مَیں یا مَیں

March 29, 2020

جون ایلیا پر تحریریں اور ملاقاتیں

مؤلّف:خالد احمد انصاری

صفحات: 774

قیمت: 1500 روپے

ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور۔

؎’’کتنے ظالم ہیں،جو یہ کہتے ہیں…توڑ لو پھول، کوئی چھوڑو مت…باغباں! ہم تو اس خیال کے ہیں…دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت‘‘۔کون ہے کہ جسے جونؔ کے ،نثر پر گمان کیے جانے والے منفرد لہجے کے کچھ نہ کچھ اشعار یاد نہ ہوں۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ نے کہا تھا؎’’سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا…کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘۔آج جگہ جگہ، شہروں شہروں، بلکہ مُلکوں مُلکوں جونؔ کے اشعار آزادانہ سفر کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا ہر چند کہ اطلاعات کی ہمہ وقت فراہمی کے سلسلے میں تاحال تصدیقی اور توثیقی اعتبار سے دُور اور تشکیکی و تفریحی معیار سے قریب ہے۔ تاہم، وہاں بھی جونؔ کے اشعار اور تحریریں ’’کِلک‘‘ کی مقدار کے عنوان سے سب سے آگے ہیں۔جونؔ کے شعری مجموعے ’’کتاب گُریزی‘‘کی اس عمومی فَضا میں بھی ’’بیسٹ سیلر‘‘ کی سند کے حق دار قرار پا رہے ہیں۔ گویا فی زمانہ اُن کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔اُن کی شخصیت سادہ بھی تھی اور پُر پیچ بھی۔ اُن کے یہاں احساس کی آنچ بھی تھی اور آگ بھی۔ اور وہ اس بات پر پوری طرح قادر تھے کہ تخلیق کو کہاں آنچ کی ضرورت ہے اور کہاں آگ کی۔ایک عظیم علمی خانوادے سے وابستگی رکھنے والے اس طنّاز شاعر نے علمی و ادبی وجاہتوں سے خُوب خُوب کام لیا۔ جونؔ کی صحبتوں میں وقت گزاری کا تجربہ رکھنے والے اُسے زندگی کے یادگار تجربات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔تاہم، جون کی صُحبت یافتگی سے لُطف اٹھانا جس قدر اہم بات تھی، اُس سے بھی زیادہ اہم کام شاید یہ تھا کہ جونؔ کو محفوظ کیا جائے۔ یہ کہنے میںہرگز کوئی تکلّف نہیں کہ زیرِ نظر کتاب کے مؤلّف، خالد احمد انصاری نے زیادہ مشکل اور اہم کام اس خُوبی اور ذمّے داری سے انجام دیا کہ اس عنوان سے اُن کا کوئی ہم سَر نظر نہیں آتا۔ آج جونؔ کی علمی، فکری، شعری اور ادبی جہتوں کو دُنیا سے رُوشناس کروانے کے لیےصاحبِ کتاب کی شخصیت خود ایک حوالہ بن چُکی ہے۔ جونؔ کے کئی شعری مجموعے، اُن کی نثر اور اب ’’مَیں یا مَیں:جون ایلیا پر تحریریں اور ملاقاتیں‘‘کی صُورت میں یہ تازہ تر کتاب جونؔ شناسی کی ذیل میں مؤلّف کی طرف سے اٹھایا گیا ایک اور اہم قدم ہے ۔کتاب میں شامل مضامین اور تحریریں اُن افراد و اشخاص کی ہیں، جنہوں نے جونؔ کی سنگت میں کچھ وقت گزارا۔

ان شخصیات میں نام وَر ادیب، شاعر، نقّاد اور دانش ور بھی ہیں اور جونؔ کے بے تکلّف دوست، احباب اور اعزّہ بھی۔ مذکورہ افراد نے جیسا جونؔ کو پایا، ویسا بیان کردیا۔ بے دھڑک، بے باک اور بے قرار جونؔ کے لیے مؤلف نے اپنے ایک مضمون’’ ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا‘‘ کے تحت ایک بہت اہم جملہ یہ بھی تحریر کیا ہے،’’مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے احوالِ دروں اور زندگی کے بے شمار معاملاتِ دگر کے بیان کے لیے ایک ہنرِ بلاغت چاہیے اورہمارا سماجی شعور بلوغت کی اُس سطح پر نہیں کہ یہ سب کچھ آسانی سے قبول کر سکے۔‘‘بہرکیف، صاحبِ کتاب جس تُن دہی اور خلوص سے جونؔ شناسی کے سفر پر گام زن ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’ہنرِ بلاغت‘‘ کی منزل تک پہنچ کر ہی دَم لیں گے۔