’’باقی لائبریری‘‘ کراچی کی ادبی سرگرمیوں کی معروف درسگاہ

February 13, 2020

حیات رضوی

جوبلی سنیما سے بوہرہ پیر جاتے ہوئے ایک کم چوڑی، مگر مصروف سڑک سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک بازار کے نکڑ پر ختم ہوتی ہے پھرآگے جاکر یہی سڑک مشن روڈ بن جاتی ہے، جس پر کراچی یونیورسٹی کے دفاتر ہیں،بازار کے نکڑ پر بوہرہ پیر بزرگ کا مزار بائیں جانب پڑتا ہے،یہیں سے اگر آپ بائیں طرف اسلم روڈ پر مُڑ جائیں تو فوراََ بائیں ہاتھ پر ہی لکڑی کا ایک بہت بڑا دروازہ ہوا کرتا تھا ،جس پرنمایاں اردو الفاظ میں ’’باقی لائبریری‘‘ لکھا ہوا تھا ۔یہی وہ جگہ ہے جو کراچی کی ادبی سرگرمیوں کی اولین درسگاہ ہے۔یہ پچاس کی دھائی کا قِصہ ہے جب کراچی شہر بڑا پُر سکون ہوا کرتا تھا اور راتوں کو پیدل چل کر لوگ باگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے میں کوئی ڈر خوف یا تکلف نہیں کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ باقی لائبریری میں ہونے والے ماہانہ مشاعروں میں پیر کالونی،ناظم آباد ،گولیمار(اب گلبہار) ،لالو کھیت (ا ب لیا قت آباد)،مسلم لیگ کوارٹرز،پاپوش نگر بلکہ کراچی کے تمام علاقوں سے علم دوست حضرات شرکت کرتے تھے اور رات گئے پیدل یا سائیکلوں پر واپس چلے جاتے تھے اور انہیں سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوتا تھا۔سن 58 میں ایوب خاں کے مارشل لاء کے موقع پر رات کے دو بجے ہم لوگ باقی لائبریری سے گولیمار سائیکلوں پر جارہے تھے کہ چند فوجیوں نے لارنس روڈ (اب نشتر روڈ ) پر مزاحمت کی ،دریافت کرنے پر بتایا کہ مشاعرے سے واپس آرہے ہیں ،پوچھنے لگے ’’یہ مشاعرہ کیا ہوتا ہے؟‘‘وضاحت پر بھی اُن کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ’’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا ‘‘۔اب عالم یہ ہے کہ رات بِرات ایسا واقعہ ہوجائے تو بڑی شستہ اردو میں کہتے ہیں کہ ’’آپ بھی تو تعاون فرمائیں نا جی ! ‘‘۔

’’باقی لائبریری ‘‘عبدالباقی صاحب کی تھی جو مشاعرے کے انتظامات میں مصروف نظر آیا کرتے تھے،اس کے علاوہ کچھ معلوم نہیں کہ یہ کب قائم ہوئی تھی اور اس کے مصارف کس طرح پورے ہوتے تھے ؟۔ہر ماہ کے پہلے سنیچر کو بعد نماز عشاء بغیر کسی تعطل کے ،پوری پابندی کے ساتھ یہ مشاعرہ ہوا کرتا تھا ،بغیر دعوت ناموں کے صلائے عام تھی یارانِ نکتہ داں کے لیے۔مشاعرے کے درمیان کوئی گیارہبجے کے قریب باقی صاحب تمام حاضرینِ محفل کو چائے پیش کرتے تھے کیونکہ مشاعرہ رات ایک ڈیڑھ بجے تک چلتا تھا ،کبھی کبھی اس سےزیادہ کا عمل بھی ہوجاتا تھا۔

شاعروں کے لیے کوئی قید نہ تھی ،ہر شخص کلام سنا سکتا تھا ۔یوں تو کراچی شہر میں اور بہت سی جگہوں پر بھی مشاعرے ہوتے تھے ،مگر وہ زیادہ تر لوگوں کے گھروں پر ہوتے تھے ،جیسے ڈاکٹریاور عباس کے ہاں کا مشاعرہ ،سعید منزل پر سعید صاحب کے یہاں کی نشستیں،مولانا اسد القادری کے یہاں گرومندر پر مشاعرہ،صابرتھاریانی کے یہاں جوش صاحب یا نسیم امروہوی کی آمد پر مشاعرہ ،لالو کھیت ڈاک خانے پر عارف سنبھلی اور ان کے دوستوں کا مشاعرہ،غرض گھروں پر ہونے والے بعض مشاعرے ماہانہ بنیاد پر بھی ہوتے تھے،مگر باضابطہ کسی ادارے کی طرف سے ماہانہ بغیر تعطل کے صرف باقی لائبریری کا مشاعرہ ہی ہوتا تھا۔

آندھی جائے یا طوفان آئے یہ مشاعرہ ہر حالت میں منعقد ہوتا تھا ۔ بعض تنظیمیں تجارتی بنیاد پر ٹکٹ لگا کر بھی مشاعرے کرتی تھیں، جن میں بھارت،پاکستان کے شاعر شرکت کرتے تھے ۔ایسا ایک مشاعرہ پُرانی نمائش ’’کے۔جی۔اے گرائونڈ میں ہوا تھا، جس میں جگر مرادابادی نے بھی شرکت کی تھی۔مگر ’باقی لائبریری‘ کے مشاعرے کی بات ہی کچھ اور تھی۔

یہاں آنے والے شاعروں کے نام جب آپ پڑھیں گے تو خود آپ کو بھی حیرت ہوگی،یہ ایک کہکشاں تھی جو کبھی کراچی کے مطلعِ ادب پر جلوہ افروز تھی ،ان ہی لوگوں کا صدقہ ہے جو آپ کو اس شہر میں علمی ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں ،اس دہشت و وحشت کے ماحول ،ٹارگٹ کلنگ،بھتّہ خوری،اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت گری کے باوجود، اسی شہر میں عالمی مشاعرے،عالمی اردو کانفرنسیں اور ادبی جرائدکی اشاعتیں ہوتی ہیں۔

اس لائبریری میں آنے والے شعرائے کرام میں حضرت ارم لکھنوی،ادیب سہارنپوری، عندلیب شادانی،لیث قریشی،عنبر چغتائی، اور ماہر القادری وغیرہ کا شمار اُس وقت بھی اساتذہ میں ہوتا تھا،سرشار صدیقی ،کرار نوری،رسا چغتائی، نذر جعفری،یاور عباس،اکبر درانی،عابد حشری،شاہد الوری اوررضی اختر شوق اُس وقت جوان تھے اور جوان شاعروں ہی میں ان کا شمار ہوتا تھا۔عارف سنبھلی ،جون ایلیا ،عقیل دانش ،انور مقبول انصاری(اب سحر انصاری) اور انور افسر شعور(اب انور شعور) نوجوان شعرا میں شمار ہوتے تھے ۔

عابد حشری اور حمایت علی شاعر کبھی کبھی حیدراباد سے تشریف لاتے تو لائبریری کی رونقیں دوچند ہوجاتیں۔حمایت علی شاعر کی نظم ’’تجھکو معلوم نہیں ،تجھ کو بھلا کیا معلوم‘‘اُس وقت بھی اتنی ہی مقبول تھی اور فرمائشی طور پر سُنی جاتی تھی۔ ادیب سہارنپوری جب ’’اے مری عمر رواں،اور ذرا آہستہ ‘‘پڑھتے تو ان کے کلام اور ترنم سے پوری محفل لوٹ پوٹ ہو جاتی۔

باقی لائبریری کے علاوہ بھی شہر میں کئی دارالمطالعے تھے، مگر مشاعرے کا اہتمام یہیں ہوتا تھا ،بہت بعد میں جب ناظم آباد میںغالب لائبریری بنی تو وہاںنیشنل بینک کے ممتاز حسن اورمرزا ظفرالحسن نے مشاعرے سے ہی بسم اللہ کی ،بعد میں بھی یہاں مشاعرے ہوتے رہے۔مشاعروں کا ذکر چلا ہے تو ایک زمانہ کراچی پر ایسا گزرا کہ تمام کالجوں کے ہفتہء طلبا میں ایک دن مشاعرے کا بھی رکھا جاتا تھا۔

یہ ہفتہء طلبا ہر سال منایا جاتا تھا اور ہر کالج میں اسٹوڈنٹس یونین کا فنڈ اس ہفتے کے لیے مخصوص کیا جاتا تھا، جس میں ایک سالانہ مجلّہ شائع کرنا بھی یونین کے فرائض میں داخل تھا ،اب نہ کالجوں کی اسٹوڈنٹس یونینیں ہیں نہ اُن کے ہفتہٗ طلبا ہیں نہ ان میں مشاعرے اور مجلّے ہیں ،ہر چیز پر جھاڑو پھر گئی۔

ایک ماہانہ مشاعرہ اور بھی ہوتا تھا جو ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوتا تھا، یہ ریڈیو کراچی کے ڈائرکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری نےشروع کیا تھا، اس مشاعرے میں بھی تقریباََ وہی شاعر حضرات تشریف لاتے تھے جو ہر ماہ باقی لائبریری کے مشاعروں میں بھی موجود ہوتےتھے۔

اس وقت بھی کراچی میں بہت سی لائبریریاں قائم ہیں، مگر مشاعرے کی کوئی روایت کسی جگہ نہیں ہے ۔لیاقت نیشنل لائبریری ،بیدل لائبریری بہادر آباد،بہادر یار جنگ لائبریری ،غالب لائبریری ناظم آباد،تیموریہ لائبریری نارتھ ناظم آباد،حسرت موہانی لائبریری بھی اسی علاقے میں ہے،بندر روڈ پر تھیو سو فیکل لائبریری موجود ہے،ایجو کیشنل کانفرنس لائبریری مسلم لیگ کوارٹرز ناظم آباد،شعبہء اردو کراچی یونیورسٹی لائبریری،کے۔ایم۔سی کی سینٹرل لائبریری جو کورنگی میں غالب سنیما کے سامنے ہے،ڈیفنس سوسائٹی کی سینٹرل لائبریری جو سن سیٹ بولیوارڈ کی چھٹی اسٹریٹ پر واقع ہے۔

سولجر بازار کی گلزارِ حبیب لائبریری،اسماعیلیہ جماعت خانہ بریٹو روڈ کی درکھن لائبریری ،فیروز شاہ اسٹریٹ آرام باغ کی انسٹی ٹیوٹ لائبریری وغیرہ بہت سی لائبریریاں ہیں اس کے علاوہ بھی ایسی لائبریریاں موجود ہیں جو مختلف مکاتبِ فکر نے یا مختلف شعبوں کے لوگوں نے قائم کی ہوئی ہیں، مگر جو کام باقی لائبریری نے انجام دیا ہے وہ بھاری پتھر سمجھ کر سب لوگوں نےچھوڑ دیا ہے۔کبھی کبھی مشاعرے یا ادبی نشستیں کرلینا اور بات ہے، مگر پابندی سے کسی مقصد کو نباہنا چیزے دیگر است۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’باقی لائبریری‘‘ کا نام ہمیشہ ’’باقی‘‘ رہے گا۔