21فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ، تقاریب ٗسیمینارز اور مباحثے ہونگے

February 20, 2020

پشاور ( احتشام طورو ٗ وقائع نگار )مادری زبانوں 21فروری کے عالمی دن کے حوالے سے ملک بھر کی طرح صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ بھر میں تقریبات ٗمباحثے منعقد ہوں گے جس میں صوبے کے مختلف زبانوں کے ادیب ٗمحققین اور شعراء اظہار خیال کریں گے اس حوالے سے محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام آج بروز جمعرات صبح ساڑھے دس بجے خیبر یونین ہال اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاو رمیں ایک تقریب منعقد ہوگی اسی طرح 21فروری کو جمعہ کے روز پشتو اکیڈمی پشاور یونیوررسٹی میں مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے جو صبح نو بجے شروع ہوگا سیمینار کے دو سیشنز ہوں گے اسی طرح صوبہ بھر کے دیگر اضلاع میں بھی مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے تقریبات ٗمباحثے او سیمینار ہوں گے مادری زبانوں کی اہمیت کے حوالے سے روزنامہ جنگ کے رابطہ پر معروف دانشور شاعر وادیب پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے بتایا کہ دنیا کے تمام دانشور اور سیاستدان اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی ان قوموں نے ترقی کی ہے کہ جن کی زبان درس وتدریس ٗدفتر اور کاروبار کی زبان ہو چین ٗجاپان ٗفرانس ٗجرمنی ٗیورپ اور امریکہ کی شکل اسکی مثالیں موجود ہیں اسکے برعکس جب ہم اپنے ارد گرد کا مشاہد ہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم لاکھ اپنی زبان کی افادیت اور اہمیت پر تقرریں کریں اور مقالات لکھتے رہیں کانفرنس کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم ایسے ملک میں رہائش پذیر ہیں جس کی قومی زبان سکولوں میں بولنا اور قومی لباس پہنانا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ معروف ادیب و شاعر اور محکمہ ثقافت خیبر پختونخوا کے سابق ماہر لسا نیات اکبر ہوتی ایڈووکیٹ نے جنگ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 26 مادری زبانیں بولی جاتی ہےجن میں 72فیصد افراد پشتو ٗ28فیصد افراد ہندکو ٗسرائیکی ٗکوہستانی ٗکہوار ٗشینا ٗطور والی ٗگوجری وغیرہ بولتے ہیں انہوں نے بتایا کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل نہ کرنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ بچوں میں سمجھ کر پڑھنے کی بجائے رٹا سسٹم فروغ پا رہا ہے جسکی وجہ سے سائنسدان، محقق اور موجد پیدا نہیں ہوتے۔ تعلیم میں عدم دلچسپی کی وجہ سے اکتاہت اور ابتدائی جماعتوں میں ہی سکول چھوڑنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔تخلیقی صلاحتیوں کا پیدا نہ ہونا اور دوسروں کی تخلیق پر لکیر کا فقیر بنے رہنے کا رجحان غالب ہو رہا ہےن کا کہنا تھا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم مادری زبانوں کے ساتھ خود ہی مخلص نہیں ہیں۔ 21 فروری کے دن جگہ جگہ مختلف تنظیموں کے لوگ مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کے لیے حکومت سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں اگر یہ تمام لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں تو نتیجہ زیادہ بہتر آ سکتا ہے۔’ہم لوگوں میں اتحاد کی کمی ہے جس کا ہونا بہت ضروری ہے جب تمام لوگ آپس میں مل کر کام کریں گے تو حکومت بھی سوچنے پر مجبور ہو گی کہ یہ سب ایک ہیں اور ان کا مقصد بھی ایک ہے۔ ممتاز دانشوروں ناصر علی سید ٗلا!ئق زادہ لائق نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 2 ہفتے میں ایک زبان اپنی تمام تر ثقافت اور ادب سمیت متروک ہوجاتی ہے۔مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے اپنے گھر اور خاندان سے ورثے میں ملتی ہے جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے تو زبانوں کے متروک ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فیصد آبادی اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے جو وہ بولتی یا سمجھتی ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے دنیا کی 16 فیصد آبادی یعنی 1 ارب 20 کروڑ افراد بولتے اور سمجھتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہےآکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6 ہزار 9 سو 12 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔یونیسکو کے مطابق ہر 14 دن بعد دنیا میں بولی جانے والی ایک زبان متروک ہوجاتی ہے۔ اگلی صدی تک دنیا کی نصف لگ بھگ 7 ہزار زبانیں متروک ہوجائیں گی۔پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیںسب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، 8 فیصد پشتو، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں مادری زبان نہ صرف انسان کی شناخت اور اظہار کا ذریعہ ہیں بلکہ بیش قیمت روایات بھی رکھتی ہیں۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کر کے محفوظ بنایا جانا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکے