لوٹ آؤں جاناں !!

March 29, 2020

لِفٹ سے نکلنے کے بعد اُس کے فلیٹ کی طرف چڑھنے والے چند زینے ساحر کو،کوہِ ہمالیہ لگ رہے تھے۔ اُس نے اپنا ہینڈ کیری سیڑھیوں کے پاس کوریڈور کے ایک کونے میں رکھ کر آفس بیگ بھی اُسی پر ٹکا دیا۔ ذہن میں خیالوں کا ایک سیلاب اُمڈ رہا تھااور وہ چارو ناچار اپنے ہی خیالوں سے دست وگریبان تھا۔بے چینی دُور کرنے کے لیے اُس نے ٹہلنا شروع کر دیا ۔وہ اِدھر سے اُدھر کوریڈور میں نہ جانےکتنے ہی چکّر لگا چُکا تھا۔ اوپر سے نیچے آتے ایک ایک شخص کو دیکھنے کے بعد با لآخر اُس نے بھی سیڑھیاں چڑھنے کا فیصلہ کیا۔

اوپر جا کر بیل بجانے کے بجائے اُس نے دروازے پر دستک دینا مناسب سمجھا، جیسے دستک دینے کی رسم ادا کر رہا ہو، مگر باہر کوئی نہیں نکلا۔ وہ پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا، مگرجیسے ہی اُس نے پانچویں سیڑھی پر قدم رکھا ،سماعتوں سے ایک تیز آواز ٹکرائی’’ساحر…‘‘وہ بجلی کی سی رفتار سے اُس کی طرف لپکی اور سیڑھیوں کی گرِل کے پاس آکر رُک گئی۔ اب اُن کے درمیان صرف ایک سِلور گرِل تھی۔ ساحر سیڑھیوں پر کھڑا تھا اور وہ گرِل کو تھامے سیڑھیوں سے اوپر۔ اُس کی بھوری آنکھوں میں شوقِ دید، جب کہ ساحر کی نظروں میں ہجر کا درد تھا۔ وہ چشمِ حیراں سے ٹکٹکی باندھے ساحر کو تکتی جا رہی تھی۔ کبھی وہ چنچل جھیل کی طرح اورساحر بے تاب چشمے کے پانی سا ہوا کرتا تھا، جو ہر حال میں اُس جھیل میں شامل ہونا چاہتا تھا۔پر دونوں کا ’’آج‘‘ یَک سر مختلف تھا۔

’’تم یہاں…؟؟‘‘اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ساحر خاموش رہا۔ کتنی ہی دیر دونوں ایک دوسرے کو فرطِ محبّت سے دیکھتے رہے۔ جب اس کے آنسو کسی پھوار کی طرح آنکھوں سے چھلکے،تو اُس نے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ایک بار پھراُس کا نام لیا،’’ساحر…‘‘۔’’ساحر ہوتا تو اپنی محبّت کے قفس میں تمہیں قید نہ کر لیتا۔ پر مَیں تو … ’’ساحر منظور‘‘ ہوں، مستری منظور کا بیٹا‘‘ ساحر نے کرب سے کہا۔ اُس کی خوب صُورت سبزآنکھیں ندامت سےجُھک گئیں۔ اُس نے جلدی سے چند قدم آگے بڑھا کراپنی بات کا رخ موڑا۔’’میرا مطلب تھا، تم یہاں کیسے…؟‘‘ جتنے قدم وہ ساحر کی طرف بڑھی تھی، اس سے دُگنے قدم وہ پیچھے کی طرف ہٹ گیا، اب وہ ساتویں سیڑھی پر تھا۔ ’’دبئی والے بھی تم جیسے ہی ہیں۔ تم پیسے کے پیچھے دبئی آئی تھی، اُن کے آگے پیسارکھو تو یہ کسی کو بھی یہاں آنے دیتے ہیں۔‘‘ ساحر نے بغیر کسی تردّد کے تیکھے لہجے میں جواب دیا، تو اُس کی پشیمانی عرق آلود ہوگئی۔ مگرایک بار پھرپُر خلوص لہجے میں بولی’’آئو ،اندر چلو۔‘‘’’نہیں، اس وقت تمہارا بیٹا اسکول اور شوہر جیل میںہے،لہٰذامَیںاندر نہیں آسکتا۔‘‘ساحر کی بات سُن کر وہ ششدر رہ گئی ۔ کئی اندیشے لاحق ہوگئے، پھر بھی اُس نے ہونٹوں پر تبسّم سجا کر کہا ’’سات سال بعد دیکھا ہے تمہیں…‘‘’’دس دن کم بتائے ہیں تم نے۔‘‘ ساحر نے اُسے ہجر کے دِنوں کا درست حساب بتایا، تو اُس نے سرجھکا لیا وہ نادِم سی کھڑی تھی۔ ’’اب مَیں بہت بڑا بزنس مین بن گیاہوں۔‘‘ ساحر نے بڑے تفاخر سے اطلاع دی، تو اُس نے گردن اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ساحر اور اُس کی نظریں ٹکرائیں۔ ’’صرف تمہیںدیکھنے کے لیے کینیڈا سے دبئی آیا تھا۔ پر اب تم، وہ نہیں رہیں… پچھلے دس دِنوں میں بہت کچھ دیکھ چکا ہوں۔‘‘’’کیا…؟‘‘وہ کچھ بوکھلا سی گئی۔’’کیا دیکھا تم نے …؟‘‘ بے اختیار چلّا اُٹھی ۔ ساحر نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا’’تمہارے گھر آتے جاتے لوگوں کو دیکھا… ہوٹل میں تمہارے فلیٹ کے سامنے والا کمرا میرا تھا۔‘‘’’تھا مطلب…؟‘‘ ساحر نے مُڑ کر اپنے ہینڈ کیری کی طرف دیکھا ،تو اُس کی بھی نظر سامان پر پڑی۔ ’’رُک جائو۔‘‘’’کس کے لیے…؟‘‘ ساحر کی بات کا جواب دینے کی بجائے اُس نے جھٹ بات بدلی’’کتنے بچّے ہیں تمہارے…؟‘‘’’شادی نہیں کی مَیں نے…‘‘ ساحر نے بھرّائی ہوئی آواز میں بتایا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے پوچھ لیا ’’کیوں…؟‘‘’’جس سے کرنا چاہتا تھا، اُس نے پیسوں کے لیےبنا کچھ جانے پرکھےکسی اور سے شادی کرلی ۔آج کل اُس کا شوہر قتل کے جرم میں جیل کاٹ رہا ہے اور وہ…اور وہ بد کار ہو چُکی ہے، تاکہ شوہر کو چھڑوانے کے لیے پیسوں کا انتظام کر سکے۔ ‘‘

اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ وہ پہلی سیڑھی پر پائوں رکھ کے اُدھر ہی بیٹھ گئی۔ اُس کا پورا وجود کپکپا رہا تھا۔ اُس نے اپنا سر اپنے گھٹنوں میں لے لیا۔ ساحر اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھنا چاہتا تھا، مگر اس کی تربیت نے گوارہ نہ کیا۔ چند منٹ بعد اُس نے گردن اُٹھا کر گیلی آنکھوں سے ساحر کو دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ،وہی نرم لہجے میں بول پڑا’’محبّت سے محبّت کرو، تو دولت مل ہی جاتی ہے، مگر دولت سے محبّت کرنے سے محبّت ہر گز نہیں ملتی‘‘وہ خاموش رہی۔ ساحر نے اپنی بلیک لیدر جیکٹ سے ایک پاؤچ نکال کر اُس کی طرف بڑھایا۔ ’’اس میں میرا وِزیٹنگ کارڈ اور کچھ ڈالرز ہیں۔پلیز… مجھے اور شرمندہ مت کرو…اور یہ رکھ لو‘‘ ساحر نے اتنی اپنائیت سے درخواست کی تھی کہ وہ انکارنہ کر سکی۔ ساحر وہاں سے جانے کے لیے پلٹا، مگر جا نہ سکا، وہیں کھڑا رہا۔ وہ اُس سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ’’تمہاراشوہر صرف ایک قتل کے الزام میں جیل نہیں کاٹ رہا، بلکہ وہ عادی مجرم ہے۔ اور یہ سب تم مجھ سے بہتر جانتی ہو، کیوںکہ اُسی نے تمہیں گھر کی عزّت بنانے کے بجائے اس گھناؤنے کام پر مجبور کیا۔ اس کے جیل جانے کو خدا کی طرف سے دوسرا موقع جانو۔ اس گناہ گار کو بچانے کے لیے تم کیوں گناہ کررہی ہو؟ ان پیسوں سے کوئی بزنس شروع کرو اور چھوڑ دو یہ کام۔اور…‘‘ ’’اور… کیا ساحر…؟‘‘ ’’اور ہو سکے تو،لوٹ آئو جاناں…‘‘ اُس کے منہ سے اپنا نام سُن کر وہ لرز ہی تو گئی۔ مصمّم ارادے کے ساتھ گردن ہلاتے ہوئے دائیں ہاتھ میں تھامے پاؤچ کو بائیں ہاتھ منتقل کیا اور دایاں ہاتھ ساحر کی طرف بڑھا دیا۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے قلم کاربرائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

کھوٹا نصیب، عشرت جہاں، لاہور٭محافظ، اقصیٰ عثمان حمید، کراچی٭محبّت، قیامِ پاکستان اور قائد اعظم،شری مُرلی چندگوپی چندگھوکلیہ ، شکار پور، سندھ٭وعدہ، شاہدہ ناصر، کراچی٭ مٹی کا ڈھیر، عُروہ شہزاد، ٹوبہ ٹیک سنگھ٭حلیمہ انبالے والی، رضیہ بیلا سیّد،را ول پنڈی ٭ وہی بہتر جانتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے،روبینہ شاہد، گلبرگ ٹاؤن ٭ابتدا، عتیقہ فیض، مقام نہیں لکھا ٭شاہد احمد دہلوی، ایک عہد ساز شخصیت، شعیب محمّد بدایونی،کراچی ٭خلیل جبران، حکم راں ایسے ہوتے ہیں،چچا چھکّن، گلشنِ اقبال، کراچی ٭بینک کہانی، عرفان الحق، کراچی ٭اے کاش، افشاں مشیر، اسٹیل ٹاؤن، کراچی٭خاندان پر حملہ، شاہدہ پرویز، نارتھ کراچی ٭جادو کا ایک عجیب و غریب واقعہ، عبد العلیم ، رحیم یار خان ٭جذبات، ثمینہ ظہیر، گوجرانوالہ٭آفتابِ صحافت، آغا شورش کاشمیری، صلاح الدّین ندیمؔ٭ بریکنگ نیوز،قراۃ العین فاروق، حیدرآباد۔

نا قابلِ اشاعت کلام اور اُن کے قلم کار

فال آف کشمیر،جدید غزل، میاں عبد الحمید خالد، اسلام آباد٭نعتِ رسولﷺ، وادیٔ فرات ،ذکی طارق، بارہ بنکی، بھارت٭دُکھ کا سودا گر، اِرج شارق ، کراچی٭مختلف اشعار،غزل، اقصیٰ ، مقام نہیں لکھا٭کشمیر ہوں مَیں، مرزا اعتزاز شوکت، راول پنڈی٭وہ جاتے ہوئے اِک تحفہ انمول دے گیا، نام و مقام نہیں لکھا ٭اللہ تعالیٰ انسان سے کیا فرماتا ہے،حمدِ باری تعالیٰ، سلطان لطیف، کراچی ٭قائد اعظم کا پیغام، غالب عرفان، کراچی٭دَورِ خوش آئند، جاوید اقبال شاہین٭پی گیا، حیدر علی خان، پیپلی، ویہاڑی ٭کعبتُہ اللہ ، نعتِ رسول ﷺ ،صابر ؔچھتاروی٭قافلہ حضرت امام حُسین کا تیار ہے، نام نہیں لکھا، اورنگی ٹاؤن، کراچی٭کشمیر کا یہ حال ہے، زاہد اظہار، کراچی ٭ اُمید ِ سالِ نو، ہمارے شعرا کی تنہائی ،چاچا چھکّن، گلشنِ اقبال، کراچی ٭خوش آمدید، پروفیسرمجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی ۔