سویا ڈسٹ: دُھول ایسی اُڑی کے کچھ پتا نہ چلا

February 26, 2020

آنکھوں میں سُہانے خواب سجانے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے۔ خواب دیکھے جاتے ہیں، تو اُنہیں تعبیر ملتی ہے، لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ ہر خواب کو تعبیر ملے۔ بہت سے خواب برسوں بُنت کے مرحلے میں رہتے ہیں اور لمحوں میں بِکھر جاتے ہیں۔ انسان کی زندگی خواب، سراب، امید و بیم کے درمیان ہی گزرتی ہے۔ زندگی رہے تو انسان کو خواب دیکھنے اور انہیں تعبیر دینے کی مہلت ملتی ہے۔ زندگی ہی نہ رہے، تو کیسے خواب اور کیسی تعبیریں؟ ہمار آئین کہتا ہے کہ ملک کے ہر باسی کی زندگی کی حفاظت ریاست کی ذمّے داری ہے۔لیکن کیماڑی میں چند یوم قبل جو کچھ ہوااُس نے واضح کردیا ہے کہ ہم ہنگامی حالات کے لیے کتنے تیّار ہیں ،ہمارا نظام کیسے چل رہا ہے اورہمیں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

٭…اس واقعے نے عام آدمی کو بھی یہ بتادیا ہے کہ ہمارے پاس ایسی صورتِ حال کا کھوج لگانے کے لیے کوئی ٹیم اورخاص لیباریٹری تک نہیں ہے۔ دوسری جانب متعلقہ حکّام کےمربوط انداز میں کام کرنے کا کوئی نظام بھی نہیں ہے۔حالاں کہ جدید دور میں حیاتیاتی خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔

وہاں تادمِ تحریر چودہ افراد جاں بہ حق اور سیکڑوں متاثر ہوئے ،وزیرِ اعلی سمیت متعدد اعلی شخصیات نے دورےکیے،بیانات دیے،متعدد اداروں نے جانچ پڑتا ل کی ،لیکن تا دمِ تحریر عوام کو یہ پتا نہیں چل سکا ہے کہ اس صورتِ حال کی اصل وجہ کیا تھی۔ایسے میں بعض افراد کا یہ سوال بہ جا ہے کہ آخر ہم کیسی جوہری ریاست ہیں جس کے پاس ایسی سہولتیں نہیں ہیں کہ آٹھ دس روز گزرجانے کے باوجود ہم کیماڑی میں رونما ہونے والی صورتِ حال کا درست سبب تلاش کرسکیں۔ان دنوں ہمارے ارد گردجو صورتِ حال ہے کیا وہ اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ ہم اس بارے میں بہت سنجیدگی سے اور ہنگامی بنیادوں پر کچھ کریں؟

اس واقعے نے عام آدمی کو بھی یہ بتادیا ہے کہ ہمارے پاس ایسی صورتِ حال کا کھوج لگانے کے لیے کوئی ٹیم اورخاص لیباریٹری تک نہیں ہے۔دوسری جانب متعلقہ حکّام کے مربوط انداز میں کام کرنے کا کوئی نظام بھی نہیں ہے۔حالاں کہ جدید دور میں حیاتیاتی خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔آئیے ،اس ضمن میں بعض حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔

٭…الرجن ،الرجی کا سبب بننے والا بیرونی مادہ ہوتا ہے جو جسم میں داخل ہونے پر جسم میں کچھ قوت مدافعت کا سبب بن سکتا ہے۔ الرجن کی وجہ سے پیدا ہونے والی حالت کو الرجی کہتے ہیں ٭… بیماریوں کی ایک نئی شاخ جو بہت تیزی سے نمو پارہی ہے اور جس پر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر تحقیق ہونے کے باوجود انسان کسی بچاؤ اور علاج تک نہیں پہنچ سکا ہے، اس کا نام الرجی ہے۔

حقائق پر ایک نظر

اب تک سامنے آنے والے حقائق کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ کیماڑی میں پیش آنے والی صورتِ حال کی ذمّے دار سویا ڈسٹ ہے۔دوسری جانب بعض ایسی غیرمصدّقہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ لیباریٹری ٹیسٹ کیے بغیر سویا بین منگوانے والی کمپنی کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کردیا گیا تھا۔ان اطلاعات کے مطابق سویا بین سے لدا جہازجب برتھ پر آیا تو اس کی ڈسچارچنگ مناسب طریقے سے نہیں ہوئی۔ امریکاسے منگوائے گئے اس سویا بین کو مناسب طریقے سے فیومیگیٹ “fumigate ” نہیں کیا گیا تھا اور پاکستان میں وزارت غذائی تحفظ و تحقیق کے شعبے،پلانٹ پروٹیکشن نے جہاز کوچیک کیا اورنہ لیباریٹری ٹیسٹ کیے۔تاہم یہ خبر تادمِ تحریر مصدّقہ نہیں ہے۔لیکن یہ پاکستان ہے ، جہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔

خطرے کا انتباہ

یہ یکم فروری 2017کی بات ہے۔لاس اینجلس کاونٹی کے محکمہ صحت کے حکام نے ملک گیر سطح کا حیاتیاتی خطرے کا انتباہی پیغام جاری کیا تھا۔وہاں ایک شخص کے جسم میں بیماری پھیلانے والا ایسا بیکٹیریا پایا گیا تھا جو ادویہ کے خلاف سو فی صد مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور اسے تیکنیکی طور پر ایم سی آر۔ون کا نام دیا گیا تھا ۔لیکن اس سے قبل بھی ایسا ہی ایک مریض نومبر 2015 میں امریکی ریاست پنسلوانیا میںسامنے آیا تھا۔اس و قت عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے دنیا بھر کے سائنس دانوں سے اپنے ذخائر میں موجود جراثیم میں ایسی جینیاتی خصوصیات والے جراثیم تلاش کرنے کی درخواست کی تھی۔اس کے نتیجے میں ماہرین بایو رِسک جین والے سو جرثوموں کی نشان دہی کرچکے ہیں جن میں سے بعض منجمد حالت میں سائنس دانوں کے ذخائر میں موجود ہیں۔

یہ ہے جدید دور کا شاخسانہ۔

اب اپنے خِطّے کا رخ کرتے ہیں۔

دو برس قبل کی بات ہے۔ملکی ذرایع ابلاغ نے عام آدمی کے لیے بہ ظاہر غیر اہم خبر دی تھی کہ شعبہ پلانٹ پر و ٹیکشن (ڈی پی پی )نے پاکستان کسٹم کوچودہ مارچ 2018 کو ایک خط لکھا تھا جس میں بتایاگیا تھا کہ پا کستا ن میں ایل او سی کے ذریعے بھارت سے ہونے والی تجا رت کے ذریعے لائے جانے والے پھلوں اور سبزیوں میں بایوسکیو رٹی رسک موجود ہے۔خبر میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی کے ذریعے سرحدی تجارتی معاہدے کی آڑ میں پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ دیگر سامان کی اسمگلنگ کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی کے ذریعے سرحد پار تجارت کی آڑ میں کشمیر سے اربوں روپے کے پھل ،سبزیاں اور کئی دیگر اشیا ملک کے تمام بازاروں میں ٹیکس اور ڈیوٹی کے بغیر غیر قانونی طریقے سے پہنچائی جا ر ہی ہیں۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ حال ہی میں پاکستانی بازاروں میں بھارتی کیلا وافرتعداد میں آیا۔ لیکن اس کے بارے میں چھ ایسے نکات سامنے آئے جن سے پتا چلا کہ ان کیلوں میں کچھ نقصانات پوشیدہ ہیں لہذا ان پر پاکستان میں پابندی ہو نی چاہیے ۔اطلاعات کے مطابق بھارتی کپڑے ،بعض ا د ویہ اور کئی دیگر اشیا بھی ایل او سی کے راستے پاکستان میں آرہی ہیں۔اس لیے یہ سچ نہیں کہ صرف پھل اور سبز یاں اس راستے سے ملک میں لائی جارہی ہیں ۔اس معاملے کی تفصیلی تحقیقا ت ہونی چا ہیے کیوں کہ یہ صرف مالی معاملہ نہیں بلکہ حساّس نوعیت کا قومی معاملہ ہے۔

ایسے ہی خطرات کے پیشِ نظر 2017میں نومبر کے مہینے میں پاکستان نے بھارت سے روئی کی درآمدکے لیے نئی شرائط کا اعلان کیاتھااور اس کے لیے وزارت تحفظ خوراک کے ذیلی ادارے ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پرو ٹیکشن سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط عاید کی گئی تھی۔اس وقت کہا گیا تھا کہ نئی شرائط کے مطابق بھارت سے روئی کی درآمد صرف ڈی پی پی کی جانب سے درآمدی پرمٹ جاری ہو نے کے بعد ہی کی جاسکے گی،ملک میں روئی کی شپمنٹ سے قبل درآمدی پرمٹ کے مطابق بھارت کےمتعلقہ ا د ا رے، نیشنل پلانٹ پروٹیکشن آرگنائزیشن کی جانب سے مذکورہ روئی کی مخصوص کیمیکلز اور درجہ حرارت کے مطابق فیومی گیشن کرنے کے بعد فائیٹو سینٹری سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا جس پر درآمدی پرمٹ کے مطابق تمام شرایط تحریر ہوں گی۔

ڈی پی پی کی جانب سے شرایط کے مطابق فائیٹو سینٹری سرٹیفکیٹ اور درآمدی پرمٹ کے بغیر بھا ر ت سے پاکستان آنے والی روئی کو یا تو جلا دیا جائے گا یا پھر فوری طور پر ساری روئی واپس بھارت روانہ کر دی جائے گی۔ شرایط کے مطابق درآمد ی روئی ہر قسم کے بیکٹیریا، آلودگی،بایو سیفٹی رسک مٹیریل اور بنولے سے پا ک ہونی چا ہیے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں درآمدی روئی کے پاکستان میں مخصوص کیمیکلز اور درجہ حرارت پر دو بارہ ٹریٹمنٹ کے بعد اسے ڈی پی پی کی جانب سے منظور شدہ سیلڈ کنٹینرز میں بھیجا جائے گا اور سائٹ پر بھی ہر کنٹینر کو دوسرے کنٹینر سے علیحدہ رکھنا ہو گا،درآمدی پرمٹ کی کسی بھی سطح پر خلاف ورزی کی صورت میں اسے منسوخ کر دیا جائے گا،محکمے کا مجاز افسر بندرگاہ پر درآمدی روئی کا مکمل معائنہ کرے گا اور روئی میں کسی بھی قسم کے زندہ کیڑوں، سنڈیوں کی موجودگی یا کسی بھی قسم کی آلودگی کی صورت میں سخت ایکشن لیا جائےگا۔

یعنی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی بُو سونگھی بھی جارہی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ کا اشارہ

نظری طبیعیات کے بہت بڑے ماہر اسٹیفن ہاکنگ نے بھی ایسے ہی خطرات کی نشان دہی کی تھی۔انہوں نے جنوری 2016میں کہا تھا کہ انسان کو اپنے پیدا کردہ مسائل سے خطرات لاحق ہیں۔بنی نوع انسان کو اپنی بقاکے لیے اپنے ہاتھوں پیداکیے گئے ایٹمی جنگ ‘ عالمی حِدّت اور جینیاتی تبدیلیوں کے مراحل سے گزارے گئے وائرس سے شدید خطرات لاحق ہیں اور سائنس اور ٹیکنا لو جی کے شعبوں میں مزید ترقی فواید سے زیادہ نقصان کا سببب بن سکتی ہے۔

انہوں نے خبر دار کیا تھاکہ زمین پر انسان کے ہاتھوں پیداکیے گئے خطرات سے تباہی اس بڑے پیمانے پر ہوگی کہ اس کی بقا زمین سے باہر خلامیں مختلف مقامات پر عارضی بستیاں بسا کر ہی ممکن ہوگی۔کسی قدرتی آفت کی صورت میں زمین پر بڑے پیمانے پر تبا ہی کا آئندہ ہزار سال تک کوئی بڑا خطرہ نہیں، لیکن ایک سے دس ہزار سال کے دوران ایسے امکانات بہ ہر حال مو جود ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ اس عرصے میں انسانی آبادی زمین سے نکل کر خلامیں مختلف مقامات پر پھیل چکی ہوگی اس لیے زمین پرکوئی بڑی قدرتی آفت آنے سے نسل انسانی کے مکمل طور پر مٹ جانے کا امکان نہیں۔

الرجی،الرجن اوراینٹی جن

سویا ڈسٹ سے ہونے والی الرجی کے بارے میں ان دنوں پاکستان میں بحث مباحثے جاری ہیں۔عام سوال یہ ہے کہ کیا کسی الرجی کی وجہ سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے؟چناں چہ قارئین کی معلومات کےے لیے اس ضمن میں کچھ باتیں پیش ِ خدمت ہیں۔

مغربی دنیا میں بالخصوص مونگ پھلی کھانوں میں الرجی پیدا کرنے کا بڑا موجب ہے۔کہا جاتا ہے کہ مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے جس سے بہت جلد موت واقع ہوسکتی ہے۔برطانیہ کی اوکسفورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کچی مونگ پھلی کے مقابلےمیں تلی ہوئی مونگ پھلی زیادہ حساس یا الرجی پیدا کرنے والی ہو سکتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تلی ہوئی مونگ پھلی سے جسم کا مدافعتی نظام عروج پر پہنچ سکتا ہے جس سے مزید الرجی والا ردعمل رونما ہو سکتا ہے۔

مختلف انسانوں میں قوت مدافعت کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ کچھ ہلکے ہوتے ہیں اور ان میں صرف نشان یا دھبے پڑجاتے ہیں، لیکن بعض بہت خطرناک ہوتے ہیں اور منہ سوجنے اور سانس لینے میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں،حتی کہ جان بھی لے سکتے ہیں۔واضح رہے کہ خوراک سے ہونے والےمختلف اقسام کے ردِ عمل (الرجیز) میں سے مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی سب سے زیادہ مہلک ہے۔ اب تک اس الرجی کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے، اور اس الرجی کے شکار لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مونگ پھلی سے عمر بھر پرہیز کریں اور ہر کھانے کے پیکٹ کو بار بار پڑھیں کہ کہیں اُس میں مونگ پھلی تو استعمال نہیں ہوئی ہے۔

ماہرین کے مطابق دنیا بھرخصوصاً آسٹریلیا اور مغربی ممالک میں بچوں میں خوراک سے الرجی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے ۔بچوں میں خوراک سے الرجی کے کیسز میں برطانیہ میں 7 فی صد ،آسٹریلیا میں 9 فی صد اور یورپ میں مجموعی طور پر2فی صد اضافہ ہوا ہے ۔بچوں کو جن غذائی اشیاء سے الرجی ہوتی ہے ان میں دودھ، انڈا، مونگ پھلی،اخروٹ، چلغوزے ، تل، مچھلی اور گھونگے شامل ہیں۔غذاؤں سے ہونے والی الرجی کی شرح گزشتہ 30برسوں میں زیادہ بڑھی ہے ،بالخصوص صنعتی معاشروں میں یہ واقعات زیادہ دیکھے جارہے ہیں ۔یہ اضافہ کتنا زیادہ ہے،اس کا انحصار غذا اور اس جگہ پر ہے جہاں متاثرہ شخص رہتے ہیں۔ 1995ء اور 2016میں برطانیہ میں مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی میں پانچ گنا اضافہ ہو گیا تھا۔

بیماریوں کی ایک نئی شاخ جو بہت تیزی سے نمو پارہی ہے اور جس پر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر تحقیق ہونے کے باوجود انسان کسی بچاؤ اور علاج تک نہیں پہنچ سکا ہے اس کا نام الرجی ہے۔ انسانی زندگی میں الرجی کی علامات بہت لمبے عرصہ سے موجود تھیں، مگر انہیںبیماری کا درجہ چند دہائیاں پہلے دیا گیا۔ الرجی ہمارے جسم کا ایک غیر ضروری عمل ہے جو ایک نارمل ، بے ضرر ذرے کے ساتھ جسم کا تعلق پیدا ہونے پر ظاہر ہوتا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں جسم کسی ایسی چیز سے تعلق میں آتا ہے جو نقصان پہنچانے والی نہیں اور بالکل بے ضرر ہے اور ہمارا جسم اسے نقصان پہنچانے والی چیز گردانتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی شروع کردیتا ہے۔ الغرض یہ عمل ہمارے جسم کو نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اور ہمارے جسم کا نقصان نہ پہنچانے والی چیزوں کے لیے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے عمل کو الرجی کہتے ہیں۔

الرجی بہت سی اقسام کی ہوتی ہیں،یعنی ہمارے جسم کے بہت سارے نظام اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات انفرادی طور پر یا بعض اوقات کئی نظام اکٹھے اس کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے ہماری جلد، سانس کا نظام، نظامِ ہضم، کان، ناک، گلے، آنکھ، گردوں کا نظام اور اعصابی نظام۔

اسی طرح الرجی بھی بہت مختلف طرح کی چیزوں سے ہو سکتی ہے جیسے کھانے کی چیزوں سے جن میں پھل مثلا سیب، مالٹے، کینو، ناشپاتی، خربوزہ، تربوز، کیوی ،اناناس اور آم تک شامل ہیں۔ سبزیاں جن میں زمین کے نیچے اُگنے والی سبزیاں ادرک، لہسن، آلو، شکرقندکے علاوہ ٹماٹر، کھیرا، سلاد پتہ، لیس دار سبزیاں جیسے بھنڈی اوراروی وغیرہ بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی کچھ سبزیاں اور پھل ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات کچی سبزیاں اور پھل،مثلا ٹماٹر ،سیب ،ناشپاتی وغیرہ الرجی کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ مگر آپ انہیںپکالیں تو پروٹین جو علامات پیدا کرتی ہیں وہ اپنی ہیئت چھوڑ دیتی ہیں یاDenature ہو جاتی ہیں اور ان کی الرجی کی علامات پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے مگرایسا الرجی پیدا کرنے والی ہر چیز کے ساتھ نہیں ہوتا۔

ہمارے جسم کا مدافعاتی نظام ہمیں نقصان دہ عناصر مثلاً وائرس اور بیکٹیریا سے بچاتا ہے۔ الرجی کسی عنصر کے خلاف مضبوط مدافعاتی رد عمل ہوتا ہے، جو بہت سےافراد کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا۔ اس عنصر کو الرجن کہتے ہیں۔ ایسے بچے جنہیں الرجی ہوتی ہے، ان کا مدافعاتی نظام حملہ کرنے والے الرجن کے خلاف زیادہ رد عمل ظاہرکرتا ہے اور علاج بھی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں تھوڑی تکلیف بھی ہوتی اور زیادہ بھی ۔بچپن کی الرجی کی بے قاعدگیوں میں کھانے کی الرجی زیادہ عام ہے۔ بہت سے الرجی والے بچوں میں دمے کی بیماری ہو جاتی ہے۔

الرجی کی مختلف علامات یہ ہیں: سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں خارش،لال سوجی ہوئی آنکھیں۔ ابھرے ہوئے لال خارش زدہ پھوڑے، ناک، منہ، گلے، جلد اور دوسرے حصوں میں خارش،ناک بہنا، جلد کا لال ہوجانا، خرخراہٹ، منہ اور گلے کے اردگرد سوجن ہو جانا،سانس لینے میں کم اور زیادہ دِقّت،وغیرہ۔

الرجن ،الرجی کا سبب بننے والا بیرونی مادہ ہوتا ہے جو جسم میں داخل ہونے پر جسم میں کچھ قوت مدافعت کا سبب بن سکتا ہے۔ الرجن کی وجہ سے پیدا ہونے والی حالت کو الرجی کہتے ہیں۔اینٹی جِن جسم کے اندر بنتی ہے جو مدافعتی نظام کو متحرک کرسکتی ہے جو ایک خاص قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ مدافعتی ردعمل سے ایسی اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں جو جسم میں داخل ہونے والے بیرونی مادوں کو غیرموثر یا تباہ کرسکتی ہیں۔ ہر اینٹی باڈی اینٹی جن سے مخصوص ہوتی ہے اور اس کی ایک مختلف ساخت ہوتی ہے۔ پروٹین اور گلائیکوپروٹین جسم میں پیدا ہونے والی سب سے موثر کیمیکل اینٹی جن ہیں۔ اس کے علاوہ ، بیکٹیریا اور دیگر جان داروں کو بھی اینٹی جن کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔اینٹی جن کی تین اقسام ہیں۔ exogenous ، endogenous اور autoantigens ۔

ہمارا نظام کیسے چل رہا ہے

ہمارا نظام کیسے چل رہا ،یہ جاننے کے لیے ماضی اور حال کی محض دو مثالیں کافی ہیں۔

یہ 29جون 2010کی بات ہے۔حیدر آباد کے علاقے ہالاناکہ میں زوردار دھماکے کے نتیجے میں 18 افراد جاںبہ حق ا ور60سے زاید زخمی ہو گئےتھے۔ ارد گرد موجود10ٹرکس سمیت کئی گاڑیاں اور 15دکانیں تباہ ہو گئی تھی۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلومیٹرز دور تک سنی گئی تھی۔ دھماکے کے نتیجے میں حب کو کی مین لائن کے متعدد کھمبے اور ہائی ٹینشن تار ٹوٹ کر گر پڑے تھےجس کی وجہ سے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی بند ہو گئی تھی۔پولیس کے مطابق دھماکاکاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے بھرے ٹینکر میں ویلڈنگ کرائے جانے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکاعلاقے میں کھڑے10وہیلر ٹرک میں ہواتھا۔ جائے وقوعہ پر قیامت صغریٰ کا منظر تھا‘ ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا۔جاں بہ حق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی چیخ و پکار گونج رہی تھی۔ دھماکے میں10ٹرک‘ ایک کار ‘ دو موٹر سائیکلیز، 15سے زاید دکانیں اورچند مکانات تباہ اور قریب واقع ایک مسجد شہید ہو گئی تھی۔

دھماکے کے نتیجے میں متاثرہ گاڑی کے پرخچے اڑ گئےجو قریب کھڑی گاڑیوں میں موجود افراد کے جسموںپرجا لگے جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق دھماکاملتان سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس حیدرآباد لے جانے والے ایک ٹینکر میں اس وقت ہوا جب ٹینکر کے ڈرائیور نے متاثرہ علاقے میں ایک مستری سے ٹینکر میں ویلڈنگ کرانے کی کوشش کی۔ وقوعہ کا معائنہ کرنے والے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے مکمل جانچ پڑتال کے بعد بتایا تھاکہ وہاں بارود کے ذرات نہیں ملے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دھماکا بم پھٹنے سے نہیں ہواتھا۔ماہرین کے مطابق دھماکے کے زخمیوں کے جسموں یا لاشوں میں بھی بارود کی بو نہیں پائی گئی۔

دھماکااتنا زور دار تھا کہ اس کی شدت سے ٹرک سڑک کے درمیان آگراتھا۔ اس وقت کے ڈی آئی جی حیدرآباد طاہر نوید نے دھماکے میں 18افراد کے جاں بہ حق اور 42 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔اس وقت کے آئی جی سندھ صلاح الدین بابر خٹک کے مطابق دھماکا 30 ہزار لٹر تھنر سے بھرے ٹرک میں گرمی کے باعث ہوا۔ ڈی پی او حیدرآباد جاوید عالم کے مطابق جاں بہ حق ہونے والوں کی تعداد22تھی اور 60زخمی تھے۔ان کے مطابق پہلے ویلڈنگ کی دکان پر سلنڈر پھٹا جس کے بعد کسی پینٹ کمپنی کا تھنرسے بھرا ٹینکر پھٹ گیا۔

یہ واقعہ یہاں نقل کرنے کا مقصدچار اہم نکات کو سجھنا ہے۔پہلی بات تو یہ کہ ہمارے ہاں خطرناک مواد کی نقل و حمل کس بد احتیاطی کے ساتھ ہوتی ہے۔دوسری یہ کہ ایسی سر گرمیوں سے متعلق افراد خطرات سے کتنے لا علم ہوتے ہیں۔تیسری یہ کہ کسی واقعے کے بارے میں ہمارے متعلقہ حکّام میں کس حد تک رابطہ ہوتا ہے۔کو ئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ اور۔چوتھی بات یہ کہ ایسے واقعات رونما ہونے کے باوجود ہم نے آج تک صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی خاص اور ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔

اب دس سال بعد یعنی 2020کے ایک واقعے کا جائزہ لیتے ہیں۔

مقام ہے کوئٹہ اور تاریخ ہے 24فروری 2020۔ کوئٹہ میں مغربی بائی پاس کے قریب واقع گودام میں کھڑے ایل پی جی گیس کے ٹینکر میں دھماکے سے چھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔امدادی سرگرمیاں کرنے والے حکّام کا کہنا تھا کہ گیس کے باعث ریسکیو آپریشن میں دشواریاں پیش آئیں۔ آپریشن کے دوران 2 ریسکیو اہل کار وں کی حالت بھی غیر ہوئی۔ جاں بہ حق ہونے والے افراد کی شناخت نہیں کی جا سکی۔ ان کی عمریں 30 سے 40 کے درمیان ہیں۔پولیس کا کہناتھا کہ مغربی بائی پاس پر گیس ٹینکر میں دھماکے سے متعلق ابتدائی تفتیش کے بعد معلوم ہوا ہے کہ کنٹینر میں اسمگلنگ کے لیے چھالیہ چھپائی جا رہی تھی۔چھالیہ رکھنے کے دوران گیس کے اخراج سے دھماکا ہوا۔اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ گودام کے مالک سے بھی معلومات لے رہے ہیں۔پولیس کے مطابق ٹرمینل کے گودام سے چھالیے کی بوریاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ٹینکر ایل پی جی کا تھا، جس میں چھالیہ چھپائی جاتی تھی۔ گودام اسمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے۔

اس واقعے میں بھی درجِ بالا سوالات کا انطباق ہوتا ہے۔