ن اور ق لیگ کے درمیان سیاسی قربتوں کی افواہیں دم توڑ گئیں

February 20, 2020

لاہور جو کبھی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا اب اس کی سیاسی سرگرمیوں میں قدرے ٹھہرائو آ گیا ہے اس کی وجہ پر بہت زیادہ بحث ہو سکتی ہے اور ہر ایک کے پاس اس کے لئے اپنے اپنے پراثردلائل بھی ہوں گےمگر یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ میاں برادران کے لندن جاتے ہی مسلم لیگ (ن) سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں لاہور میں ماند پڑ گئی ہیں ۔مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت ،صوبائی قیادت کوئی قابل ذکر سرگرمی نہیں کر پا رہی، مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ پر جس قدر خطرناک کیس بنا ہے اس کے بعد تو سب ہی ڈول جاتے ہیں مگر رانا ثناءاللہ نے ہیروئن برآمدگی کیس میں ضمانت کے بعد جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اسی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے۔

یہ صرف ان کا ہی حصہ ہے ۔انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی لاہور کو ہی بنا رکھا ہے مگر عام لیگی سیاسی کارکن قدرے مایوسی کا شکار ہے جس سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی سرگرمیوں میں جان نہیں پڑ رہی ۔مجھے ذاتی طور پر اس چیز پر حیرت ہوتی ہے کہ لاہور شہر میں جہاں پر مسلم لیگ (ن) کو ہر حوالےسے سیاسی سبقت حاصل ہے وہاں پر عام سیاسی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں ہو پا رہی ۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنی سیاسی بقاء کے لئے اب اپنے نچلی سطح کے کارکنوں کو سرگرم کرنا ہے بلکہ انہیں اعتماد بھی دینا چاہئے ۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت عملی طورپر کسی بھی شعبے میں اتنی سرگرم نظر نہیں آ رہی جس کی ضرورت اور امید تھی۔حکومت کی کارکردگی پر متعدد سوالیہ نشانات ہیں جن کی تعداد میں کمی کی بجائے گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے کبھی آٹے کا بحران آ جاتا ہے تو کبھی چینی کا بحران پیدا ہو جاتا ہے اور ان کے حل کے لئے زبانی جمع خرچ کے علاوہ تادم تحریر کچھ نہیں کیا جا سکا جس سے صوبائی حکومت کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔

ایک طرف مذکورہ بالا بحران ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کا جن ہے کہ قابو ہی نہیں آ رہا اور اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں اور نہ ہی اس میں بہتری کی کو ئی سبیل پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔اس سے عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور حکومت وقت کے لئے یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب چاہے جتنی بھی کوشش کر رہے ہیں اس کے وہ اثرات سامنے نہیں آ رہے۔

جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بیوروکریسی کی تربیت کسی قسم کی پالیسی سازی میں معاونت کرنا اور پھر سیاسی حکومتی وژن کے عین مطابق ان پالیسیوں پر عمدرآمد کرنا کے خطوط پر ہوئی ہوتی ہے۔ پالیسی فیصلے اور رہنمائی سیاسی قیادت کی طرف سے آتی ہے یہاں پر پنجاب کی حکومتی سیاسی قیادت میں شاید وہ صلاحیت نہیں ہے جس کی ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کو چلانے کے لئے ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان خود لاہور آکر بیوروکریسی اور گورننس و امان وامان کے ذمہ دار اداروں کو رہنمائی دیتے ہیں مگر وہ ناکافی ہیں اور جب بیوروکریسی ان پر عملدرآمد کے لئے پرواز بھر رہی تھی تو حکومتی سیاسی قیادت نے بھی اس پر کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کے حکومتی اتحادیوں کوگلے شکوے پیدا ہو گئے اور بے یقینی کا سا ماحوت پیدا ہو گیا۔

جس کے بعد ایک طرف وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب میں اپنے کپتان کو سمجھایا بجھایا تو دوسری طرف بیوروکریسی کو بھی سمجھایا گا جس سے بیوروکریسی کی ان سرگرمیوں میں قدرے کمی آگئی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اگرچہ ہفتے کے اختتام پر لاہور کے دورے میں چینی ،آٹا بحران کے حوالےسے اقدامات کا اعلان کیا گیامگر ان اقدامات سے کسی انقلابی بہتری کی امید نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نےاپنے حکومتی اتحادیوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) سمیت دیگر کو ایک مرتبہ منا لیا ہے اور فوری طور پر کسی سیاسی بحران کا خطرہ ٹل گیا ہے اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان سیاسی قربتوں کی افواہیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔

مرکزی اور پنجاب حکومت پولیو کے تدارک کے لئے ایک نئے انداز میں بھرپور مہم چلا رہی ہے اور اگر اسے پوری طرح سے بیک اپ بھی ملا تھا اور اس کی کامیابی کا قوی امکان ہے۔تاہم اگر حکومت بچوں کو پولیو قطرے پلانے والوں کےساتھ قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کےساتھ ساتھ کمیونٹی کی معاونت سے ایسے ناسمجھوں کے اس حوالے سے ابہام دور کر سکے تو شاید اس کے انتہائی اچھے اثرات مرتب ہوں۔

پاکستان سپرلیگ کرکٹ ٹورنامنٹ پہلی مرتبہ مکمل طور پر پاکستان میں ہو رہا ہے جس سے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی معقول شرکت کے باعث دنیا کو یہ اچھا پیغام جائے گا کہ پاکستان اب ایک پرامن ملک ہے اس سے بہت سے دیگر شعبوں میں بہتری کے علاوہ سیاحت میں بھی اضافہ ہو گا۔تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھانے کےلئے اداروں کو ایسے اقدامات اور انتظامات کرنے چاہئیں کہ ٹیموں کی آمدورفت کے روٹوں پر عام شہریوں کو زیادہ پریشانی نہ ہو تاکہ پی ایس ایل کو ایک حقیقی قومی میلہ میں تبدیل کیا جاسکے ۔

اس سے قبل جب سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان آئیں تو اگرچہ سیکورٹی کے اچھے انتظامات تھے مگر سڑکوں پر شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اس پریشانی کو کم کرنے کے لئے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو یقیناً کی جا رہی ہو گی مگر اس کے عملی اثرات کیا ہوتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔

اس سلسلے میں تاجر برادری نے بھی پنجاب حکومت کے سینئر نمائندوں سے ملاقات کے بعد میچوں کے دوران کاروبار کے متاثر ہونے کے شدید خدشات کا اظہار کیاہے۔ جس پر حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ قذافی سٹیڈیم کے اندر ہی کھلاڑیوں کیلئے انٹرنیشنل لیول کا ہوٹل تعمیر کیا جائے گا۔ تاکہ سڑکیں بند ہونے سے کاروبار متاثر نہ ہوںاور تاجروں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔