گلوبلائزیشن، ثقافت اور ترقی پسند ادب (دوسری قسط)

March 05, 2020

ثقافتی سطح پر گلوبلائزیشن کے نتیجے میں جو دوسرا بڑا چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے وہ بھی پہلے چیلنج کی طرح ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ گلوبلائزیشن کی ہم رُکابی اور اسی کے نتیجے میں اطلاعات کی ٹیکنالوجی نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ سیٹیلا ئیٹ کی دنیا ہو یا انٹر نیٹ، کمپیوٹر کا وسیلہ ہو یا موبائل ٹیلی فونوں کا نظام، ان سب ایجادات نے معلومات کے حصول اور ان کے پھیلائو کے ان گنت امکانات پیدا کردیئے ہیں۔ آج دنیا میں معلومات اور علم کا جتنا ذخیرہ انسان کی دسترس میں آچکا ہے اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس انقلاب کے براہ راست اثرات دنیا کی سب ثقافتوں پر پڑ رہے ہیں۔

خواہ وہ کتنی ہی مقامی کیوں نہ ہوں اور اُن کی جڑیں کتنی ہی پرانی ہو چکی ہوں۔ یہ ثقافتیں اب ایک نئی فضا اور ایک نئے ماحول میں سانس لینے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ اس کے زیرِ اثر ان ثقافتوں کی داخلی توانائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے تخلیقی مظاہر مزید ثروت مند ہو رہے ہیں اور ان میں اپنے ہونے کا احساس اور ساتھ ہی اپنے اظہار کی خواہش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ یوں جہاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مختلف ثقافتوں کے اندر زندگی کی رمق بڑھتی جارہی ہے، وہیں ان سب ثقافتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کا باب بھی نئے عنوانات کے ساتھ کھل رہا ہے۔

ان ثقافتوں کے باہمی تعلقات خوشگوار روابط اور بامعنی تال میل کے تعلقات بھی ہوسکتے ہیں ،جو بعض صورتوں میں ناہمواری، عدم تعاون اور غیر ہم آہنگی کے حامل بھی بن سکتے ہیں۔ خاص طور سے عالمی معیشت کے فروغ اور وسیع پیمانے پر لوگوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک بسلسلہ ملازمت یا تعلیم نقلِ مکانی کے نتیجے میں کسی بھی ملک میں مختلف نسلوں اور زبانوں کے حامل افراد کی بڑی تعداد میں سماجی اور سیاسی دونوں اعتبار سے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ مختلف ثقافتوں کے حامل لوگوں کی کسی ایک علاقے میں موجودگی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہاں پر امن بقائے باہمی، ایک دوسرے کے احترام اور ایک دوسرے کے مذہب اور زبان کے لیے قبولیت کا رجحان بھی موجود ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کشیدگی اور تصادم کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

سو گلوبلائزیشن کا دوسرا بڑا چیلنج مختلف ثقافتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کو تسلیم کر کے باہمی تال میل سے ہر دو ثقافتوں کو ثروت مند کر نے کا چیلنج ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ علم ودانش خاص طور سے ادیب بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے پڑھنے والوں میں اگر ایسے جذبات اور احساسات پیدا کر سکیں جو تنگ نظری کے بجائے وسیع النظری اور انفرادی کے بجائے اجتماعی سوچ اور طرزِ فکر کو بڑھاوا دے سکیں تو یہ آج کے تناظر میں ادیبوں کی ایک اہم خدمت ہوگی۔

گلوبلائزیشن کے نتیجے میں ثقافتی سطح پر جو دو طرح کے چیلنج سامنے آئے ہیں ان کے ذکر کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ترقی پسندی کے اُن اہداف اور اقدار کا اعادہ عصری صورتحال کے تناظر میں کریں کہ جو اقدار روزِ اوّل سے ترقی پسندی کی نمائندہ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں آٹھ بنیادی تصورات اور اقدار کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلا اہم تصور تو بقائے نوع انسانی کا ہی تصور ہے جس کا مضمون کے آغاز میں ذکر ہوا تھا۔ کرہّ ارض پر اپنی نمود سے آج تک انسان نے نہ جانے کتنے ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا کیا ہو گا۔

انسان اکثر ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں آنے والی اُفتاد کے سامنے بے بس بھی رہا ہے اور ایک ایک بحران نے کئی کئی لاکھ جانوں کی قربانی لی ہے آج بھی دنیا میں ہزاروں انسان محض خشک سالی کے ہاتھوں دم توڑ دیتے ہیں۔ زیرِ زمین ٹیک ٹانکس (tectonics)پلیٹوں کی جنبش سطح زمین پر بستیوں کی بستیوں کو تاراج کردیتی ہے، سمندروں میں بننے والی سونامیاں شہروں اور قصبوں کو بہا کر لے جاتی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اسی انسان نے بہت سے ماحولیاتی بحرانوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ بھی کیا ہے۔ آج کی دنیا میں جب کہ سائنس انسان کو کہیں آگے لے جاچکی ہے انسان کی نیچر کے سامنے بے بسی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ سو آج بھی انسان کا پہلا امتحان تو یہی ہے کہ وہ اپنی نوع کی بقاء اور اس کے تسلسل کو کس طرح یقینی بناتا ہے۔

یہ کام انسان اسی صورت میں سر انجام دے سکے گا جب کہ وہ اپنی توانائیوں اور توجہ کو اس طرف مبذول کرے گا۔ انسان نے کار ِ جہاں کو اتنا دراز کر لیا ہے کہ بقائے نوع کا مسئلہ اکثر اس کے ذہن سے اوجھل رہنے لگا ہے لیکن دنیا کے دوسرے معاملات بھی اسی وقت آگے بڑھ سکیں گے جب زمین پر انسان کے باقی رہنے یا نہ رہنے کا مسئلہ طے ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے علم، ہماری تحقیقات اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا ایک اہم موضوع بجائے خود اس نظامِ کائنات کے ساتھ انسان کا تعلق ہونا چاہیئے۔ زندگی کا تسلسل وہ بنیادی ترقی پسند قدر ہے جس کو ہماری نظروں سے کبھی اوجھل نہیں رہنا چاہیئے۔(جاری ہے)