کراچی کا انتظام چلانے کیلئے کوئی مرکزی اتھارٹی نہیں

February 22, 2020

کراچی کا انتظام چلانے کے لیے کوئی مرکزی اتھارٹی نہیں

سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے باوجود کراچی میں صفائی ستھرائی اور تعمیر و ترقی کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں، وجہ یہ ہے کہ شہر کا انتظام چلانے کے لیے کوئی مرکزی اتھارٹی موجود نہیں۔ 6 ڈی ایم سیز، 5 کنٹونمنٹ بورڈز اور کے ایم سی سمیت 12 دیگر اتھارٹیز کا مطلب ہے، ایک دیگ کو بہت سارے باورچی مل کر خراب کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی کے علاقے ناظم آباد کا دورہ کیا، وہ سخی حسن قبرستان بھی گئے، ماضی کے صاف ستھرے اور خوبصورت علاقے میں ہرطرف کچرا اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر انہوں نے متعلقہ حکام پر واضح کیا کہ کراچی کی صورتحال پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس کے ریمارکس اپنی جگہ مگر کراچی کی صورتحال میں فوری بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ کے ایم سی حکام اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جب شہر کا انتظام کسی مرکزی نظام کے ماتحت ہونے کے بجائے مختلف اتھارٹیز میں بٹا ہوا ہو تو پھر بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اس بات کو کھول کر بتائیں تو کراچی کا انتظام 6 ڈی ایم سیز، 5 کنٹونمنٹ بورڈز اور کے ایم سی سمیت 12دیگر اداروں نے سنبھال رکھا ہے، یعنی جب ایک دیگ کو اتنے سارے باورچی مل کر پکائیں، تو کھانا تو خراب ہونا ہی ہے۔

ناظم آباد ضلع وسطی میں واقع ہے جس کے چیئرمین ریحان ہاشمی ہیں۔ انہوں نے اپنے ضلع کی خراب صورتحال کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سولِڈ ویسٹ مینجمنٹ سندھ حکومت کے پاس ہے، آکٹرائے ٹیکس بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بجائے سندھ حکومت وصول کرتی ہے، مالی وسائل کے بغیر کراچی کے سب سے بڑے ضلع میں صفائی ستھرائی اور تعمیر و ترقی آسان نہیں مگر محدود وسائل میں ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے تحت جاری گرین لائن منصوبے نے بھی عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔