نظم ’اونٹ‘

February 29, 2020

اسماعیل میرٹھی

لق و دق صحرا میں یا میدان میں

یا عرب کے گرم ریگستان میں

سایہ افگن ہے نہ واں کوئی چٹان

سرد پانی کا نہ دریا کا نشان

چلچلاتی دھوپ ہے اور چُپ ہوا

واں پرندہ بھی نہیں پر مارتا

تو وہاں کے مرحلے کرتا ہے طے

دن بہ دن اور ہفتہ ہفتہ پے بہ پے

قیمتی اشیا ہیں تیری پشت پر

تاجروں کا ریشم اور شاہوں کا زر

تودہ تودہ تیرے اوپر لد رہا

ہے بھرا گویا جہاز پِر بہا

چند ہفتے جب کہ جاتے ہیں گزر

اور تھکا دیتا ہے راکب کو سفر

اونٹ! گھبراتا نہیں تو بار سے

دیکھتا ہے اس کی جانب پیار سے

گویا کہتا ہے کہ اے میرے سوار

ایک دن تو اور بھی ہمت نہ ہار

ہاں نہ بے دل ہو نہ رستے میں ٹھٹک

صاف سر چشمہ ہے آگے دھر لپک

مجھ کو آتی ہے ہوا سے بُوئے آب

نااُمیدی سے نہ کر تُو اضطراب

اونٹ تو کرتا ہے اس کی رہبری

یوں بنا دیتا ہے راکب کو جری

آخرش منزل پہ پہنچاتا ہے تُو

اور سوکھے خار و خس کھاتا ہے تُو

صبر سے کرتا ہے طے راہِ دراز

سچ کہا ہے تو ہے خشکی کا جہاز

الغرض تو ہے حلیمِ و خوش خصال

تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال