اپوزیشن متحد ہوجائے تو حکومت کا جانا یقینی ہے

March 29, 2020

بات چیت :گلزار محمد خان، پشاور

میاں افتخار حسین سرمایہ دار نہ ہونے کے باوجود متعدّد مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چُکے ہیں۔15 اپریل، 1958ء کو محلّہ میاگان، پبی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم باچا خان اسلامی اسکول سے حاصل کی۔ بعدازاں، خاندان کھاریاں منتقل ہوگیا۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی، تو کھاریاں خالی کروالیا گیا، جس پر اُن کا خاندان پیر پیائی، ضلع نوشہرہ منتقل ہوگیا۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ کالجیٹ سے مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول، پبی سے میٹرک کیا۔ 1968ء میں ایّوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کے دَوران وہ اسلامیہ کالجیٹ کے طالبِ علم تھے اور طلبہ کے جلوس میں شامل ہوتے تھے۔ ایف اے کے لیے گورنمنٹ کالج، پشاور میں داخلہ لیا، تو پہلے ہی روز پختون ایس ایف کے اسٹال پر جاکر رکنیت حاصل کی۔

تھرڈ ائیر میں پختون ایس ایف گورنمنٹ کالج، پشاور کے صدر منتخب ہوئے۔1979ء میں پشاور یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1980ء میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ اُس وقت پی ایس ایف تین گروپس میں تقسیم تھی۔1985ء میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر منتخب ہوئے اور بیگم نسیم ولی خان کی ہدایت پر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔1988ء میں پارٹی صدر کی ہدایت پر ٹکٹ کے لیے درخواست دی اور ٹکٹ ہولڈر کی حیثیت سے پختون ایس ایف سے اے این پی میں قدم رکھ دیا۔تاہم، اس الیکشن میں کام یابی حاصل نہ کرسکے۔ بعدازاں 1990ء کے انتخابات میں حصّہ لیا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ بیگم نسیم ولی خان اسمبلی میں پارٹی کی پارلیمانی لیڈر تھیں اور اُنہیں پارلیمانی سیکرٹری منتخب کیا گیا۔

1993ء کے انتخابات میں149ووٹس سے شکست ہوئی، لیکن 1997ء کے الیکشن میں پھر کام یابی حاصل کی۔ 2002 ء کے انتخابات میں فتح حاصل نہ ہوسکی۔ 2008ء کے انتخابات میں کام یاب ہوکر پہلے صوبائی وزیرِ تعلیم بنے اور پھر محکمۂ اطلاعات کا قلم دان سونپا گیا۔ 2013ء اور2018ء کے انتخابات میں بھی حصّہ لیا، مگر کام یاب نہ ہوسکے۔

میاں افتخار حسین اپنے سیاسی کیریئر کے دَوران پارٹی کے آفس سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، سیکرٹری اطلاعات، ڈپٹی جنرل سیکرٹری، صوبائی جنرل سیکرٹری رہ چُکے ہیں، جب کہ اِن دنوں اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔میاں افتخار حسین نے روزنامہ’’ جنگ‘‘ کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں اپنی سیاسی جدوجہد اور مُلک کی سیاسی صُورتِ حال پر سیر حاصل گفتگو کی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان اور ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: مجھے فخر ہے کہ مَیں ایک غریب مزدور کا بیٹا ہوں۔ میرے والد، میاں محمّد رفیق بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور دو سال کی عُمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ اُن کی دو جریب زمین تھی، جس پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر خان صاحب نے اُنھیں فوج میں وائرلیس آپریٹر کے طور پر بھرتی کروایا۔ والدہ نے امیر گھرانے سے تعلق کے باوجود میرے والد کے ساتھ غربت کے شب و روز نہایت غیرت کے ساتھ بسر کیے۔ سالن نہ ہوتا تو پانی سے روٹی کھالیتے، مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ مَیں نے بھی غربت کی گود میں آنکھ کھولی۔ ہمارا گھر اتنا بوسیدہ تھا کہ کمرے میں لگا دیمک زدہ ستون، پبی ریلوے اسٹیشن سے گاڑی گزرنے پر لرز اٹھتا۔ ایک وقت کی روٹی کھاتے، تو دوسرے وقت کی اُمید نہ ہوتی۔ بارش میں چھت ٹپکتی۔

مَیں پیدا ہوا تو والد کو ٹی بی کا عارضہ لاحق ہوگیا، جس پر دادی مجھے منحوس کہا کرتیں، لیکن والد مجھ سے بہت پیار کرتے اور کہتے’’ ان کے پیدا ہونے کے بعد ہم سب کے دن بدلے ہیں۔‘‘ میرے دو بڑے بھائیوں کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اگرچہ میری گھریلو زندگی زیادہ خوش حال نہیں تھی، لیکن بیٹے کی پیدائش کی صُورت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی خوشی دی اور پورے خاندان کے ارمان پورے ہوئے۔ میرے والد نے اپنے پوتے کا نام’’ شاہ سوار‘‘ رکھنے کو کہا(اُس وقت کے فوجی گورنر پنجاب کا نام بھی جنرل شاہ سوار تھا)، تاہم مَیں نے والد کی مشاورت سے راشد نام رکھا۔1988ء میں جب مجھے الیکشن میں ناکامی ہوئی، تو میری والدہ نے کہا’’ بیٹا! تمہاری خوشیاں میرے نصیب میں نہیں ہیں‘‘ اور یہی ہوا۔ 1990ء کے انتخابات میں مجھے کام یابی تو نصیب ہوئی، مگر اُس وقت والدہ دنیا میں موجود نہیں تھیں۔

س: علاقے کے خوانین کا مقابلہ کس طرح کیا؟

ج: مَیں اپنے بھائیوں کے لیے ہمیشہ نقصان دہ رہا کہ وہ ہر الیکشن میں میری خاطر زمین فروخت کرتے۔ مَیں نے ایمان داری کی سیاست کی اور اپنی زمین بیچ کر علاقے کے خوانین کا مقابلہ کیا۔

س: اکلوتے بیٹے کی ناگہانی موت کا صدمہ کیسے برداشت کیا؟

ج: میرا بیٹا پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا تھا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد کہا’’ ابّو! مجھے اخبار میں نوکری کرنی ہے‘‘ جس پر میرے صحافی دوستوں نے اُسے پہلے ایک اُردو اور پھر انگریزی اخبار میں بغیر تن خواہ کے بھرتی کروادیا۔ بعد ازاں، اُسے پی ڈی اے میں چھوٹی سطح پر نوکری ملی، تو ہم نے اُس کی شادی کی تیاریاں شروع کردیں، لیکن ظالموں نے سَر پر سہرا سجنے نہیں دیا۔ اُس کے سَر اور سینے میں چار، چار گولیاں اُتار دیں۔ مَیں جب بیٹے کا چہرہ دیکھنے کے لیے گھر میں داخل ہوا، تو بیٹی نے سینے سے لگ کر پوچھا’’ بابا! راشد کو کس نے مارا ہے؟‘‘ مگر میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا، مَیں اُسے کیسے کہتا کہ اُس کی شہادت کی وجہ مَیں ہوں۔ پختون خطّے میں امن کی بات کرنے کی سزا میرے بیٹے کو دی گئی، لیکن مَیں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر میرے 10بیٹے بھی ہوتے، تو قوم پر قربان کردیتا۔

مجھے فخر ہے کہ مجھے لوگ’’ شہید کا باپ ‘‘کہتے ہیں، لیکن تمنّا ہے کہ مجھے شہید بیٹے کا شہید باپ کہا جائے۔ راشد کی جگہ مجھے مار دیا جاتا، تو کوئی فکر نہ ہوتی ،کیوں کہ مجھے پہلے ہی بہت دھمکیاں مل چُکی تھیں۔ میرے بیٹے کے ساتھ میرا کزن بھی زخمی ہوا تھا، اُس نے جو واقعہ سُنایا، اُس سے انسان کا دِل دہل جاتا ہے۔ میرے چچا زاد نے میرے بیٹے پر جان قربان کرنے کی کوشش کی، مگر قاتلوں نے اس کی ٹانگوں میں گولیاں مار کر اسے دوسری طرف دھکّا دے دیا، اس کے بعد اُنہوں نے میرے بیٹے پر فائرنگ شروع کی اور اُس وقت تک کرتے رہے، جب تک اُس کی جان نہیں نکل گئی۔

س:سیاست میں کس سے متاثر ہیں؟

ج: اے این پی کے رہبرِ تحریک، خان عبدالولی خان سے متاثر ہوں۔ اُن کی شخصیت میرے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔

س:مُلک کے حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا بہتری کے کوئی آثار ہیں؟

ج: دیکھیں جی! تبدیلی سرکار نے مُلک کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی مایوسی اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان نااہل اور نالائق حکم رانوں نے قومی اداروں کو بھی بدنام کردیا ہے۔ سیاست کے اس اناڑی اور ناتجربہ کار کھلاڑی کے پاس اگر صرف کاغذی کارروائی اور زبانی پروپیگنڈا تھا، تو پھر مُلک کی مقبول پارٹیوں کو دیوار سے لگا کر ایک سیٹ کے اہل شخص کو کیوں وزیرِ اعظم بنایا گیا؟ انھوں نے اپنے جھوٹ، ہٹ دھرمی اور ذاتی مفادات کے لیے قومی اداروں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کرکے پاکستان کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے، موجودہ سلیکٹڈ حکم رانوں میں مُلک چلانے کی صلاحیت ہی نہیں، لیکن جو لوگ مُلک چلا سکتے ہیں، اُن کی راہ میں نیب اور احتساب کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔موجودہ نالائق حکومت نے معیشت، آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر مُلک کے وقار کا سودا کیا ہے۔ اگر موجودہ حالات میں مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو منہگائی اس حد تک نہ بڑھتی۔ عمران نیازی کا مُلک کے عوام کو ایک پیسے کا ریلیف دینے کا بھی ارادہ نہیں، بلکہ بجلی، گیس اور تیل پر اضافی ٹیکسز لگا کر امیروں کا بوجھ بھی غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے، جس کا مقصد صرف دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہم ٹیکس وصول کرسکتے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس ہزار مکانات کے نعرے پر عوام کو دھوکا دیا گیا۔ اب کہتے ہیں، ہم نے سرکاری نہیں، پرائیویٹ سیکٹر کی نوکریوں کی بات کی تھی، حالاں کہ اس نااہل حکومت کے ہاتھوں پرائیویٹ سیکٹر بھی تباہ ہوچُکا ہے اور لاکھوں افراد بے روزگار پِھر رہے ہیں۔ کنفیوزڈ، ناکام اور غیر سنجیدہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے تمام دوست مُمالک ناراض ہیں۔ کرپشن عروج پر ہے، لیکن احتسابی ادارے حکومتی کرپشن، بلین ٹِری، بی آر ٹی جیسے منصوبوں، مالم جبّہ، چینی اور آٹا اسکینڈلز پر خاموش ہیں۔BRTسے پشاور میں ٹریفک نظام تباہ کردیا گیا، جس کی تکمیل کے باوجود ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تعلیم کا نظام پستی کا شکار ہے، جب کہ صحت کا محکمہ اپنے کزن، نوشیروان برکی کو ٹھیکے پر دے رکھا ہے۔اصل بات یہی ہے کہ مُلک چلانا اور حالات میں بہتری لانا سیاست کے اناڑی کھلاڑی کے بس کی بات ہی نہیں۔

س :کیا موجودہ حکومت آئینی مدّت پوری کرسکے گی؟ مِڈٹرم انتخابات اور اِن ہاؤس تبدیلی کا کوئی امکان ہے؟

ج: ہم تو شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ نہ صرف انتخابات جعلی تھے، بلکہ اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی جعلی ہے، اس لیے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ نئے انتخابات کروا کے اقتدار جیتنے والوں کے حوالے کردیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ سلیکٹڈ حکم رانوں کا ایک دن بھی اقتدار میں رہنا ناجائز ہے، اگر یہ 5سال تک اقتدار پر براجمان رہتے ہیں، تو یہ ناجائز ترین ہوگا۔اب تو سلیکٹرز بھی ان نالائق حکم رانوں کے طرزِ حکمرانی سے نالاں ہیں، اسی لیے نہ صرف اِن ہاؤس تبدیلی اور مِڈٹرم انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں، بلکہ ایسے آثار بھی دِکھائی دے رہے ہیں کہ اِن ہاؤس تبدیلی کے بعد انتخابی اصلاحات اور 6ماہ بعد نئے عام انتخابات ہوں گے۔

س:کیا اے این پی اِن ہاؤس تبدیلی کی حمایت کرے گی؟

ج: اِن ہاؤس تبدیلی ایک آئینی اور جمہوری طریقہ ہے، جس میں ووٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا ہے، اس لیے اے این پی اس کی حمایت کرے گی۔

س:مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنہیں حکومت کی تبدیلی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، جس پر وزیرِ اعظم نے اُن کے خلاف غدّاری کا مقدمہ چلانے کی بات کی، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج: مولانا فضل الرحمٰن پر 10دن تک پُرامن دھرنا دینے پر غدّاری کا مقدمہ چلانے سے قبل کپتان پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے، جنہوں نے 126دن تک دھرنا دیا۔ سِول نافرمانی کا اعلان کیا اور پارلیمنٹ کو یرغمال بنا کر پی ٹی وی پر حملہ کیا۔ اگر عمران نیازی120 دن کے دھرنے پر غدّار نہیں ہو سکتے، تو مولانا فضل الرحمٰن چند دنوں کے پُرامن دھرنے پر کس طرح غدّار ہو سکتے ہیں؟ غدّار غدّار کا کھیل اور ڈرامے اب بند ہونے چاہئیں۔ مُلک میں کوئی بھی غدّار نہیں، ہر فرد مُلک و قوم سے وفادار ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اور قائدین مُلک کی ترقی کے لیے آئین، قانون اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

س:’’ آزادی مارچ‘‘ مقاصد کے حصول میں کیوں ناکام رہا؟

ج: مولانا فضل الرحمٰن نے’’ آزادی مارچ‘‘ اور اسلام آباد آنے کا اعلان کیا، تو اُس وقت دوسری اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ ابھی اسلام آباد جانے کا وقت نہیں آیا، لیکن مولانا صاحب نے کہا کہ حالات سازگار ہیں، اس لیے حکومت کو مزید وقت نہیں دینا چاہیے، چناں چہ باقی اپوزیشن جماعتوں نے تحفّظات کے باوجود مولانا کے ساتھ یک جہتی کے لیے جلسے میں شرکت کی۔ اے این پی رہبر کمیٹی کے فیصلے کے مطابق، تاریخی جلوس کے ساتھ اسلام آباد جلسے میں شریک ہوئی۔ مولانا کو کروائی جانے والی یقین دہانیوں کا تو علم نہیں، البتہ اُنھوں نے یہ ضرور کہا کہ اُن کے ساتھ وعدہ ہوا ہے، پھر کچھ حالات اور فضا بھی سازگار بن گئی تھی۔

س: مولانا فضل الرحمٰن نے پھر مارچ کا اعلان کیا ہے، کیا اب اپوزیشن متحد ہے؟

ج: حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہر طبقہ متاثر اور منہگائی سے پریشان ہے، اس لیے پہلے کی نسبت اپوزیشن کی تحریک میں اب زیادہ جان ہوگی، مگر حکومت مخالف فضا بنانے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔اپوزیشن متحد ہوجائے، تو حکومت کا جانا یقینی ہے۔

س:تحریکِ انصاف کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟

ج: دیکھیں جی! قومی اور بڑی سیاسی جماعت کی موجودگی مُلک کے لیے مفید ہوتی ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اس کے لیے ماحول بنانے نہیں دیا۔ ایک وقت تھا، جب نیشنل عوامی پارٹی(نیپ)مُلک کی بڑی پارٹی تھی، جس نے ایّوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی، لیکن پھر نیپ پر پابندی لگا کر اُس کے قائدین گرفتار کر لیے گئے اور یوں مُلک کی سب سے بڑی جماعت کو خیبر پختون خوا اور بلوچستان تک محدود کردیا گیا۔ اس کے بعد عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بنی، لیکن اس کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب مسلم لیگ نون قومی پارٹی بنی، تو مختلف طریقوں سے علاقائی پارٹی بنانے کی کوشش کرکے اُسے پنجاب تک محدود کیا گیا، یہی حال پیپلز پارٹی کا بھی ہے، جسے سندھ تک محدود کردیا گیا ہے۔ یہ روش کسی صُورت مُلک کے مفاد میں نہیں کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کرکے ایک غیر مقبول پارٹی کو آگے لایا جائے۔ جہاں تک تحریکِ انصاف کا تعلق ہے، تو اگر اسٹیبلشمنٹ اس کی سپورٹ چھوڑ دے، تو یہ کم زور ترین پوزیشن پر ہوگی۔

س: اے این پی کی فعالیت میں کیوں کمی نظر آرہی ہے؟

ج:عوامی نیشنل پارٹی صوبے کی بڑی سیاسی قوّت ہے، لیکن 2018ء میں انجینئرڈ الیکشن کی بنیاد پر ہماری قوّت کو زبردستی محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود اے این پی صوبے کی سب سے منظم اور متحرک جماعت ہے۔