مریم سیاسی سرگرمیوں سے دور کیوں؟ اصل اندرونی کہانی

February 27, 2020

گزشتہ ہفتے لاہور سیاسی، ادبی اور دیگر سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم پاکستان عمران خاں، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو لاہور میں تھے۔ مہنگائی اور ملک کی ابتر معاشی صورت حال کے تناظر میں عوام کی بے چینی اور اضطراب کے باوجود اپوزیشن منتشر اور احتساب کے جال میں پھنسی ہوئی دکھائی دی۔ حکومت تمام تر عدم مقبولیت کے باوجود ابھی تک قدم جمائے ہوئے ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی رخصتی کا فیصلہ کرنے میں مشکلات اور پیچیدگی کا سامنا ہے، اس کے جانے کا کیا طریقہ کار ہو گا؟ اس حکومت کا متبادل کیا اور کون ہو گا؟ کیا مڈٹرم انتخابات کی کوئی صورت نکالی جائے گی؟ یا اِن ہائوس تبدیلی کے ٓذریعے معیشت کی بحالی کا کوئی طریقہ نکالا جائے گا؟ اس وقت موجودہ حکومت سے معیشت کی بحالی ممکن نظر نہیں آ رہی۔ اعتماد کی بحالی کے لئے تبدیلی ناگزیر نظر آ رہی ہے۔

دراصل حکومت کا متبادل کون ہو گا؟ یا کون ہو سکتا ہے؟ بڑا پیچیدہ اور مشکل سوال ہے، اِس سوال کو جس نے دشوار تر بنا دیا ہے وہ ہی اس گتھی کو سلجھا سکتا ہے۔ اپوزیشن کو بری طرح ڈس کریڈٹ کر دیا گیا ہے موجودہ حکومت کی بدترین کارکردگی اور جھوٹے بلند بانگ دعوئوں نے خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کو عوام کی نظروں میں ایک بار پھر معتبر اور سرخرو کر دیا ہے لیکن سوال پھر یہ ہی ہے کہ تمام اپوزیشن قیادت کو عوام کی نظروں میں مشکوک اور کرپٹ بنانے والوں کے پاس ایسا کیا طریقہ ہے کہ وہ پھر سے اقتدار کے ایوانوں میں ان کی واپسی کو قبول کر لیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت بھی ڈس کریڈٹ اور اپوزیشن بھی منتشر اور مشکوک و معتوب ہے۔

جس دن اس کا کوئی حل نکل آیا کہ حکومت کو کس طرح رخصت کرنا ہے کون ان کی جگہ لینے کا حقدار ہے؟ اُس دن سے حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے ہوا کا رُخ تبدیل ہو جائے گا۔ اتحادی ایک بار پھر سرگرم اور متحرک ہو جائیں گے، ایک بار پہلے ابتدائی پریکٹس ہو چکی ہے ٹیم کسی وقت بھی کھیل کے میدان میں آ سکتی ہے بس سیٹی بجنے کی دیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت بھی پریشان اور اُلجھی ہوئی ہے ادھر اپوزیشن بھی اَبتر اور پریشان کن حالات میں ہے۔ سب سے برا حال عوام کا ہے، دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔ مہنگائی، بے روزگاری اور عدم استحکام نے امیدوں کے چراغ گل کر دیئے ہیں۔ یہ سلسلہ تادیر چل نہیں سکتا، دیکھیں تبدیلی کا عمل کب متحرک ہوتا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی احتساب کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اس کے بہت سے اہم رہنما جیلوں میں بند پڑے ہیں، جو جیلوں سے باہر ہیں وہ فطری سیاسی عمل کرنے سے معذور اور لاچار ہیں۔

اپوزیشن کے رہنما شہباز شریف کوئی عملی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں وہ کوئی انہونی ہونے کے منتظر ہیں کسی غیبی مدد کے انتظار میں ہیں۔ مریم نواز کو خدشہ ہے کہ وہ سیاسی سرگرمی میں ملوث پائی گئی تو ان کی ضمانت ہونا ممکن نہ رہے گی۔ اسی طرح وہ بھی عوام کی خواہشات اور ملک کے مفاد کو اسی تمام چکر میں سیاسی عمل کو ترک کر چکی ہیں۔ حمزہ شہباز کی ضمانت منظور نہ ہو سکی۔ اس طرح ڈیل اور ڈھیل کا تاثر جو کہ کئی ایک کے نزدیک روشنی کی کرن تھا اور وہ اسے اقتدار کا زینہ سمجھتے ہیں کو بے حد مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی عوامی جذبات اور خواہشات کو سمجھ رہے ہیں لیکن پنجاب کے عوام کے علاوہ ملک کے بیشتر حصوں میں ان کو حکومت کا متبادل نہیں سمجھا جاتا۔ تعمیر و ترقی کے حوالے سے عوام کا معیار اور انتخاب کچھ اور ہی ہے۔

ایسے موقع پر نواز شریف صحت کے حوالے سے بے بس ہیں اور ان کے حوالے سے مسلسل جو پروپیگنڈہ کیا گیا ہے وہ فی الحال اقتدار میں آنے والوں کی فہرست سے بہت دور ہیں۔ بلاول بھٹو پنجاب میں کچھ متحرک ہوئے ہیں لیکن پنجاب میں پیپلز پارٹی کی عدم مقبولیت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ بلاول بھٹو تو ابھی پنجاب کی پرانی پارٹی قیادت سے ہی تعارف میں مصروف ہیں وہ پچھلے دنوں بیگم بیلم حسنین کی رہائش گاہ پر گئے جہاں ان کا ان سے تفصیلی تعارف ہوا، انہیں بتایا گیا کہ بیلم حسنین پیپلز پارٹی کی دیرینہ مخلص کارکن ہیں بلاول بھٹو نے اس دورے میں ایک متنازعہ بیان بھی دے دیا۔ نہ معلوم یہ بیان کسی کو خوش کرنے کے لئے تھا یا ناراض کرنے کے لئے، انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی سلیکٹیڈ تھے، اس پر مسلم لیگ (ن) کے میاں جاوید لطیف نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آصف زرداری نے آخر کس کے ایما پر بلوچستان حکومت کو ہٹانے اور چیئرمین سینٹ لانے میں کردار ادا کیا۔ دراصل یہ عمل ہی عمران خاں کو لانے کی راہ ہموار کر گیا، اب جو مہنگائی اور معیشت کا بیڑہ غرق ہوا ہے اس میں آصف زرداری کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اب بلاول بھٹو کا یہ بیان بھی یہ پیغام دے گیا کہ اپوزیشن منتشر اور ہم خیال نہیں ایسے بیانات یقیناً عمران خاں کی ڈانواں ڈول حکومت کے لئے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ صدر عارف علوی نے لاہور کا تین روزہ دورہ کیا۔

انہوں نے تاجران سے بھی ملاقات کی انہوں نے تاجران کے اس مطالبے پر کہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں کی سست روی کے باعث کاروباری حالات ابتری کا شکار ہیں لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اس عمل کو مؤثر انداز سے نمٹایا جائے۔ اس پر صدر نے ایک بار پھر پرانی تسلی دی کہ حکومت تاجروں کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ تھوڑا اور صبر کریں شاید انہیں معلوم نہیں کہ ہر ایک کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ ایک بڑی کاروباری شخصیت میاں منشا نے بجاطور پر کہا کہ بزنس کمیونٹی کو ہراسانی دھمکیوں اور بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے پاک ماحول فراہم کیا جائے لیکن صد افسوس کہ حکومت ماحول کو تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔

احتساب اور الزام نااہلی اور نالائقی کا بڑا ہتھیار ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی گزشتہ چند ماہ سے کافی متحرک اور فعال نظر آ رہے ہیں بہت سے لوگ انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اس میں بہت سے کٹھن مراحل اور پیچیدگیاں موجود ہیں ظاہر ہے کہ حالات بدلیں گے تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ عثمان بزدار کی گورنس کی خرابی اور تجربے کی کمی نے عمران خاں کی حکومت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ عثمان بزدار کی عدم کارکردگی کی بنا پر وزارت اعلیٰ پنجاب کے بہت سے امیدوار میدان میں خاموشی سے اپنا لابی کا کام کر رہے ہیں۔

میانوالی میں وزیراعظم عمران خاں نے اناج مہنگا ہونے کو تسلیم کیا اور قبول کیا کہ اس میں ہماری غلطی ہے گائے بھینسوں مرغیوں انڈوں کی عوام کو فراہمی کے بعد اب انہوں نے کہا ہے کہ کندیاں کا جنگل نوکریاں دے گا۔ معلوم نہیں کہ معیشت کی بحالی اور روزگار کی فراہمی کے حوالے سے یہ نسخہ کس حد تک موثر اور کارآمد ہے۔ افریقہ جنگلات سے بھرا پڑا ہے لیکن بہت سے ممالک انتہائی پسماندہ اور غریب ہیں۔ صنعت تجارت اور برآمدات میں اضافہ ہی خوشحالی اور روزگار کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بات سب کی جلد سمجھ میں آ جائے تو اچھا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے میچوں کا انعقاد بے حد خوش آئند اور اس بات کا مظہر ہے کہ وطن عزیز سے دہشت گردی کا خاتمہ تقریباً ہو چکا ہے لیکن ان میچوں کے انعقاد کے وقت ٹریفک کے مسائل اور مارکیٹوں کی بندش سے جو پریشانی اور دقت کا عوام کو سامنا ہے پنجاب حکومت اس مسئلے کا حل نکالنے سے صریحاً قاصر ہے۔