’’معذوروں کی بستی‘‘ کے سِسکتے، بلکتے مکین....

March 29, 2020

’’معذوروں کی بستی‘‘ چند مکین

تَن درستی ایک عظیم نعمت ہے ، پر افسوس کہ اس کی حقیقی قدر وہی لوگ کرتے ہیں، جو اس نعمت سے محروم ہیں۔مغربی یا ترقّی یافتہ ممالک میں معذور افراد کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں معذوروں پر صرف ترس کھا کر انہیں سِسکتا، بلکتا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتاہےیامعاشرے پر بوجھ اور ناکارہ گردانا جاتا ہے، حالاں کہ اگر معذور افرادکو بھی صحیح تعلیم و تربیت فراہم کی جائے، تو وہ بھی مُلک و قوم کی ترقّی میں خصوصی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ویسے تو ہمارے اردگردکئی معذور افراد نظر آتےہیں،لیکن آزادکشمیر کے ضلع، کوٹلی میں معروف سیاحتی و تجارتی مرکز’’تتّہ پانی‘‘ کے نواح میں سیز فائر لائن سے ملحقہ گائوں، بھابڑہ ڈینگی کا ایک علاقہ’’معذوروں کی بستی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ 12خاندانوں پر مشتمل اس بستی کے مکینوں کوایک بڑی آزمائش کاسامنا ہےکہ یہاں پیدا ہونے والا ہر بچّہ آٹھ، دس سال کی عُمر کو پہنچتے ہی ایک پُر اسرار بیماری میں مبتلا ہو کر معذور ہوجاتا ہے۔

اب تک اس موذی مرض کا شکار ہونے والوں کی تعدا دقریباً 30ہوچکی ہے۔ متاثرین میں نوجوان، مردوخواتین سمیت بچّے بھی شامل ہیں۔ اس مر ض میں مبتلا انسان کے لیے چلنا پِھرنا تو کجا، بنا سہارے اُٹھنا بھی ممکن نہیں ، یہاں تک کہ وہ درست طریقے سے بول بھی نہیں پاتا۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ متاثرہ افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کی زندگی جس کرب سے گزر رہی ہے، ہم اُس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے ہاں بالکل صحت مند بچّوں کی ولادت ہوتی ہے، لیکن جب وہ آٹھ،دس برس کی عُمر کو پہنچتے ہیں، تو اس موذی مرض کا شکار ہوکر معذور ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘ متاثرہ افراد میں کئی میٹرک پاس نوجوان بھی ہیں ، جو علاج معالجےکے باوجود ٹھیک نہیں ہوپارہے۔یاد رہے،اس خطرناک بیماری کی تاحال کوئی تشخیص ہوسکی ہے، نہ کسی بھی حکومتی یا انتظامی نمایندے نے علاقے کا دَورہ کیاہے۔

دوسری جانب ،متاثرہ علاقے میں بنیادی سہولتوں کا فقدان الگ ہے۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مریضوں کی دشواریوں میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس پُر اسرار بیماری میں مبتلا افراد کو تاحال ہیلتھ کارڈز تک جاری نہیں ہوئے۔ گوکہ چند فلاحی تنظیموں کی جانب سے مریضوں کی امداد کی جاتی ہے، لیکن وہ ناکافی ہےکہ جب تک حکومتِ وقت خود آگےبڑھ کر ان کا علاج نہیں کرواتی، بیماری کی تشخیص نہیں ہوتی، مریضوں کو سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں، تب تک معذوروں کی بستی کے مکین خوش حالی کی جانب قدم نہیں بڑھا سکیں گے۔ قابلِ افسوس امر تویہ ہے کہ فلاحی کاموں کے نام پر چند لوگ صرف دِکھاوے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیںاور طفل تسلّیاں دے کر چلے جاتے ہیں۔حالاں کہ ان لوگوں کو تسلّیوں کی نہیں، فوری علاج کی ضرورت ہے۔

آج کل پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میںہے، لیکن حکومتِ پاکستان ان وائرسز اور بیماریوں سے متعلق بھی تو کچھ سوچے، جو ہمارے مُلک میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہمارا مستقبل، ہماری نسلِ نو برباد کر رہی ہیں۔خدارا! اس بستی میں معالجین کی ٹیم بھیجی جائے،تاکہ مرض کی تشخیص ہو سکے۔ہمیں اس بیماری کی روک تھام کے لیےفوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ معاملہ وزیرِ اعظم آزادکشمیر ،راجہ فاروق حیدر خان اوردیگر حکاّم کی خصوصی توجّہ کاطالب ہے ۔ ضرورت مند وں کی مدد کرنے کو ہر دین و مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے، لیکن دینِ اسلام نے توخد مت ِ انسا نیت کو عظیم عبا دت قرار دیا ہے۔ خدارا! اس المیے کا نوٹس لیں اور کارِخیر میں اپنا حصّہ ڈالیں ، بالخصوص ان معذوروں کی آواز بنیں،تاکہ یہ افراد بھی صحت مند معاشرے، پاکستان کا حصّہ بن کر خوش حال زندگیاں گزارسکیں ۔