بلوچستان کے ذخائر اسی صوبہ پر خرچ کئے جائے

February 20, 2020

بلوچستان کو مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کی جانب سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور صوبے کو ملک کے دوسرئے حصوں کے برابر لانے کے جہاں اعلانات اور وعدئے کیے جاتے رہے ہیں وہاں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ وفاق کی جانب سے نہ تو بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے و اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے کبھی اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ وفاق کی جانب سے بلوچستان کو اس کا جائز مقام بھی نہ دینے کی شکایت بھی پرانی ہے ، ایسے میں گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ریکودک کے زخائر سے ملک کے قرضے ادا کرنے کی بات سامنے آئی تو اس پر بلوچستان اسمبلی میں ارکان نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ، اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے جانے والے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے وزیراعظم کے ریکودک سے متعلق بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے ریکوڈک کے سونے سے ملک کے قرضے اتاریں گے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسلام آباد میں جو بھی حکمران آتے ہیں۔

ان کی نظریں ہمیشہ بلوچستان کے وسائل پر ہوتی ہیں ، وفاق ریکوڈک کسی ملک یا کمپنی کو دے دیتا ہے تو اس سے ملک کے قرضے تو ختم ہوجائیں گے لیکن یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی آئین اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت معدنی وسائل پر صوبوں کا اختیار ہے اس کے باوجود وزیراعظم کی جانب سے ریکوڈک کے حوالے سے یہ ان کا دوسرا بیان آیا ہے ہم ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ معدنی وسائل پر اب وفاق کا کوئی اختیار نہیں ، یہ بلوچستان اسمبلی کا مینڈیٹ ہے کہ یہاں کے معدنی وسائل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرے اور بلوچستان کے وسائل بلوچستان کی ترقی کے لئے ہیں ، وفاق کے قرضے اتارنے کے لئے نہیں آئندہ وفاق کی جانب سے ایسے بیانات سے گریز کیا جائے ۔

انہوں نے عندیہ دیا کہ اس مسلے کو بلوچستان نیشنل پارٹی وفاق میں بھی اٹھائے گی اور پارلیمنٹ میں اس پر بھرپور احتجاج کرئے گی ۔ صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے معدنی وسائل بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہیں ہم اس ملک کے شہری ہیں اور اس ملک کا آئین ہمیں ہمارے معدنی وسائل کے حوالے سے تحفظ دیتا ہے ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر اکبر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے اکثر علاقے آج بھی گیس کی سہولت سے محروم ہیں اور بنیادی سہولیات دستیاب نہیں جبکہ وزیراعظم کا بیان آیا ہے کہ ہم ملک کا تمام قرضہ ریکوڈک سے ادا کریں گے ہم پوچھتے ہیں کہ ہم کیوں ادا کریں ، ہم وزیراعظم سے کہتے ہیں کہ آپ کوئی منصوبہ تو ہمارے لئے چھوڑیں تاکہ ہم اس کی مدد سے اپنے لوگوں کی قسمت بدل سکیں ہمارے صوبے کو ترقی چاہیے تاکہ ہم اپنے صوبے کو باقی صوبوں کے برابر لائیں ہمارے لوگوں کو آج بھی علاج معالجے کی سہولت تک دستیاب نہیں ۔

جمعیت علمااسلام کے اصغر علی ترین نے کہا کہ قلات سے نکلنے والے گیس کے ذخائر سے متعلق وہاں کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے صوبے کے ذخائر سے پنجاب کے لوگ ترقی کرکے ہم سے کئی گنا آگے نکل چکے ہیں حکومت بلوچستان کے قدرتی ذخائر سے متعلق واضح موقف اپنائے تاکہ بلوچستان کے لوگوں کی حالت زار تبدیل ہوسکے ۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کما ل خان عالیانی نے ہفتہ رفتہ کے دوران سوئی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سوئی پلانٹ کی لیز کے حوالے سے واضح کیا کہ سوئی پلانٹ کی لیز ختم ہوچکی ہے اور ہم اس مسلے پر تمام معاملات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ، ماضی کی طرح بلا سوچے سمجھے لیز میں توسیع نہیں کریں گے ، اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے دو تین نشستیں ہوچکی ہیں بات چیت کا یہ سلسلہ جاری ہے ، تاہم لیز میں توسیع کے معاملے میں ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے مفاد کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جائے گا ، لیز میں اس وقت توسیع کی جائے گی جب اس میں بلوچستان کا جائز حصہ تسلیم کیا جائے گا ، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ملک کی ترقی میں سوئی کا بہت بڑا کردار ہے جو 1954ء سے پورے ملک کو گیس فراہم کررہا ہے لیکن بدقسمتی سے سوئی ٹاؤن 2020ء میں بھی گیس، بجلی، پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، اس کی بنیادی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور فنڈز کی غیر مساویانہ تقسیم ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سوئی کی ترقی اور یہاں کے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے وسائل فراہم کرے گی۔

ہفتہ رفتہ کے دوران اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے جانے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھرارکان اسمبلی نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں شدید سرد موسم میں گیس پریشر میں کمی اور شدید برفباری میں متاثرین کی بروقت امداد نہ کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ، اپوزیشن ارکان نے حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ کئی دن تک برفباری میں پھنسے رہے جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے عوام کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا افسوسناک ہے اگر حکومت بہتر اقدامات کرتی تو اس برفباری کو تفریح کاموقع بنا دیتی لیکن حکومت کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں پی ڈی ایم اے کا مقصد بازار سے سامان کی خریداری اورمتاثرین تک پہنچانا رہ گیا ہے جس پر ہر بار اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں مگر اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا قدرتی آفات کے بعد جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے یہاں پر ضلعی انتظامیہ کے پاس مشینری اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بھی امدادی کاموں میں تاخیر ہوئی سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کئی ماہ قبل بارشوں اور برفباری کی پیشگوئی کردی گئی تھی مگر حکومت اور ذمہ دار محکموں نے حالات سے نمٹنے کے لئے قبل از وقت کوئی اقدامات نہیں کئے اگر عوام کو بروقت صورتحال سے آگاہ کردیا جاتا اور متعلقہ محکمے کو فعال کردیا جاتا تو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا آئندہ اس کا سدباب ہونا چاہئے ۔ گیس بلوچستان کی ملکیت ہے اورملک میں سب سے پہلے گیس ہمارے صوبے سے دریافت ہوئی جس سے پورا پاکستان مستفید ہوتا رہا اب وقت آگیا ہے کہ وفاق کے سامنے ڈٹ کر اپنے وسائل حاصل کرنے کی بات کی جائے گیس پریشرکے مسلے پر شدید احتجاج، وفاق کے ساتھ دو ٹوک انداز میں بات کی اورمسلےکو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا جائے۔