کراچی: جناح اسپتال کے ڈاکٹروں کا احتجاج، مریض پریشان

February 13, 2020


جناح اسپتال کراچی کے ڈاکٹروں نے جمعرات کو اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا اور دو گھنٹے تک او پی ڈی کا بائیکاٹ کیا، جس کے باعث مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

سینئیر پروفیسرز، فیکلٹی اور ینگ ڈاکٹرز نے کام چھوڑ کر نجم الدین آڈیٹوریم کے سامنے صبح 9 سے 11 بجے تک احتجاج جاری رکھا اور سرجیکل او پی ڈی تک ریلی بھی نکالی۔

مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کےمطالبات اور مختلف نعرے درج تھے۔ اس موقع پر مسیحا کو مسیحا رہنے دو، ڈاکٹرز کی حقوق کی پامالی بند کرو، جناح اسپتال سے انصاف کرو اور ہمارے مطالبات پورے کرو سمیت دیگر نعروں کی گونج سنائی دی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ جناح اسپتال کی وفاق کو منتقلی کے دوران ڈاکٹروں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اب ڈاکٹروں کی ترقی کے لیے نئے سرے سے ڈی پی سی قائم کر دی گئی ہے۔ جس سے سینئیر پروفیسرز کے گریڈ کم ہورہے اور انہیں دس سال پیچھے دھکیلا جارہا ہے، جس کے سبب وہ سینئیر سے دوبارہ جونیئر بن جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لئے پیر کو پریس کانفرنس کی تھی اور وفاقی و صوبائی حکومت کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا کہ مسائل کے حل کے لئے کمیٹی بنائی جائے اور مسائل حل کیے جائیں، لیکن 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اس لئے احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسپتال کے ڈاکٹروں کو جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہنے دیا جائے، سندھ حکومت اور وفاقی حکومت ایک کمیٹی بنائے جو ڈاکٹروں سے مذاکرات کرے، خدا کے لئے ایسے اقدامات نہ کریں جس سے انتشار پھیلے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کمیٹی نہ بنائی گئی اور مسائل حل نہ کیے گئے تو جمعہ کو بھی احتجاج جاری رہے گا، جس کے بعد پیر سے او پی ڈی کا مکمل بائیکاٹ کریں گے پھر بھی مسائل حل نہ کیے گئے تو شعبہ حادثات کے سوا تمام شعبہ جات بند کر دیں گے۔

مظاہرے میں اسپتال کے پروفیسر اقبال آفریدی، پروفیسر سمیر قریشی، پروفیسر صغراں پروین، پروفیسر حلیمہ یاسمین، پروفیسرخالد شیر، پروفیسر منان جونیجو، پروفیسر شہزاد علی، پروفیسر خدیجہ بانو، پروفیسر لعل رحمان، ڈاکٹر ذیشان علی جونیجو، ڈاکٹر محمد رزاق ڈوگر، ڈاکٹر ہرتمینہ خان، ڈاکٹر جاوید اکبر درس، ڈاکٹر نوشین سیف، ڈاکٹر شبنم نوید، ڈاکٹر عمر سلطان سمیت تقریباً تمام شعبہ جات کے سینئر پروفیسرز، فیکلٹی اور ڈاکٹروں نے شرکت کی۔

بعد ازاں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور سیکریٹری صحت زاہد علی عباسی نے ڈاکٹروں کو مذاکرات کے لئے طلب کیا اور احتجاج ختم کرنے کی درخواست کی۔

صوبائی وزیر صحت اور سیکریٹری صحت کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کے باعث وہ فی الحال کچھ نہیں کر سکتے اس لئے مارچ تک انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال کچھ واضح نہیں کیا جارہا۔ وفاقی حکومت بیانات تو دے رہی لیکن اسپتال چلانے کے لئے کیا ان کے پاس پیسہ بھی موجود ہے؟ اس کا کوئی علم نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مارچ تک صورتحال واضح ہو جائے گی اگر وفاقی حکومت اسپتال چلائے گی تو ان سے اس سلسلے میں بات کی جائے گی تاکہ ڈاکٹروں کے مسائل حل ہو سکیں اور مریض متاثر نہ ہوں ۔

صوبائی وزیر و سیکریٹری صحت کی جانب سے ڈاکٹروں کو مکمل یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کی جانب سے کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی اور مسائل حل کیے جائیں گے لیکن اس کے لئے مارچ تک انتظار کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب ڈاکٹروں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ سندھ حکومت مسائل کا حل چاہتی ہے لیکن ان کے ہاتھ میں تاحال کچھ نہیں ہے۔ ڈاکٹروں نے وفاقی حکومت سے مایوسی کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال ان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ عدالتی احکامات پر وفاقی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، وہ اسپتال لینے کے لئے بیان بازی تو کر رہی ہے لیکن عملی اقدامات کا فقدان ہے ۔

انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبے کے سب سے بڑے اسپتال کے ڈاکٹروں کی خدمات کو سراہا جائے اور مسائل کو حل کیا جائے۔