پاکستان میں بچوں سمیت ساڑھے 4 کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں، ماہرین

February 25, 2020

پاکستان میں بچوں سمیت ساڑھے 4 کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں، ماہرین

پاکستان میں موٹاپا وبائی صورت اختیار کر گیا ہے اور اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں ساڑھے چار کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں جبکہ ایک کروڑ 40 لاکھ کے قریب بچے بھی وزن کی زیادتی اور موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں سالانہ 40 لاکھ افراد موٹاپے اور اس سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں ہلاک ہو رہے ہیں، موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے سبب پاکستان میں معذور افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ اوسط عمر بھی پانچ سے دس سال کم ہو رہی ہے، موٹاپے کے سدباب کے لیے کھلاڑیوں، ماہرین غذائیت اور ڈاکٹروں کی مدد سے 'فائٹ اوبیسٹی' یا موٹاپے سے بچاؤ کی مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد اسکول جانے والے بچوں اور دیگر افراد کو موٹاپے سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت، کھلاڑیوں اور ماہرین غذائیت نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر اور کپتان یونس خان، معروف بیریاٹرک سرجن ڈاکٹر تنویر راضی احمد، پاکستان سائیکیٹرک سوسائٹی کے صدر پروفیسر اقبال آفریدی، پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی کی صدر فائزہ خان اور وائس پریزیڈنٹ رابعہ انور بھی موجود تھیں۔

پریس کانفرنس کے اختتام پر فائیٹ اوبیسٹی اور پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے جس کے تحت دونوں ادارے ملک میں موٹاپے کے سدباب کے لیے آگاہی مہم کا آغاز کریں گے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کرکٹر یونس خان کا کہنا تھا کہ دوسروں کو فٹنس کی ترغیب دینے سے قبل انسان کو خود اپنی فٹنس برقرار رکھنی چاہیے، اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر سے اس کا خیال کریں۔

یونس خان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے والدین اور بچوں کا خیال رکھ سکیں۔ ماہرین کے مطابق موٹاپا ایک بیماری ہے اور اس سے بچاؤ کا واحد راستہ خود کو ایکٹو رکھنا ہے، کھلاڑیوں کے فٹنس ٹیسٹ ہونے چاہئیں لیکن بہت زیادہ فٹنس ٹیسٹ لینے سے کھلاڑیوں پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے، ہر تین مہینے میں فٹنس ٹیسٹ نہیں ہونا چاہیے۔

معروف بیریاٹرک سرجن ڈاکٹر تنویر راضی احمد کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد موٹاپے کے مرض سے آگاہی دینا اور لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ موٹاپا اور ذیابطیس پاکستان میں وبائی صورت اختیار کر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت ساڑھے چار کروڑ افراد بشمول ڈیڑھ کروڑ بچے موٹاپے کا شکار ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے پاکستان میں معذور افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ اس کے نتیجے میں اوسط عمر میں پانچ سے دس سال کی کمی بھی واقع ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسم میں غیر ضروری چربی جمع ہونے کو موٹاپا کہتے ہیں، اگر موٹاپے کا مرض لاحق ہوجائے تو یہ تاحیات رہتا ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہےکہ موٹاپا قابل علاج بیماری ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی دیگر بیماریوں کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 40 لاکھ لوگ مرجاتے ہیں۔

ڈاکٹر راضی کا کہنا تھا کہ ذیابطیس، ہائی بلڈپریشر اور موٹاپے کا چولی دامن کا ساتھ ہے جبکہ موٹاپے کے نتیجے میں ہونے والا سب سے اہم خطرہ مختلف اقسام کے کینسرز ہیں، موٹاپے کے باعث عورتوں میں چھاتی اور بچہ دانی کا کینسر جبکہ مردوں میں جگر کا کینسر ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موٹاپا اور ذیابطیس مہنگی بیماریاں ہیں اور ہم اس بیماری کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ موٹاپے سے بچاؤ کے لیے نوجوانوں اور بچوں میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ وہ آنے والی بیماریوں اور معذوری سے محفوظ رہ سکیں، حکومتی اور نجی اداروں کو مل کر اس وباء کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسکولوں میں آگاہی فراہم کی جائے کہ موٹاپا ایک بیماری ہے جبکہ اسپورٹس سرگرمیاں شروع کی جائیں اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کی جائے۔

انہوں نے بتایا کہ فائٹ اوبیسٹی پروگرام شروع کر رہے ہیں جسے ذریعے عوام کو آگہی فراہم کی جائے گی۔

معروف ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ موٹاپے کی وجہ سے ذہنی امراض جبکہ ذہنی امراض کی وجہ سے موٹاپے میں اضافہ ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ موٹاپے کی وجہ سے ڈپریشن اور چڑچڑے پن میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دیگر بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے کھانے میں ایسے لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں اس وقت پاکستان میں خوراک کی زیادتی اور کمی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، موٹاپے کا سوچ، رویے اور جذبات سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ روزہ رکھنے سے کینسر کے سیل مرنے لگتے ہیں اور عمر میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اگر چودہ گھنٹوں تک فاسٹنگ کریں تو بہت سی بیماریاں بشمول موٹاپے کی بیماری بھی لاحق نہیں ہوتی۔

ماہر غذائیت فائزہ خان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کی 50 فیصد سے زائد آبادی جن بیماریوں کا شکار ہے ان کا تعلق غذا سے ہے، متوازن غذا کے استعمال سے موٹاپے کو روکا جاسکتا ہے، طرز زندگی کو بہتر بنانے اور عوام میں آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، احتیاط آپکے گھر سے شروع ہوتی ہے، علاج کے لیے اسپتال کھول دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ مرض کی روک تھام پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ورک آؤٹ پر توجہ دے کر خود کو بہت سی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارا روٹین ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک ہی جگہ دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں اور فاسٹ فوڈ کا استعمال زیادہ ہے جو موٹاپا بڑھنے کا سبب بنتے ہیں۔

فائزہ خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صرف ایک فرد کا کام نہیں پورے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے سب کو مل کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے مارچ کا مہینہ ہم نیوٹریشن ڈے سے کے حوالے سے مناتے ہیں۔

پی این ڈی ایس کی وائس پریزیڈنٹ رابعہ انور کا کہنا تھا کہ آپکا بچہ موٹا ہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے کیونکہ موٹاپا بچے کے لیے آگے جاکر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اس مرض پر قابو پانے کے لیے اسکول لیول پر اور ہر سطح پر آگاہی فراہم کرنی ہے حکومت نے بھی کولڈ ڈرنکس پر بین لگایا ہے جو اچھا قدم ہے، اسکولوں کی انتظامیہ بچوں کی صحتمندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کریں۔