مُٹھی گرم، عمارت بُلند

March 11, 2020

کراچی کے علاقے گولی مار نمبردومیں گزشتہ دنو ں تین عمارتیں منہدم ہونے کا جو افسوس ناک واقعہ پیش آیااس میں ستّائیس قیمتی جانیں گئیں۔یہ تینوں بلند رہائشی عمارتیں چالیس چالیس گز کے تین پلاٹس پر بنی تھیں، جن میں سے ایک عمارت مکمل طور پرمنہدم ہوگئی جس کی وجہ سے مزید دو عمارتیں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔منہدم ہونے والی عمارت تقریبا پچیس برس قبل ایک منزلہ عمارت کے طورپر تعمیر ہوئی تھی۔پھر اس پر مزید دو تین منزلیں ضابطوں کی خلاف ورزی کرکے بنائی گئیں اور چار پانچ ماہ قبل مزید تعمیرات کی گئیں جس کے نتیجے میں وزن بڑھااور عمارت برابر والی دو عمارتوںپرآگری۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سانحہ علاقے میں تعینات سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کےمتعلقہ عملے کی مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے پیش آیا۔حکّام نے متعلقہ افسران کو معطل کردیاہےاور کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائےگا،لیکن تادمِ تحریر ایساکچھ نہیں ہواہے۔ سپریم کورٹ نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے اور حکّام کو صورت حال بہتر بنانے کی سختی سے ہدایت کی ہے ۔

سپریم کورٹ نے سندھ بلـڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ظفر احسن سمیت تمام افسران کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔دوسری جانب ایس بی سی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نےتسلیم کیا ہے کہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات وائرس کی طرح پھیل رہی ہیں، نان ٹیکنیکل افراد تعمیرات کرکے انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ان کے مطابق ایسی عمارتیں بنانےوالوں کوبھی سزادینی چاہیے۔ان کے بہ قول منہدم ہونے والی عمارت اندازابیس برس پرانی تھی جس پر چند ماہ قبل مزید تعمیرات کی گئی تھیںجس کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔

اس سانحے نے شہر ی منصوبہ بندی اور شہر کا نظم و نسق چلانے کے پورے نظام پرایک مرتبہ پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔اس سے پہلے بھی اس خانماں برباد شہر میں بہت بڑےبڑے سانحات رونما ہوچکے ہیں،مگرمتعلقہ حکّام چند دنوں بعد انہیں بھلاکر پھر سے ’’پرانی روش‘‘ کے مطابق’’ کام‘‘ شروع کردیتے ہیں۔شہر میں منصوبہ بندی نام کی چڑیا کہیں نظر نہیں آتی۔یہاں صرف ایک ’’ضابطہ ‘‘ نظر آتا ہے،جسے’’ مُٹھی گرم کرنے کاضابطہ‘‘کہاجاتا ہے۔آپ اس ’’ضابطے‘‘ پر عمل کرکے کہیں بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ لہذا اس شہر کا میئر بھی یہ ہی رونا رو رہا ہے۔اس سانحےپر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں وسیم اخترکا کہنا تھا کہ چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر اورپلازے بنانے کا خمیازہ آخرکار شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

لاتعداد رہائشی عمارتوں کو یہ سوچے بغیر کمرشلائز کردیا گیا ہے کہ شہر پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ چھوٹے اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر میں قواعد وضوابط کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے اور ناقص مٹیریل استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آئے روزایسے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے جس طرح بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے اجازت نامے جاری کیے ہیںاس سے یہ شہر کنکریٹ کا جنگل بنتا جا رہاہے ۔اگر اس عمل کو سنجیدگی سے نہ روکا گیا اور غیرقانونی اجازت نامے منسوخ نہ کیے گئے تو شہریوں کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وسیم اختر اور ان کی جماعت کا اس ساری صورت حال میں کوئی کردار نہیںہے؟یقینا ہے،کیوں کہ ان کی جماعت اس شہر پرتقریبا تیس برس تک بلا شرکتِ غیرے حکم راں رہی ہے۔اور حکم رانی بھی ایسی کہ مخالفین ان کے خلاف بات کرنے کی بھی جرات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ صرف ایک جماعت پر اس شہر کی بربادی کا سارا ملبہ نہیں ڈالا جاسکتا۔اسے ہم سب نے مل کر تباہ کیا ہے۔

موجودہ حالات میں ماہرینِ شہری منصوبہ بندی کا کہنا کہ کراچی آباد نہیں ہورہا ہے بلکہ تیزی کے ساتھ عمارتوں کے جنگل میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔شہر کی آبادی بڑھنے کے اسباب خواں کچھ بھی ہوں،لیکن اس کی رفتار نے تمام شہری اداروں، خصوصاً حکومت سندھ کو ہلا دیاہے ۔آبادی کے لحاظ سے صوبہ سندھ کے دیگر علاقوں کی آبادی ایک طرف اور کراچی کی ایک طرف رکھی جائے تو پلڑا کراچی کی جانب ہی جھکے گا۔اس بات کی گواہی غیر جانب دارانہ اور منصفانہ بنیادوں پر ہونے والی مردم شماری دے سکتی ہے ۔

جہاں شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے وہاں تعمیرات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اب یہاںچار یا چھ منزلہ عمارتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔اب تو بات بیس اور تیس منزلوںسے آگے نکل چکی ہے۔سال ہا سال تک اپنے بازو پھیلانے والا شہرِ قائد اب مسلسل اپناقد بھی بڑھا رہا ہے۔ ناردرن بائی پاس سے کلفٹن کے ساحل تک، سپرہائی وے کے آغاز سےکیماڑی تک چاروں جانب پھیلنے کے بعد اب یہ سطح زمین سے اٹھ کر فلک بوسی تک پہنچنے لگا ہے۔1980ءکی دہائی تک کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کچھ حد تک فعال نظر آتی تھی۔ مگراس کے بعد اس کی فعالیت کم ہوتے ہوتے صفر ہوچکی ہے۔اب یہ ادارہ محض نام کو رہ گیا ہےاور ’’مال‘‘ بنانے کی مشین بن چکا ہے۔

ماضی کے مشرق کی ملکہ

عروس البلاد،کراچی ،نے ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب اسے مشرق کی ملکہ کا خطاب دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اسے جدید شہر کی شکل انگریزوں نے دی اورباقاعدہ منصوبہ بندی سے بسایا۔لیکن جب یہ ہمارے ہاتھ لگا تو ہم نے ایسا بنادیا کہ لوگوں نے اسےنیا نام دے دیا،ٍیعنی ’’کچراچی‘‘۔

قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کی کُل آبادی چار لاکھ نفوس سے کچھ ہی زیادہ تھی۔لیکن 1947سے 1951 کے درمیان بھارت سے تقریبا چھ لاکھ مہاجر ین اس شہر میں آئے اور اسے اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ان مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب طبقے سے تھا اور وہ نئے شہر میںبے آسرا تھے۔تاہم اس شہر کےپرانے باسیوںنے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایثار و قربانی کی مثالیں قائم کیں ۔ چوں کہ کراچی نئی مملکت کا دارالحکومت قرار پایا تھا لہذا بہت سے سرکاری ملازمین بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں آئے۔اس کے علاوہ ملک کے شمالی علاقوںسے بہت سےافراد روزگار کی تلاش میں کراچی آئے ۔ تا ہم مو خرا لذ کر افرادکی کُل تعداد مہاجرین کی تعدادکے پانچ فی صد کے مساوی تھی۔شہر کی آبادی میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ ہوجانے کی وجہ سے یہاں کے بنیادی ڈھانچے اور تمام سہولتوں پر زبردست دباؤ پڑا۔

مہاجرین کو جہاں کُھلی جگہ ملی انہوںنےجیسے تیسے وہاں سر چھپانے کاعارضی ٹھکانہ بنالیا۔بعد میں حکومت نے انہیں کئی مقامات پر اراضی الاٹ کی۔شہر بھر میں پھیلے ہو ئے ان افراد کو پینے کا پانی اورصحت و صفائی کی سہولتیں فرا ہم کرنے کی غرض سے شہر کی انتظامیہ نے جو بنیادی ڈھا نچا بنایا،ایک اندازے کے مطابق اُس وقت اُس پر سا ت تاآٹھ کروڑ روپے خرچ ہوئےتھے۔لیکن آبادی کا دباؤاس رقم کے مقابلے میںبہت زیادہ تھا۔چناں چہ وقت گزرنے کے ساتھ پرانے مسائل شدّت اختیار کرنے او ر نئے مسائل سامنے آنے لگے۔ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت نے1950میںکراچی امپرو و منٹ ٹرسٹ کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔ 1957میں اس ادارے کا درجہ بڑھاکر اس کا نام کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ادارہ ترقّیاتِ کراچی) رکھ دیا گیا۔

ابتدائی غلطیاں

کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ نے 1952میں سوئیڈن کے کنسلٹنٹس کی ایک فرم،ایم آر وی کے تعاون سے کر ا چی کے لیے پہلا ماسٹرپلان بنایا تھاجو گریٹر کراچی پلا ن یا ایم آر وی پلان کے نام سے مشہور ہوا ۔ تا ہم 1951 سے 1959کے درمیانی عرصے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام ہونے کی وجہ سے اس پلان پر عمل درآمد ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا تھا۔اس ماسٹر پلان کی تیاری کے عمل میں کئی خلایا نقائص تھے۔مثلا اس کام کے لیے کوئی ڈیٹا بیس نہیں بنایا گیا تھا اور منصوبوں پر عمل درآمد کے مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کے ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔دوم یہ کہ گریٹر کراچی پلان اس مفروضے کو مدّ ِنظر رکھ کر بنایا گیا تھا کہ 2000میں شہر کی آبادی 30 لا کھ نفوس پر مشتمل ہوگی۔تاہم یہ مرحلہ 1969ہی میں آچکا تھا۔

اُ س وقت کے منصوبہ ساز صرف مہاجرین کی آبادکاری اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنےکے نقطہ نظرسے منصوبے بنارہے تھے۔انہوں نے شہرمیںجس طرح بستیاں بسانے کا منصوبہ بنایا تھا وہ زمینی حقائق کے خلاف تھا۔علاوہ ازیںشہر کے پرانے علاقے سے ہٹ کر انتظامی مرکز بنانے کا تصوّر بھی اس پلان کا حصّہ تھا ۔ اس پر طرفہ تماشایہ کہ بے گھروں کو ریاست کی جانب سے گھر بناکر دینے کے پورے منصوبے کو مذکورہ انتظامی مرکز کی تشکیل و تعمیر سے مشروط کردیا گیا تھا۔ظاہر ہے کہ اُس وقت نوزائیدہ مملکت ِ پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔چناں چہ اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

ایوب خان نے 1958میں ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ چوں کہ وہ عوام کے ووٹس کے بجائےطاقت کے زور پر آئے تھے اور ان کے ہاتھ میں بندوق تھی لہذا خود کو کسی کے سامنے جواب دہ تصوّر نہیں کرتے تھے ۔ انہو ں نے آمروں ہی کے انداز میں فیصلے کیے۔انہوںنے کراچی میں انتظامی مرکزقائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ ان کی نیت دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کرنے کی تھی اور بعد میںانہوں نے ایسا ہی کیا۔ان دواہم فیصلوںنے کراچی کے مستقبل کے بارے میں کی گئی تمام تر منصوبہ بندی کا ستیا ناس کردیا۔دراصل مذکورہ دونوں فیصلوں کے بعد کراچی میںانتظامی سطح پر ایسی افراتفری پھیلی کہ پھر کچھ بھی صحیح نہیں رہ سکا۔انہیں کیا معلوم تھا کہ شہری منصوبہ بندی کس چڑیا کا نام ہے اور شہر بسانا کو ئی کھیل نہیں ہوتا۔ چنا ں چہ جس طرح گولی پستول سے نکلتے ہوئے یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے کون ہے، اُسی طرح انہوں نےکراچی کے بار ے میں مذکورہ دو اہم فیصلے کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ مستقبل میںکراچی پر ان کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے ۔وہ ایسا سوچتے بھی کیوں؟انہیں کون سا کسی کو جواب دینا تھا ۔

کراچی کے لیے ایک نیا پلان

1958میں حکومت نے ایتھنز ،یونان،سے تعلق رکھنے والی ایک کنسلٹنٹ فرم ڈوکسی ایڈز ایسوسی ایٹس کے ذریعے گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان بنوایا۔اس پلان کی تیاری کے لیے ایک ڈیٹا بیس بنایا گیا اور سروے بھی کیے گئے تھے۔لہذا پہلے کے مقابلے میں یہ پلان کافی حد تک بہتر تھا۔اس پلان کے تحت شہر کے مرکز سے پندرہ تا بیس میل کے فاصلے پر نئی بستیاں(ٹاؤن شپس)بسانے کے کام کا آغاز ہوا۔اس کے لیے کورنگی اور نئی کراچی کے علاقوں کا انتخاب کیا گیا۔تاہم اس منصوبے پر جزوی کام ہوا اور 1964میں گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان کو بھی طاق میں رکھ کر بھلادیا گیا۔اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے بعض کوششیں ہوئیں ،مگر ان کا انجام بھی پہلے جیسا ہی ہوا۔

ناکام ہوتے منصوبے

وقت گزر رہا تھا،ایک جانب کراچی کے بارے میں سرکاری حکمتِ عملیاں اور منصوبے ناکام ہورہےتھےاور دوسری جانب شہر کی آبادی اور مسائل تیزی سے بڑھ رہے تھے۔شہر کے مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اقوامِ متحدہ سے مدد کی درخواست کی تو 1968میںاقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پرو گر ا م(یو این ڈی پی)نے حکومتِ پاکستان کی مشکل آسان کرنے کے لیے دستِ تعاون بڑھایا ۔ اس کے نتیجے میں ایک نیم خودمختار ادارہ ماسٹرپلان ڈپارٹمنٹ کے نام سے وجود میں آیا۔اس کے علاوہ ایک امر یکن ۔ چیک فرم کو کے ڈی اے کا کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا ۔

ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ نے 1974سے 1985کے لیے کراچی کا ماسٹر پلان بنایا۔اس پر عمل درآمد کرانے کی ذمّے داری مذکورہ کنسلٹنٹ فرم کودی گئی تھی۔تاہم مذکورہ پلان کی بنیادیں بھی حقیقت پر نہیں رکھی گئی تھیں،چناں چہ وہ بھی ناکام ہی ثابت ہوا۔دراصل یہ سارے پلانزبے گھر اور غریب افراد کو گھر فراہم کرنے اور غریبوں کو شہر کے مرکز سے دور لے جانے کے نکات کے گرد گھومتے تھے۔ایسی کوششیں وقتا فوقتا بعد میں بھی ہوتی رہیں مگر ،مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی، کے مصداق کراچی کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے اور پے چیدہ تر ہو تے گئے۔

بعد کے مرحلے میں کراچی ڈیولپمنٹ پلان 2000 اور کراچی اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان 2020سامنے آیا۔لیکن پہلے کے مقابلے میں آج کراچی کے زیادہ علاقوں میں گٹر اُبل رہے ہیں،بلڈنگ بائی لاز اور بلڈنگ کوڈز کی زیادہ خلاف ورزیاں ہورہی ہیں،گندگی کے زیادہ ڈ ھیر زیادہ علاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور بہت سےپرا نے مسائل کے ساتھ روزانہ بہت سےنئے مسائل سا منے آتے رہتے ہیں۔

ماسٹر پلان سے محروم میگا پولیٹن شہر

کراچی کا ماسٹر پلان نہ ہونے کی حقیقت تمام ذمّے داران تسلیم کرتے ہیں ،مگر کوئی بھی یہ بھاری پتھر ہلانے کی کوشش نہیں کرتا۔ 30مارچ 2017کواس وقت کے گورنر سندھ ،محمد زبیرسے گورنر ہائوس میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد)کےتیرہ رکنی وفدنے محسن شیخانی کی قیادت میں ملاقات کی تھی۔اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر کا کہنا تھا کہ کراچی ملک کا اقتصادی ہب اور ایک بڑے صنعتی زون کا حامل شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کے حصول کےلیے آکر آباد ہیں۔ بدقسمتی سےیہ شہربغیر کسی ماسٹر پلا ن کے پھیلتا گیا جس سے دیگر مسائل کے ساتھ رہائش کا مسئلہ بھی سنگین ہورہا ہے ۔

ماہرین کے مطابق مالیاتی نا انصافیوں، اختیارات پر قدغن، ناقص منصوبہ بندی اور بلدیاتی سہولتوں کے فقدان کے باعث شہر کچر ے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کراچی کے لیےکم از کم بیس سالہ ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے ۔ ان کے بہ قول ملک اور صو بے کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کراچی کے ساتھ سندھ حکومت نے مالیاتی نا انصافی کی جس کی وجہ سےیہ شہر کچی آبادی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔شہر کے مسائل وقت گزرنےکے ساتھ بڑھتےگئے،لیکن ان کے حل پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی کو پانی و بجلی کی عدم دست یابی، فراہمی و نکاسی آب کے ناقص نظام اور صحت و صفائی کے شعبے کی تباہ حالی جیسے سنگین مسائل کا سامناہے۔

لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ شہر کی منصوبہ بندی اور ترقی پر توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی شہر کا ماسٹر پلان اورپلاننگ اس و قت کی ہے جب شہر کی آبادی 60 لاکھ تھی، وفاقی اور صو با ئی حکو مت کراچی کو ایسا مکمل اور جامع ماسٹر پلان دیں جو شہر کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے ہو۔

کراچی سے حکومت کو جوریونیو ملتا ہے،چند برسوں کا چارٹ بنایا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ کراچی پراس میں سے کتنا خرچ کیا گیا اور دیگر شہروں پر کتنا خرچ کیا گیا۔کراچی کو مسائل کاجنگل کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ دنیا کے چند بہت زیادہ گنجان آباد شہروں میں شمار کیےجانے والے اس شہر کے مکین قدم قدم پر مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں، اس شہر کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ شہر میں سیوریج کا کوئی مناسب انتظام ہے۔کوڑا کرکٹ اٹھانے اوراسے ٹھکانے لگانے کانظام تو عرصہ ہوا اپنی افادیت کھوچکاہے اور اب اس شہر میں جا بہ جا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہی نظر آتے ہیں۔

ٹھوس منصوبہ بندی اور با اختیار ادارے

کراچی کے مسائل کاجائزہ لینے کے لیےڈیڑھ دو برس قبل منعقدہ ایک اجلاس کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ شہر کے باسیوں کو درپیش مسائل کابنیادی سبب شہر کا بے ہنگم پھیلائو ہے۔ان کے مطابق شہر کے ماسٹر پلان کو وقت کی ضرورت کے مطابق بنانا اوربڑھتی ہوئی آبادی کےتناسب سے پانی، سیوریج اوردیگر تمام سہولتوں کی فر ا ہمی کا واحد ادارہ بنانامسئلے کا واحد حل ہے۔

اس اجلاس میں ماہرین نے مسائل کاجائزہ لینے کےبعدیہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چوں کہ شہر میںرہائشی ضروریات میں اضافے کی وجہ سے اب یہ شہر افقی پھیلائوکی جانب گام زن ہے اور چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر (جہاں پہلے ایک منزلہ مکانات بنے ہوئے تھے)اب 4-4 اور5-6 منزلہ تک عما ر تیں تعمیر ہوچکی ہیں اور اس تناسب سے پانی کی فراہمی اور سیوریج کی نکاسی کا انتظام نہیں ہے ۔چناں چہ مسائل روز بہ روزسنگین تر ہوتےجارہے ہیں۔ ماہرین کے اس تجز یے کی روشنی میں اس وقت سندھ بلڈ نگ کنٹرول اتھارٹی (جس کے پاس کراچی کے ماسٹر پلا ن ڈیولپمنٹ کی اتھا ر ٹی بھی ہے)نےاپنے ایک اجلا س میں کراچی میں گرائونڈ پلس ٹو یعنی تین منزلوں سے زیادہ اونچی عمارتوں کی تعمیراور مکانوںکے پورشن فرو خت کرنےپرپابندی عاید کردی تھی،لیکن وہ صرف کاغذوں میں تھی۔واضح رہے کہ سند ھ بلڈنگ کنٹرول اتھار ٹی نے یہ کارروائی سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں پا نی اور سیوریج کے مسائل کے حوالے سے دیے گئے ایک حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کی تھی۔پھر کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی شہر میں اسی نوعیت کی پابندی عاید کی تھی جو بعد میں ختم کردی گئی تھی۔

ماہرین کے بہ قول سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اس نوعیت کے فیصلوں سے کراچی کے بے ہنگم افقی پھیلائو پر قابو پانے میں کسی حد تک مدد مل سکتی ہے اور اس سے شہر میں پانی اور سیوریج کے بڑھتے ہوئے مسائل میں اضافے کا سلسلہ کسی حد تک رک سکتاہے۔لیکن محض بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر پر پابندی سے یہ مسئلہ مکمل طورپرحل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اس طرح کے فیصلوں سے کراچی کے باسیوں کے لیے رہائش کامسئلہ زیادہ سنگین ہوجائے گااورشہر میں،جو پہلے ہی بے ہنگم کچی آبادیوں میں گھرا ہوا ہے، مزید کچی آبادیاں وجود میں آناشروع ہو جائیں گی۔ظاہرہے کہ ان نئی کچی آبادیوں کے مکینوں کو بھی چوں کہ پانی اور سیوریج کی سہولتوں کی ضرورت ہوگی اس لیے یہ مسائل اپنی جگہ نہ صرف یہ کہ موجود رہیںگے بلکہ بے ہنگم کچی آبادیوں کے وجود میں آجانے کی وجہ سے مزید سنگین ہوجائیں گے۔

ماہرین کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شہرکی ضروریات کے مطابق ماسٹر پلان بنایاجائے اوراس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے شہریوں کوپانی اور سیوریج کی سہولتوں کی فراہمی کےلیے موثر منصوبہ بندی کی جائے۔اس مقصد کے لیے پورے شہر کے لیے ایک بااختیار ادارہ قائم کیاجائے جو بلالحاظِ زمینی ملکیت پورے شہر میں تعمیرات اور بنیادی سہولتوں کی فر ا ہمی کے لیے منصوبہ بندی کرے اور اس ادارے کی منصو بہ بندی کے مطابق تعمیرات کی اجازت بھی ایک ہی ادارہ دے تاکہ قوانین پر عمل درآمد کرانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئےاور شہر کو منظم اندازمیں ترقی کرنے کاموقع مل سکے ۔یہ ادارہ وقتا ً فوقتاً ماسٹر پلان پر نظر ثانی کرتا رہے اور شہر کی بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق اس میں ترامیم وتبد یلیا ں کرتارہے۔

انتظامی کنٹرول بھی مسئلہ

آج اس شہر کے انتظامی کنٹرول کی صورت حال یہ ہے کہ یہ کسی ایک ادارے کے ماتحت نہیں ہے بلکہ مختلف علاقوں کی منصوبہ بندی اور ان علاقوں کے لوگوں کوبنیادی سہولتوں کی فراہمی کی ذمے داری مختلف بلدیاتی ، صوبائی اور وفاقی اداروں کے پاس ہے۔ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ادارہ اپنی صوابدید کے مطابق منصوبہ بندی کرتاہے ۔ لہذا پورا شہر ان اداروں کی کھینچا تانی کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہوگیاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر بلدیہ کراچی کے زیر انتظام علاقے میں کسی عمارت کی تعمیر پر پابندی عاید کی جاتی ہے تو اس سے ملحق کنٹونمنٹ بورڈکے زیر انتظام علاقے میں اس سے زیادہ بلند عمارت کی تعمیر کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ سڑکوں کی مرمت اور تعمیر کے مسئلے پر ان اداروں کے درمیان حدود کے تنازعے پر کھینچا تانی جاری رہتی ہے۔ اگر بلدیہ اپنے علاقے میں کو ئی سڑک تعمیر کرتی ہے تو اس کے برابر میں واقع کنٹو نمنٹ بورڈکے علاقے میں سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے گندا پانی بلدیہ کی نئی تعمیر کردہ سڑک پر پھیل کر اسےناقابلِ استعمال بنادیتاہےیا اس کے برعکس ہوتا ہے۔

کراچی ،سونے کی چڑیا

ماہرینِ شہری منصوبہ بندی کے مطابق شہر کاانتظام بھانت بھانت کے اداروں کے پاس ہونے کی وجہ سے یہ شہر زمینوں اورجائیداد کاکاروبار کرنے والوں کے لیے کھیل کا منافع بخش میدا ن بن گیاہے۔مختلف تعمیراتی ادارے رشوت اوراثرورسوخ کی بنیاد پر شہر کے مختلف اداروں سے زمینیں الاٹ کراتے ہیں یا پرانی رہائشی اسکیمز کو تجارتی اسکیمزمیں تبدیل کراکے ایک یادومنزلہ عمارتوں کی جگہ 10-10 منزلہ پلازا تعمیر کرلیتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ایک یادومنزلہ عمارت کی جگہ دس منزلہ عمارت کی تعمیرسے پانی، سیوریج ،بجلی ،گیس ،پارکنگ اور دیگر بنیاد ی ضروریات بھی اسی قدر بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن کوئی ادارہ اس طرح کی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیتے ہوئے دو سرے متعلقہ ادارے سے کوئی این او سی حاصل کرنا تو درکنار مشورہ تک کرنا گوارا نہیں کرتا۔اس طرح یہ شہر ایک لاوارث بچے کی شکل اختیار کرگیاہےجس سے فائدہ تو سب اٹھانا چاہتے ہیں اور اٹھارہے ہیں، لیکن اس کی ذمے داری لینے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔

بلدیہ عظمی کراچی کا اختیار

یہ بات بہت عجیب و غریب لگتی ہے ،لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ مختلف وفاقی، صوبائی اور خودمختار ادارے 2 کروڑسے زیادہ کی آبادی والے شہر کے باسیوں سے محاصل اور دیگر مدات کے نام پر بھاری رقوم بٹورتے ہیں ۔ لیکن اس شہر کی بلدیہ شہر کی صرف30 فی صد اورسول ایوی ایشن اتھارٹی،ریلوے، کنٹونمنٹ بورڈز ،پورٹ قاسم اتھارٹی ، اسٹیل ملز ،ایم ڈی اے،ایل ڈی اے اور دیگر ادارے 60فی صدسے زاید اراضی کے مالک ہیں ۔ یعنی کراچی کے میئر کے زیر انتظام بلدیہ عظمی کراچی ،ڈی ایم سیز اور یونین کونسلز کو شہر کی ایک تہائی زمین پر بھی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔شہر کی باقی دوتہائی سے زیادہ زمینیں مختلف سرکاری اداروں نے آپس میں تقسیم کررکھی ہیں،جہاں بلدیہ کراچی یا میئر کراچی کا کوئی حکم یا اختیار نہیں چلتا۔

ان علاقوں میں متعلقہ محکموں کے قوانین ہی نافذ ہیں اور ان ہی پر عمل درآمد ہوتاہے۔ اس ضمن میں دل چسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ کراچی کی دوتہائی اراضی پر مختلف سرکاری اداروں کا کنٹرول ہے،لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے علاقوں میں رہنے والوںکو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کو تیارنظر نہیںآتا اور ان علاقوں میں شہری سہولتوں کے فقدان کا الزام بھی بلدیہ کراچی کے سر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دعوے داربہت

کراچی کے انتظامی معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت 15 مختلف وفاقی، صوبائی، اورخودمختار ادارے کراچی کی زمینوںکے دعوےدار ہیں ۔ سرکاری ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ، پاکستان ریلوے، کنٹونمنٹ بورڈز ،پورٹ قاسم اتھارٹی،کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان اسٹیل ملز، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز،پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ،پا کستان کوسٹ گارڈ، وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل ،ا یو ے کیو ٹرسٹ بورڈ اور اسپورٹس بورڈز مجموعی طورپر اس شہر کے کم وبیش ایک تہائی حصے یعنی 32.1 فی صد زمین کے مالک ہیں۔

کراچی ڈیولپمنٹ پروگرام 2000

دوسری جانب صوبائی حکومت کے زیر ا نتظام ادارے، جن میں سندھ ریونیو بورڈ، سندھ کچی آبا د یز اتھارٹی ،گوٹھ آباد اسکیم، کوآپریٹو سوسائٹیز، سندھ انڈ سٹر یل ٹریڈنگ اسٹیٹ، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیو لپمنٹ اتھارٹی ،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، اوقاف اور مذ ہبی امور کا محکمہ اور سندھ پولیس شامل ہے، مجموعی طورپر شہر کے36.8 فی صد حصے کے مالک ہیں۔شہر کا باقی 30.09فی صد حصہ بلدیہ عظمیٰ کراچی،چھ ضلعی بلدیاتی کارپوریشنز ، ضلع کونسل کراچی اور246 یونین کونسلز کے کنٹرول میں ہے۔اس طرح کراچی شاید دنیا کا واحدمیگا پولیٹن شہر ہے جس کی زمین کے اتنی بڑی تعداد میں دعوےدار موجود ہیں اور ان کے علاقوں میں بلدیاتی قوانین کااطلاق نہیں ہوتا۔

اس صورت حال میں کراچی کے میئر وسیم اختر کا یہ موقف غلط نہیں ہے کہ کراچی کی زمینوں کے اتنی بڑی تعداد میں دعوے داروں کی موجودگی کے سبب انتظامی ڈھانچامتاثر ہوتاہے۔اس کے علاوہ مختلف محکموںمیں موجود بدانتظامی، زمینوں کی ملکیت کے حوالے سے تنازعات ،شہر میں موجود بڑی تعداد میںپس ماندہ بستیاں ، ٹر یفک کا غیر معمولی دباؤ اور ناقص انفرااسٹرکچر اس شہر کی منصوبہ بندی اور سسٹم کی ناکامی کا سبب بنتاہے۔

وصولی کرنے والے کم نہیں

شہر کی زمین کی ملکیت کے بڑی تعداد میں دعوے داروں کی وجہ سے اب بلدیہ عظمیٰ کراچی، ضلعی کونسلز،کے ڈی اے ،چھ کنٹونمنٹ بورڈز، پورٹ قاسم اتھا ر ٹی ، پاکستان ریلوے ،پاکستان اسٹیل، سائٹ اورشہر کا کمشنر ی کا نظام شہریوں کو صحت وصفائی اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے،سڑکوں کی تعمیر ،صفائی اور دیکھ بھال، پلوں کی تعمیر ،اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب اور ان کی دیکھ بھال کا ذمے دار ہے۔

کراچی لینڈ یوزپلان 1987

یہ ادارے شہر میں اشتہاری بورڈز کی تنصیب ،رہائشی اورتجارتی عمارتوں کی تعمیر کی منظوری ،پارکس اور کھیل کے میدانوں کی دیکھ بھال، تجاوزات کے خاتمے ،آگ بجھانے کے انتظامات، برساتی نالوں کی صفائی، شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے انتظامات کے نام پر ٹیکس وصول کرتے ہیں اورٹیکسوں کی وصولی کےضمن میں ان میں سے کوئی بھی محکمہ کسی سے پیچھے نظر نہیں آتا۔ماہرین کے مطابق جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی اور شہر کوکسی ایک با ا ختیار ادارے کے ماتحت کرکے اس کے غریبوں، امیروں اور بااثر افراد کو ایک ہی قانون کاپابند نہیں بنایاجاتا اُس وقت تک کراچی کے مسائل پوری طرح حل نہیں ہوسکتے۔