حکومت کا پہلا ٹارگٹ: مہنگائی

February 27, 2020

ملک میں ایک سے ایک بڑا بحران آتا ہے کچھ شور شرابے کے بعد گزر جاتا ہے عمران خان حکومت خوش قسمت ہے حکومت کی تمام تر خامیوں غفلتوں کے باوجود حکومت قائم ہے اور اس کے جانے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا اپوزیشن جماعتیں حکومت جانے کی ہر روز نئی تاریخ دیتی اور وہ تاریخ خاموشی سے گزر جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ ن والے دعویٰ کررہے تھے کہ مارچ میں مارچ ہو گا لیکن لگتا ہے مسلم لیگ ن لندن میں اکٹھے ہو کر مارچ کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اب چھ ماہ میں حکومت کے خاتمے کی نئی تاریخ دے دی ہے مگر انہوں نےحکومت کے گھر جانے کا کوئی طریقہ کار نہیں بتایا کہ حکومت کیسے جائے گی اور اسے کون بھجوائے گا مہنگائی اپنی آخری حدوں کو چھو چکی ہے مہنگائی نے غریبوں اور بالخصول مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقے کا جینا دو بھر کر دیا ہے ایسے حالات میں اپوزیشن کا پارلیمنٹ کے اندر ہو باہر اہم کردار ہوتا ہے مگر افسوس مسلم لیگ کی قیادت بیرون ملک جا بیٹھی ہے اور اب میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کو برطانیہ آمد کے منتظر ہیں عوام کو توقع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب کی عدم موجودگی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے ساتھ مل کر مریم نواز بھرپور اپوزیشن کریں گی اور مہنگائی میں پسے ہوئے لوگوں کو سڑکوں پر لائیں گے اور حکومت کا خاتمہ کریں گے۔

مگر مریم نواز صاحبہ کو تو ایسی چپ لگی کہ وہ کسی ایشو پر بیان دینے کی سکت بھی گنوا بیٹھی ہیں جبکہ ان کی ہم نام مریم اورنگزیب تمام لیڈر شپ کی جگہ عمران خان صاحب کے خلاف تیر چلا رہی ہیں ان کی حکومت پر شدید تنقید اخبارات کی زینت تو بنتی ہے مگر وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے موثر نہیں ہو سکتیں جبکہ مسلم لیگ کے دیگر لیڈر شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق جیلوں میں ہیں وہ جیل سے باہر بھی ہوتے تو ان کے کہنے پر مسلم لیگی ورکرز یا عوام سڑکوں پر نہیں آسکتے مسلم لیگ ن کے ورکرز اور اس کے حامی اپنی اعلیٰ قیادت کے طرز عمل سے سخت نالاں ہیں ورکرز اپنی قیادت پر کھلے عام تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کس کے لئے جیلوں میں جائیں دوسری طرف پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میدان عمل میں موجود ہیں اور وہ وزیراعظم عمران خان اور اس کی حکومت کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔

غریبوں کا دکھ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی اس کوشش میں اتنی طاقت نہیں کہ عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آجائیں اور حکومت کو گھر بھیج دیں جبکہ آصف زرداری بھی کبھی کبھی سخت لہجہ اختیار کرتے تھے مگر وہ بھی خاموش ہو گئے بتایا جاتا ہےکہ وہ خاصے بیمار ہیں اس لئے اب سیاست میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلاول بھٹو اگرچہ لاہور میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں مگرمستقبل قریب میں انہیں پنجاب میںکامیابی ملنے کے امکانات نہیں خود بلاول بھٹو نے اعتراف کیا ہے کہ ہم اپنی کارکردگی بہتر انداز میں اجاگر نہیں کر سکے۔ تاہم یہ بات بالکل درست ہے کہ ابھی تک سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں بھی کوئی نہیں ٹھہر سکا۔

کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کا سحر ٹوٹ گیا ہے ایم کیو ایم کے حامی پریشان حال ہیں کس کا ساتھ دیں کس کا نہ دیں پیپلزپارٹی اور مسلم ن و دوسری جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر محض تقریروں تک محدود ہو گئی ہیں اور پارلیمنٹ سے باہر کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کر سکیں۔ عوام اپوزیشن جماعتوں سے سخت مایوس ہیں اورسخت نالاں بھی۔ انتہائی مشکلات کا شکار عوام کو محض سخت تقریروں سے بھلایا نہیں جا سکتا انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہی نہیں اب سڑکوں پر دوبارہ آنے کی تیاری جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی رہ گئی ہے خود مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کی قیادت سے سخت ناراض ہیں جس نے وعدے کے مطابق گزشتہ دھرنے میں ساتھ نہیں دیا اور بقول مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کی قیادت نے انہیں دھوکہ دیا جبکہ پیپلزپارٹی نے بھی محض خانہ پری کی۔ مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر احتجاجی تحریک کی تیاریوں میں ہیں مگر احتجاجی تحریک اور دھرنوں کے لئے کروڑوں روپے درکار ہیں کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دھرنے کے لئے مولانا فضل الرحمان کو چند بڑے صنعت کاروں اور تاجروں نے کروڑوں روپے دیئے خفیہ اداروں نے مالی امداد دینے والے صنعت کاروں اور تاجروں کا سراغ لگا کر رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردی ہے۔

ایسے لوگوں کے خلاف جلد گھیرا تنگ ہو گا۔ اور اگر مولانا فضل الرحمان نے احتجاج تحریک شروع کی تو ان کی مالی امداد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ گزشتہ دھرنے کے لئے مالی امداد دینے والوں کو توقع تھی کہ عمران حکومت گر جائے گی اور ہماری ایف بی آر ، ایف ائی اے اور نیب سے جان چھوٹ جائے گی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اگرچہ عمران حکومت کی کارکردگی بہت خراب ہے خود عمران خان صاحب اپنے بعض وزرا کی کارکردگی سے نالاں ہیں اور خوش نہیں مگر حکومت کی کم اکثریت کیوجہ سے کوئی بڑا اقدام کرنے سے گریزاں ہیں چند دن پہلے وزیراعظم خان نے مہنگائی سے متاثر غریبوں کی چیخوں کو سن لیا اور انہوں نے یوٹیلٹی اسٹوروں کے ذریعے آٹا چینی گھی دالوں کی قیمتوں میں کمی کی۔

وزیراعظم نے مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لئے چند اجلاس منعقد کئے پیٹرول ڈیزل بجلی گیس کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی اگرچہ ان چیزوں کی کمی تو نہ ہوئی مگر موجودہ قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ ہوا ورنہ ان اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا امکان تھا بعض وفاقی وزرا اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے حکومت اور وزیراعظم پر تنقید کرتے رہتے ہیں مگر جسٹس فائز کیس میں انور صفدر اور فروغ نسیم نے دوسری دفعہ حکومت کی سبکی کرائی پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر انتہا درجے کی نااہلی کا مظاہرہ کیا دونوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سمری دیکھی نہ نوٹی فیکیشن پڑھا جس سے خواہ مخواہ حکومت اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پوزیشن خراب ہوئی وزیراعظم کو اسی وقت دونوں کو فارغ کر دینا چاہیئے تھا نجانے کیا مجبوری آڑے آئی اب اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ میں ایسی بات کہہ دی جس سے تمام جج بھڑک اٹھے جبکہ انور منصور نے ججوں پر الزام لگا دیا جس میں اٹارنی جنرل کو مستعفی ہونا پڑا وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے وزیر قانون کہتے ہیں کہ ہم نے انور منصور کو نکالاہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سپریم کورٹ بارے کے کہنے پر از خود استعفیٰ دیا ہے اور جو کچھ میں نے کیا اس کے بارے میں حکومت کے علم میں تھا جبکہ وزیر قانون نےکہا کہ انور صفدر نے جو کچھ کہا وہ ان کی ذاتی رائے تھی ہمیں اس کا علم نہیں۔ اس تنازعے میں وزیر قانون بھی برابر کے شریک ہیں حکومت نے انور صفدر کو فارغ کردیا ہے اسی طرح وزیر قانون کو بھی فارغ کردیا جائے چاہے وزیر قانون کسی کی بھی مرضی سے آئے ہوں ایم کیو ایم نے انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔