ڈاکٹر جمیل جالبی .... اردو کی عہد آفریں شخصیت

March 29, 2020

زین صدّیقی

معروف ادیب، ماہرتعلیم اور محقق، ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار اردو ادب کی مایہ ناز ہستیوں میں ہوتا ہے، ایسی ہستیوں میں، جن کی وجہ سے علم و ادب کی آبرو سلامت ہے، ڈاکٹر جالبی ایک اعلیٰ پائے کے دانش وَر، صاحبِ علم و فضل، محقّق، متّرجم، نقّاد اور ماہرِ لسانیات و لغات تھے۔ انہوںنے زبان و ادب و تحقیق میںجو کارنامے سر انجام دیئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اُن کی تحریروں میںگہرائی اور گیرائی کے ساتھ تجسّس، خیال آفرینی، خوش بیانی، فہم و ادراک کی فراوانی، تازگی، نیاپن اور وقار و اعتبار بھی خوب ملتا ہے۔ ان ہی اوصاف کی وجہ سے اہلِ علم اُن کی نگارشات کو اردو ادب میںاحترام اور قدر و منزلت سے دیکھتے اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر جالبی ادب کو زندگی کی سب سے بامعنی سرگرمی سمجھتے تھے اور تخلیقی قوت کے استعمال اور آزاد تخلیقی سرگرمی کو انسان کا صحیح ترین منصب شمار کرتے۔ ان کا ایقان تھا کہ تخلیق ہی سے انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنا ادبی سفر، تخلیق نگاری سے نہیں بلکہ تنقید نگاری سے شروع کیا۔ تنقید نگاری سے ہی ان کا اوّلین تشخص قائم ہوا۔ اور صنفِ تنقید کے داخلی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انہوںنے مشرق و مغرب کے بے شمار مصنّفیں اور ادباء کا گہرا مطالعہ کیا، ان کے خیالات، افکار اور تصوّرات کو ذاتی تجربے کی کسوٹی پر پرکھا۔

ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ، ہندوستان کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمّد جمیل خان تھا۔ آبا ؤ اجداد اٹھارہویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ جالبی صاحب بچپن ہی سے ادب میں گہری دل چسپی لیتے تھے اور ادیب بننا چاہتے تھے اور اُن کی ان ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں والدہ محترمہ کا بڑا ہاتھ تھا، جو خود بھی ایک شاعرہ اور ایک کتاب کی مصنّفہ تھیں۔ گھریلو ادبی ماحول نے ان کے ادبی ذوق و شوق کو خوب جلا بخشی، لہٰذا بچپن ہی سے کہانیاں لکھنی شروع کردیں، اُن کی پہلی تخلیق ایک ڈراما سکندراور ڈاکو ہے، جو انہوںنے گیارہ برس کی عُمر میںلکھا۔ اسکول کے اساتذہ نے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا اور اسے اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔

یکم نومبر 1953ء کو نسیم شاہین کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ وہ اپنی اہلیہ کے سگھڑپن، ذہنی ہم آہنگی اور رویّوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ اہلیہ کے مطابق، ’’جالبی صاحب بہت مہمان نواز تھے، مہمانوں کے ساتھ خوش اسلوبی اور پیار و محبت سے پیش آتے۔ اُن کی خاطر داری میںکوئی کسر نہیںچھوڑتے، اچھے اچھے پکوان پکواتے اور بصد اصرار کِھلاتے۔ ذاتی طور پر وہ مشرقی کھانوں کے شوقین تھے۔ بھنڈی، ماش کی دال، تیتر کا گوشت، سوئیٹ ڈِش بہت شوق سے کھاتے۔ انہیںپان بھی بہت مرغوب تھا اور یہ اُن کی ایک ایسی کم زوری تھی، جس کے بغیر رہ نہیںسکتے تھے۔ گلاب کا پھول بے حد پسند تھا، کہیںلگا دیکھ لیتے، تو بے اختیار توڑ لیتے۔ ‘‘

1945ء میں جمیل جالبی نے میرٹھ سے ایف اے کیا اور 1947ء میں بی اے کے بعد ایم اے میںداخلہ لے لیا۔ اس دوران تقسیمِ ہند کے فسادات شروع ہوگئے، تو وہ اپنے چھوٹے بھائی عقیل کے ساتھ کراچی آگئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی، جب کہ ان کے خاندان کے باقی افراد سہارن پور ہی میںرہے۔ پاکستان ہجرت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی تقاریر سن کر پاکستان جانے کا جنون سوار ہوگیا اور اس وقت، جب قیامِ پاکستان کی جدّوجہد میں ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، تعلیم اُدھوری چھوڑ کر قائدِ اعظم کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ مَیںنے سوچ سمجھ کر طے کیا تھا کہ پاکستان ہی میرا خواب ہے، اور مجھے وہاں کی تعمیر و ترقّی کے لیے ہر حال میںجانا ہے، پاکستان آنا میری مجبوری نہیں، بلکہ میرا انتخاب تھا۔‘‘

ہجرت کے بعد انہوںنے اردو میں ایم اے، ایل ایل بی کرنے کے بعد سندھ یونی وَرسٹی سے پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعدازاں، سی ایس ایس کے امتحان میںشرکت کی اور کام یابی کے بعد انکم ٹیکس آفیسر مقرر ہوئے۔ جہاں سے ترقّی کرتے کرتے انکم ٹیکس کمشنر کے اعلیٰ عہدے تک جا پہنچے۔ تاہم، مدتِ ملازمت پوری ہونے سے دس سال قبل عہدے سے ریٹائرمنٹ لے کر ادبی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ 1983ء میں انہیںکراچی یونی وَرسٹی میںوائس چانسلر کے عہدے کی پیش کش کی گئی، جو ان کے مزاج کے عین مطابق تھی۔ لہٰذا یہ منصب قبول کرلیا اور 1983ء سے 1987ء تک اس عُہدے پر فائز رہے۔ وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوںنے کراچی یونی وَرسٹی کے ہر شعبے پر خصوصی توجّہ دی، حکومت سے خاطر خواہ فنڈز دلوائے، نئے منصوبے بنائے، لائبریری پر خصوصی توجّہ مرکوز کی۔ غرض یہ کہ یونی وَرسٹی کی تعمیرو ترقّی کے لیے ہر ممکن کوششں بروئے کار لائے۔ اسی لیے کراچی یونی وَرسٹی کی تاریخ میںان کا دَور ایک سنہری دَور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

کراچی یونی وَرسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے صدر نشین مقرر کیے گئے۔ اُن کے زیرِ نگرانی مختلف موضوعات پر کتابیں اور لغات شایع ہوئیں، خاص طور پر مقتدرہ قومی زبان کی ایک اہم اور کثیر الاشاعت ’’انگریزی، اردو لغت‘‘ انتہائی جاں فشانی سے مرتّب کی۔ علاوہ ازیں 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ، کراچی کے سربراہ بھی رہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1964ء،1973ء ،1974ء اور 1975ء میں داؤد ادبی انعام، 1987ء میں یونی وَرسٹی گولڈ میڈل، 1989ء میں محمّد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارۂ امتیاز اور 1994ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام، کمالِ فن ادب انعام سے نوازا گیا۔ غرض یہ کہ ڈاکٹر جمیل جالبی زندگی بھر حصولِ علم کی کوششوں میں سرگرداں اور تحقیق، تصنیف و تالیف میںمصروفِ عمل رہے۔ بلاشبہ، انہوںنے اپنی اَن تھک محنت، لگن اور کاوشوں سے دنیائے ادب میںجو مقام حاصل کیا، وہ قابلِ ستائش اور ان کی فکری بلندی کا آئینہ دار ہے۔