کرونا وائرس: خدشات اور امکانات

March 18, 2020

کرونا وائرس جہاں دنیا بھر میںدہشت کی علامت بن کر ابھرا ہے وہاں اس میں بعض ممالک ،صنعتوں اور شعبوں کے لیے ممکنہ امکانات بھی پوشیدہ نظر آرہے ہیں۔ماہرین ِ اقتصادیات کے مطابق جس طرح ہر بحران میں بعض مواقعے بھی پوشیدہ ہوتے ہیں اسی طرح کی صورت حال ممکنہ طورپر موجودہ حالات میں بھی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے،لیکن ابھی اس بارے میں حتمی طورپرکچھ بھی کہنا کسی بھی ماہرِ اقتصادیات کے لیے ممکن نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وائرس کا پھیلاو اتنی تیزی سے جاری ہے کہ ہر تھوڑی دیر بعداس سے متعلق ایک نئی خبر آجاتی ہے جس سے پچھلے اندازے کسی حد تک غیر موثر ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔تاہم اس سب کے باوجود بعض ممالک اور شعبے اس صورت حال میں اپنے لیے مواقعے دیکھ رہے ہیں۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال ٹیکنالوجی سے متعلق بعض ادارے ہیں۔ عالمی ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق تادمِ تحریر کرونا وائرس150سے زاید ممالک میں پھیل چکا جس کی وجہ سے چھ ہزار سے زاید اموات ہوچکی ہیں اورایک لاکھ 56ہزار سے زاید نئے کیسز سامنے آچکے۔کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف ممالک نے شہروں کو لاک ڈاؤن کردیا ہے اور شہریوں کو تین ہفتوں تک گھر میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف شہروں میں بسنے والےافراداپنی بوریت دور کرنے کے لیے دوستوں اور دیگر رشتے داروں سے رابطے رکھے ہوئے ہیں جس کے لیے وہ آن لائن پلیٹ فارمز کا سہارا لے رہے ہیں۔

کرونا وائرس سے چین کے بعد سب سے زیادہ اٹلی متاثر نظر آتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کا مرکز بھی اب یورپ کو قرار دے دیاہے۔یورپی ممالک کی حکومتوں نے وائرس کی روک تھام کے لیے شہروں کو لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ان حالات میں یورپ میں واٹس ایپ کال اورمیسج میں بیس فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔اسی طرح وہاں اسکائپ کے استعمال میںسو فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔علاوہ ازیںمختلف ممالک میں تعلیمی ادارے بند ہونے کے بعد آن لائن کلاسز کا آغازکردیا گیا ہے، دفتری کاموں کے لیے ملازمین وڈیو کال کا سہارا لے رہے ہیں اور اسی کے ذریعے میٹنگز کررہے ہیں۔

وڈیو کانفرنسنگ کا سافٹ ویئر بنانے والی ایک کمپنی کو کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں بڑا فائدہ ہوا ہے، کیوں کہ اُس کے صارفین کی تعداد چندہی روز میں دگنی ہوگئی ہے اور سافٹ ویئر کے استعمال میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیاہے۔علاوہ ازیں گوگل اور مائیکروسافٹ صارفین کو وڈیو کانفرنسنگ اور لائیو ڈاکیومنٹ کولیبریشن کی خدمات تک مفت رسائی فراہم کررہی ہیں۔ میسجنگ، تعلیم اور دیگر کاموں میں مدد فراہم کرنے والی موبائل ایپلی کیشنز کا استعمال بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے۔گھروں میں محصور شہری تفریحی مواد حاصل کرنے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمزکا رخ کررہے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق حالیہ دنوں میںیوٹیوب، نیٹ فلکس، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ وغیرہ کے صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد اشتہارات دینے والے اداروں نے مذکورہ کمپنیز کو دگنے پیسوں میں اشتہارات دینا شروع کردیے ہیں۔

یہ تو صرف ایک شعبے کا احوال ہے۔ایسے کئی دیگر شعبے بھی ہیںجن میں صحت عامہ سے متعلق آلات ، ادویہ ،طبّی اور حفاظتی سامان تیار کرنے والے ادارے سرِ فہرست ہیں۔اسی طرح ماہرین بعض ممالک کی معیشتوں کےلیے بھی اس بحران میںمواقعےدیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب تک سامنے آنے والی صورت حال میںپاکستان بھی ممکنہ طورپر ان ممالک میں شامل ہے جسے اس بحران سے فایدہ پہنچ سکتا ہے۔لیکن دوسری جانب بعض ماہرینِ اقتصادیات محتاط نظر آتے ہیں۔ان کے بہ قول اس صورت حال کی طوالت پاکستانی معیشت کے لیے خطر ہ بھی بن سکتی ہے۔

بعض عالمی اقتصادی ماہرین اورمالیاتی اداروں کے خیال میں پاکستان کی معیشت بھی اس وبا سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی ایک حالیہ رپورٹ نے پاکستان کواس وبا سےکم متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔تاہم رپورٹ کے مطابق بدترین صورت حال میں پاکستان کی معیشت کو کرونا وائرس کی وبا سے پانچ ارب ڈالرز تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جن شعبوں کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ان میں زراعت، کان کنی، ہوٹلز اور ریستوران، تجارت، ذاتی اور عوامی خدمات کے شعبے، کاروباراور تجارت، ہلکی اور بھاری مینوفیکچرنگ اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں۔اے ڈی بی کے علاوہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک ٹیم نے بھی پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران کرونا وائرس سے پاکستان کی معیشت کے متاثر ہونے سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس وبا نے دنیا بھر میں خوف و ہراس کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ اس مہلک وبا کے باعث کئی ملکوں کی معیشتوں پر بھی برے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔اقتصادی ماہرین کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشتوں پر بدترین اثرات کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سابق سربراہ کرسٹینا لیگارڈ کے مطابق بیماریاں سرحدوں اور پاسپورٹس کو نہیں جانتی ہیں اور نہ ہی ان کا لحاظ کرتی ہیں۔انہوں نے ممالک کو ایسے اقدامات اٹھانے کا مشورہ دیاہے جن کی مددسے گھریلو ماحول، ان میں رہنے والے لوگوں اور کاروباری اداروں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

کرونا وائرس نے دنیا بھر میں سب سے پہلے سیاحت سے منسلک شعبوں کو متاثر کیا ۔مختلف ممالک نے اپنی سرحدوں پر آمدورفت کی پابندیاں عاید کر دی ہیں۔ کئی دیگر ممالک بھی ایسی پابندیا ں عاید کرنےپر غور کررہے ہیں۔شہری ہوا بازی کے کئی اداروں کے آپریشنز مختلف حکومتوں کے فیصلوں کی وجہ سے محدودہوگئے ہیں ۔ پاکستان میں بھی اکثر ٹریول ایجنٹس کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نقصان اٹھا رہے ہیں اور سخت پریشان ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ مختلف عالمی مالیاتی اداروں نے مالی اعانت کے پیکجز کا اعلان کر دیا ہے۔ ان اداروں میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بنک (اے ڈی بی) سرفہرست ہیں۔

پاکستان کے لیے ممکنہ خطرات؟

پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں اور مشکوک افراد کی تعداددیگر ممالک کے مقابلے میں ابھی بہت زیادہ نہیںہے اور تادمِ تحریر ملک میں اس مہلک وائرس کی وجہ سے صرف ایک شخص کی موت واقع ہونے کی اطلاع ہے۔تاہم مختلف ممالک ،بالخصوص پڑوسی ممالک میںاس وباسے ہونے والے نقصانات کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر ناصر اقبال کے مطابق یہ وبا پاکستان کی دوسرے ملکوں سے ہونے والی تجارت کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔پاکستان کی بیرونی تجارت کا بڑا حصہ ایران، افغانستان اور یورپی ممالک سے تعلق رکھتا ہے۔ان ملکوں نے تجارت پر پابندیاں لگا دی ہیں جس سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے جو مستقبل میں زیادہ ہو سکتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحت سے منسلک شعبے بھی زیادہ متاثر ہوئے ہیں،ایسا ہی پاکستان میں بھی ہو رہا ہے اور مزید ہو گا۔ان کے بہ قول دنیا بھر کے حصص بازاروں میں مندی دیکھنے میں آرہی ہے اور یہ ہی صورت حال پاکستان میں بھی ہے۔اسٹاک ایکسچینجز میں مندی کا رجحان ملک میں کاروبار میں مندی کو ظاہر کرتا ہے۔ان کے خیال میں کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے طول پکڑنے کی صورت میں حالات بگڑ سکتے ہیں۔

ٹریول ایجنٹس ایسویسی ایشن آف پاکستان (ٹیپ) کے ترجمان محمد حنیف کے مطابق دنیا بھر میں ایئر لائنز اپنے آپریشنز میں کمی لا رہی ہیں جس سے پاکستان میں ٹریول ایجنسیز کے کاروبار پر بہت برے اثرات پڑ رہے ہیں۔

ملک کے ممتاز ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق احمد خان کے خیال میں اس صورت حال کی طوالت پاکستان کے لیے کافی خطرناک ہو سکتی ہے۔اگر تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اقتصادی حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو وہ ترقیاتی منصوبے کم کر دیں گے جس کے نتیجے میں بڑے بڑے ادارے بند ہوں گے اور ان کے ملازمین کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ایسی صورت میں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بے روزگار ہوجائیں گے اور باہر سے آنے والے زرمبادلہ میں کمی واقع ہو گی جو پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔

ادہر کرونا وائر کے منفی اثرات کے نتیجے میں دنیا کے بیش تر ممالک ،بالخصوص یورپی یونین کےرکن ممالک نے پاکستان سے کہا ہے کہ تمام اقسام کی اشیاکی کنسائنمنٹ کی شپمنٹ روک دیں،اور وہ کنسائنمنٹس جن کی شپمنٹ کی جاچکی ہے ان کی وصولی چھ ماہ بعد کریں گے۔ پاکستانی برآمد کنندگان کو موصولہ ایک ای میل میں یہ بات کہی گئی ہے۔اس صورت حال میں برآمد کنندگان پر رواں ماہ پچیس فی صد منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اگلے ماہ معیشت کے پچاس فی صد تک متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستانی برآمد کنندگان کے کیش فلو میں بھی نمایاں کمی ہوگی۔کرونا وائرس کی وجہ سے یہ صورتحال مزید آگے جا سکتی ہے۔یہ بات نمایاں پاکستانی برآمد کنندگان نے ٹیکسٹائل اور کا مرس منسٹری کوبھی بتا دی ہے۔ایک سینئر سرکاری افسر کے مطابق کنسائنمنٹ روکے جانے اور پہلے سے بھیجے گئے آرڈرز کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے کیش فلو بری طرح متاثر ہوگا۔ دوسری جانب آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، ایپٹما نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان کو اس طرح کی ای میلز آئی ہیں،یورپی یونین کےرکن ممالک نے شپمنٹ روکنے کا کہا ہے اور پہلے سے بھیجے گئے کنسائنمنٹس کی ادائیگی میں تاخیر کا کہا ہےجس کا رواں ماہ پچیس فی صد منفی اثر ہوگا،لیکن اگلے ماہ اس کے اثرات پچاس فی صدتک ہوں گے۔دوسری جانب اس وقت ملک میں ایکسپورٹ آرڈرز کی پروڈکشن عروج پرہے، لیکن کرونا وائرس کی صورت میں ا سے بند کرنا ہوگا۔وزارت تجارت کے ایک سینئر افسر کے بہ قول چین سے تجارت گزشتہ سال دسمبر سے پہلے ہی بند ہے، بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے ان کی وزارت چین سے تجارت معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔

چین میں اقتصادی سست روی کے پاکستان پر اثرات

اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (یو این سی ٹی اے ڈی) نے پاکستان کو ان بیس ممالک میں شامل کیا ہے جو چین میں کرونا وائرس کی وجہ سےاقتصادی سست روی سے متاثر ہوئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں متاثرہ ویلیو چین مصنوعات میں ٹیکسٹائل اور ملبوسات شامل ہیں جس میں چین کے لیے برآمدات میںدو فی صد (4 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز)کی کمی آئی ہے۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ ممالک اور خطے یہ ہیں: یورپی یونین کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا، تائیوان، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، ویتنام، میکسیکو، سوئٹزرلینڈ، ملائیشیا اور تھائی لینڈ۔

یو این سی ٹی اے ڈی کے تخمینوں کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے چین میں مینوفیکچرنگ کی سست روی عالمی تجارت میں خلل ڈال رہی ہے اور اس کا نتیجہ عالمی ویلیو چینز سے متعلق برآمدات میں 50 ارب ڈالرز کی کمی ہوسکتی ہے۔فروری میں ملک کا مینوفیکچرنگ پرچیزنگ مینیجر انڈیکس (پی ایم آئی) جو ایک اہم پروڈکشن انڈیکس ہے، تقریبا 22 پوائنٹس کی کمی سے 37.5 پر آگیا، جو 2004 کے بعد سب سے کم سطح ہے۔پیداوار میں اس طرح کی کمی سے سالانہ بنیاد پر برآمدات میںدو فی صد کمی ظاہر ہوتی ہے۔چوں کہ چین متعدد عالمی کاروباری سرگرمیوں کا مرکزی مینوفیکچرر بن چکا ہے اس لیے چینی پیداوار میں کمی کسی بھی ملک کے لیے اس لیے اہم ہےکہ اس کی صنعتوں کا چینی سپلائرز پر کتنا انحصار ہے۔یو این سی ٹی اے ڈی کے تخمینے کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں میں صحت سے متعلق آلات، مشینری، آٹوموٹِیواور مواصلات کا سامان شامل ہے۔سب سے زیادہ متاثرہ معیشتوں میں یورپی یونین (15 ارب 60 ڈالرز)، امریکا (5 ارب 80 کروڑ ڈالرز)، جاپان (5 ارب 20 کروڑ ڈالرز)، جنوبی کوریا (3 ارب 80 کروڑ ڈالرز)، تائیوان (2 ارب 60 کروڑ ڈالرز) اور ویتنام (2 ارب 30 کروڑ ڈالرز) شامل ہیں۔

یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق جہاں کرونا وائرس سے چین کی پیداواری صلاحیت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں اب تک غیر یقینی صورت حال موجود ہے وہیں حالیہ اعداد و شمار ایک اہم مندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔عالمی سطح پر ویلیو چینز پرکرونا وائرس کا پورا اثر آنے والے مہینوں میں واضح ہوجائے گا۔ تاہم اہم سوال یہ ہے کہ چین کی سپلائی میں رکاوٹ کا اثر باقی دنیا پر کیا ہوگا۔ چین کے سپلائرز دنیا بھر کی بہت سی کمپنیز کے لیے اہم ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں کسی بھی رکاوٹ کو چین کی حدود سے باہر بھی محسوس کیا جائے گا۔تجزیہ کاروں کی پیش گوئی کے مطابق، یورپی، امریکی اور مشرقی ایشیائی خطے کی ویلیو چین اس سے متاثر ہوگی۔

مواقعے بھی ہیں

ڈاکٹر اشفاق حسن خان تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وبا کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس سے پاکستان کو فی الحال فائدہ ہو سکتا ہے۔موجودہ حالات میں اکثر ملکوں کی معیشتیں کم زور ہوئی ہیں ، ان میں تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں کم ہو گئی ہیںاور مزید کمی بھی خارج از امکان نہیں ہے۔یہ پاکستان کے لیے فائدے کی بات ہے اور اس سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔سستا تیل خریدنے سے پاکستان کا درآمدی بل کم ہو گا اور یوں ادائیگیوں کا توازن (بیلنس آف پیمنٹس) بہتر ہو جائے گا اوربیرونی اکاؤنٹس کے خسارے میں کمی واقع ہو گی۔ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق اگر حکومت پاکستان تیل کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک منتقل کر دے تو اس سے ملک میں افراط زر میں کمی لائی جا سکتی ہے۔اورا سٹیٹ بنک آف پاکستان سود کی شرح میں بھی کم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔اس سے کاروبار بڑھے گا۔تاہم اس وبا سے پیدا ہونے والے حالات نے طول پکڑا تو اس سے ہماری معیشت پر برے اثرات پڑیں گے۔

سابق سیکرٹری خزانہ اور پیٹرولیم، ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچے تو اس سے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو گا کیوں کہ صرف تیل ہی نہیں دیگر اشیاکے نرخوں میں بھی کمی آئے گی۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں حالیہ کمی عمران خان کی حکومت کے لیے رحمت ہے اور اس سے معیشت میں بہتری واقع ہوگی۔کچھ عرصے سے حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کر رہی تھی، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا کیوں کہ حکومت قیمت کم کرنے کے ساتھ پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کر رہی تھی۔نرخوں میں حالیہ کمی کے بعد حکومت کو چاہیے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائے، جس سے معیشت کو فائدہ ہوگا۔ان کے بہ قول کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث عالمی معیشت سست روی کا شکارہے، جس کا اثر پیٹرولیم کے شعبےپر بھی ہوا۔تیل کے نرخوں میں کمی پاکستان کے لیے نہایت فائدہ مند ہے کیوں کہ پاکستان کا زیادہ تر خرچ تیل پر ہی آتا تھا۔ اس صورت حال کی وجہ سے ملک میںمنہگائی کم کرنے میں مدد ملے گی۔علاوہ ازیں موجودہ حالات میں ملک میں شرح سود میں چار فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔2014میں بھی ایسا ہی بھونچال آیا تھا جس سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوا تھا اور آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے میں مدد ملی تھی۔تاہم موجودہ بھونچال اس سے بڑا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائے۔اس سے بجلی اور گیس کے نرخوں پر بھی اثر پڑے گا کیوں کہ اب بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ڈاکٹر وقار کے مطابق اس سے پاکستان کا امپورٹ بل آدھا ہو سکتا ہے اور اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالرز کے ذخائر بھی بڑھ جائیں گے۔

وزیرِ اعظم بھی آگاہ ہیں

اس وبا کے ملک کی معیشت پر ممکنہ منفی اثرات کے بارے میںگزشتہ روز وزیر اعظم نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے منفی اثرات سے معیشت کو محفوظ رکھنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے کرونا وائرس کے تناظر میں ملکی معیشت پر روزانہ کی بنیاد پر نظر رکھنے اور پیشگی اقدامات تجویز کرنے کے لیے مشیر خزانہ کی سربراہی میں بین الوزارتی کمیٹی قائم کردی ہے۔پیر کواپنی زیرصدارت کرونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت پر پڑنے والے ممکنہ اثرات سے بچاؤ کے ضمن میںپیشگی حفاظتی اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کروناوائرس کے منفی اثرات سے ملکی معیشت کو ممکنہ حد تک محفوظ رکھنا،اقتصادی سرگرمیوں کی بلا تعطل روانی کو یقینی بنانا اور خصوصاً عام آدمی کےلیے روزگارکا تحفظ یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔ کسی بھی ممکنہ صورت حال کے پیش نظر عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کےضمن میں جامع حکمت عملی تیار کی جائے اور اشیائے ضروریہ کی وافر دست یابی کو یقینی بنایا جائے۔ذخیرہ اندوزی اور ناجائزمنافع خوری کی شکایت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی اور شکایت کی صورت میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔اجلاس کے دوران کرونا وائرس کے تناظر میں ملکی معیشت پر روزانہ کی بنیاد پر نظر رکھنے اور پیشگی اقدامات تجویز کرنے کے لئے مشیر خزانہ کی سربراہی میں بین الوزارتی کمیٹی قائم کی گئی۔ وزیرِ اعظم نےوزیر اقتصادی امور حماد اظہر کو ہدایت کی ہے کہ عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں سے رابطہ کیا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اچھی خبریں

ملک کی معیشت کے حوالے سے موجودہ حالات میں اچھی خبر یہ ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی روک تھام کےلیے ہونے والے اضافی اخراجات بجٹ کےخسارے میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اضافی اخراجات کومالی خسارے میں شامل نہ کرنے پر رضامندہوگیا ہے۔گزشتہ روز صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے آئی ایم ایف سے اہم رعایت حاصل کرنے میں کام یابی ملی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انہیں کرونا وائرس کے اقتصادی اثرات سے نمٹنے کی حکمت عملیتیار کرنے کی ذمے داری سونپی ہے۔ ہم ایسی حکمت عملی وضح کریں گے کہاقتصادی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔اس کے ساتھ ہماری یہ بھی بھرپور کوشش ہو گی کہ اشیائےخورونوش کی قلت یا قیمتوں میں اضافہ نہ ہو، وباسے بے روزگاری کے خطرات پیدا نہ ہوں اور کسانوں اور کاشت کاروں کو ان کی پیداوار کا پورا معاوضہ ملتا رہے۔

دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ عالمی بینک نے دنیا بھر میںکرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بارہ ارب ڈالرز مختص کر دیےہیں اور پاکستانی حکام اس وائر س سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت لینے کےلیے تیاریا ں کرر ہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت عالمی بینک سے مالی امداد لینے کے لیے کوششیں کررہی ہے ، کیوںکہ اس وقت ایک جانب کرونا وائرس اور دوسری جانب مالی مشکلات کےپیش نظر مالی امداد ضروری ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق عالمی بینک ترقی پذیر ممالک کو مالی معاونت دے گا جس سے نجی شعبے سے بھی مدد لی جاسکے گی ۔ اس سلسلے میں ،IDA,IBRD اور IFCمختلف پیکیج دیتا ہے جس میںتیکنیکی معاونت بھی شامل ہے۔کرونا وائرس پیکیج میں ابتدائی بحران کے لیے وسائل کی فراہمی کی غرض سےبارہ ارب کی فنانسنگ رکھی گئی ہے، جس میں نیا پیکیج آٹھ ارب ڈالرز کاہے۔ فاسٹ ٹریک پر2.7ارب روپے کی فنانسنگ ہوگی ،آئی بی آر ڈی کی ایک اعشاریہ تین ارب ڈالرزکی فنانسنگ ہوگی،آئی ڈی اے اس کے علاوہ دو ارب ڈالرز اورچھ ارب ڈالرزکی فنانسنگ کرے گا جس میں ٹریڈ فیسیلٹی شامل ہے۔

عالمی برادری سے پاکستان کے قرضے معاف کرنے کی بر وقت اپیل

گزشہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک امریکی خبرایجنسی کوانٹرویو دیتے ہوئے بروقت عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے پرغور کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ میری سب سے بڑی پریشانی غربت اور بھوک ہے۔عالمی برادی سے مطالبہ ہے کہ پاکستان سمیت غریب ممالک کےقرضے معاف کیے جائیں۔عالمی برادری کو پاکستان جیسے کم زور ممالک کےقرضے معاف کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔پاکستان میں یہ وائرس زیادہ پھیلا تو اس سے نمٹنے کی صلاحیت اور وسائل نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ غریب ممالک کے قرضے معاف ہونے سے اس وائرس سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔اگر یہ وائرس پھیلا تو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، جنوبی ایشیا، افریقی ممالک، سب کو مشکلات کا سامناکرنا پڑے گا۔انہوں نے انٹرویو کے دوران عالمی برادری سے ایران سے پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران پرعاید پابندیاں اٹھانے سے ایران کوکرونا وائرس سے نمٹنےمیں مدد ملےگی ۔اب وقت آ گیا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ایران میں دنیا کا بدترین کوروناوائرس پھیلا ہوا ہے۔