خان” اور دوسرے شاہی حلیم والے “ گھسیٹے خان”۔ میں نے دوبئی جیسے شہر میں، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک نمائشں دیکھی ہیں لیکن سن تریسٹھ کی اس نمائش کا سحر بھلائے نہیں بھولتا۔