اچھی پھپھو

February 29, 2020

قرۃالعین فاروق، حیدرآباد

علیزہ یونیورسٹی سے تھکی ہوئی گھر آئی اور آتے ہی آرام کرنے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ کمرہ میں آکر جب اس کی نظر بستر پر پڑی تو چیختی چلاتی کمرے سے باہر آئی اور غصے سے علی اور کرن کو آوازیں لگانے لگی۔ علی اور کرن اس کے بھائی کے بچے تھے جو آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت کرتے رہتے تھے۔ اس وقت بھی وہ علیزہ کے بیڈ کے نیچے خاموشی سے چھپے ہوئے تھے۔ جب کچھ دیر یوں ہی گزر گی اور ان کی پھوپھو کا غصہ کچھ کم ہوا تو علی نے کرن سے پوچھا۔

’’ پھپھو کیوں ہم پر ہر وقت غصہ کرتی رہتی ہیں، کبھی ڈانٹتی تو کبھی تپھڑ بھی مار دیتی ہیں آخر انہیں کیا مسئلہ ہے؟‘‘

’’مجھے کیا پتہ‘‘ ،کرن نے جواب دیا

کمرے کے باہر سے گزرتے ہوئے علیزہ نے دونوں کی باتوں کی آواز سن لی ، وہ دوبارہ کمرے میں واپس آئی اور انہیں بستر کے نیچے سے نکلنے کا کہا ،

’’میرے بستر کی چادر پر یہ گیلی ٹافیاں اور چیونگم کس نے چپکائ ہے‘‘ علیزہ نے دونوں سے پوچھا۔

علی اور کرن نے معصومیت سے کہا کہ، ’’ہمیں نہیں معلوم کس…‘‘ ابھی ان کا جملہ ادھورا ہی تھا کہ علیزہ نے دونوں کو ایک ایک تپھڑ مار دیا اور کہا کہ ، ’’آئندہ میرے بستر پر بیٹھ کر کوئی چیز نہ کھائیں‘‘۔ علی اور کرن روتے ہوئے کمرے میں سے باہر چلے گئے۔

علیزہ کو علی اور کرن سے جیسے چڑ سی تھی ، وہ دونوں پورا دن شرارتیں کرتے رہتے، جس سے علیزہ تنگ ہوتی ۔

وہ ان دونوں کو ہر وقت ڈانٹتی یا مارتی رہتی تھی، اگر یہ دونوں اس کے کمرے میں آجاتے تو وہ ان دونوں کو مسلسل کچھ نہ کچھ کہتی رہتی، دونوں بچوں کا خیال تھا کہ شاید علیزہ پھپھو انہیں پسند نہیں کرتیں جبھی ہر وقت ان پر غصہ کرتی رہتی ہیں۔

ایک دن علیزہ کو تیز بخار ہوا تو وہ اپنے بستر پر سارا دن لیٹی رہی، کمرے سے باہر بھی نہ آئی علی اور کرن کو تشویش ہوئی کہ آخر ان کی پھپھو کمرے سے باہر کیوں نہیں آرہیں اور سارا دن انہوں نے نہ ڈانٹا اور نہ کچھ کہا، گھر والے بھی پریشان ہیں اور میز پر دوائیاں بھی رکھی ہیں ، دادی جان علیزہ پھپھو کا سر دبا رہی تھیں اور وہ آنکھیں بند کرکے لیٹی تھیں پھر دونوں بچوں سے نہ رہا گیا تو وہ ڈرتے ڈرتے پھپھو کے کمرے میں چلے گئے کہ، کہیں انہیں ڈانٹ نہ دیں ۔مگر وہ تو آنکھیں بند کیئے لیٹی تھیں ۔

کرن ان کی ایک ٹانگ دبانے لگی اور علی دوسری ۔

دونوں بچے ہلکی آواز میں اللہ سے اپنی علیزہ پھپھو کے ٹھیک ہونے کی دعا کرنے لگے۔

علیزہ کو پہلے تو احساس نہ ہوا پھر تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر علی اور کرن کو دیکھا کہ کیسے دونوں بچے اس کی ٹانگیں دبا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اللہ سے اس کی صحت کی دعا کر رہے ہیں تو علیزہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس دن علیزہ کو احساس ہوا کہ، بچے نرم دل ہوتے ہیں، بچے تو شرارتیں کرتے ہی ہیں مگر دل کے صاف ہوتے ہیں ۔معصوم بچوں کا دل پھولوںکی پنکھڑی کی طرح نازک ہوتا ہے، اس دن کے بعد سے علیزہ نے علی اور کرن کو ڈانٹنا اور مارنا چھوڑ دیا، علیزہ ان دونوں کی شرارتوں پر غصہ کرنے کی بجائے انہیں سمجھاتی کہ ایسے نہیں کرتے ایسے تو چیزیں خراب ہو جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلتی، ان دونوں کی فرمائش پر ان کے لئے کھانے بناتی اور یہ تینوں خوب مزے کرتے اور تو اور علی اور کرن علیزہ پھپھو کو پیار سے اچھی پھپھو کہنے لگے اور علیزہ کو اپنا یہ نیا نام بہت پسند آیا۔