سیاسی، سماجی، اقتصادی بے یقینی عوام کا سُکھ چین لے گئی

March 29, 2020

’’ڈیپریشن، اَن جانا خوف، عدم تحفّظ کا احساس، مایوسی، بے خوابی، گھریلو، سماجی اور معاشی پریشانیاں …‘‘ یہ اور اس طرح کے کئی الفاظ پاکستان کے کم و بیش ہر شِفاخانےمیں سُننے کو ملتے ہیں۔چاہے پوش علاقےمیں واقع کسی ماہرِ نفسیات کا کلینک ہو،مِڈل کلاس آبادی میں واقع جنرل فزیشن کی ڈسپنسری،حکیم کا مطب ، ہومیو پیتھک ڈاکٹر کا شِفاخانہ یا کسی تعویز دھاگے والے روحانی عامل کا آستانہ،ہر جگہ ہی ذہنی و نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ہم ایسے لوگوں کو وہمی، ڈیپریشن کے شکار ، حالات کے مارے ،ستم زدہ یا دوستوں ، رشتے داروں کے ستائےاور کاروباری و دفتری چپقلش میں مبتلا افراد سمجھتےہیں،لیکن ماہرینِ نفسیات اور دیگر معالجین کی نظر میں یہ در حقیقت مختلف نفسیاتی عوارض میں مبتلا مریض ہیں۔ اور اس ضمن میں لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ یہ عوارض انتہائی تیزی سے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف

بلاشبہ پاکستان میں تعلیم و صحت کبھی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہے ، جب کہ ذہنی صحت یا’’Mental health‘‘کے حوالے سے تو صورتِ حال قطعاً تسلّی بخش نہیں ،لیکن حالیہ چند برسوں، بالخصوص پچھلے ڈیڑھ دوسال میں نفسیاتی امراض میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، مُلکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ایسا نہیں ہے کہ لوگ پہلے ڈیپریسڈیا ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوتےتھے،ہوتے تھے، مگر، پچھلی چند دہائیوں میں یہ شرح انتہائی تیزی سے بڑھی ہے،جس کی کئی وجوہ ہیں۔ ذیل میں ہم ان بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل کی چند وجوہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

پرانا روگ

حکمرانوںنے جس طرح قیا مِ پاکستان سے اب تک عوام کے حقیقی مسائل نظر انداز کرکے صرف اپنی ہی بہتری، خوش حالی اور ’’صحت‘‘ پرتوجّہ دی ہے، اس کے تلخ نتائج بنیادی سہولتوں، تعلیم ، صحت، روزگار اور کاروبار سے محرومی کی صُورت ہمارے سامنے ہیں۔دورانِ زچگی ماؤں اور بچّوں کی اموات، بچّوں کی نامکمل نشو و نما، علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم فراہمی،صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں کےفقدان اور سنگین امراض کی وجہ سے عالمی ادارے پاکستان کا شمار دنیا کے بعض پس ماندہ ترین ممالک سے بھی نچلے درجے میں کرتے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں، جن کا اظہار پاکستان میں ہر سال یکم اکتوبر کو منائے جانے والے’’ ذہنی صحت کے عالمی دن‘‘ کے موقعے پر تسلسل سے کیا جاتا ہے۔ 2019ء میں ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقعے پر ماہرینِ نفسیات نے متنبہ کیاکہ ’’ پاکستان کے میڈیکل اسٹورزپر ڈاکٹری نسخوں کے بغیر بلڈ پریشر اور سکون بخش ادویہ کی فروخت میں کئی گُنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ہر تیسرا ،چوتھا شخص (بشمول خواتین) سکون آور گولیاں استعمال کررہا ہے۔ ‘‘اس موقعے پر پاکستان ایسوسی ایشن فارمینٹل ہیلتھ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’’پاکستان میں ڈیپریشن میں مبتلا افراد کی شرح دنیا بھر میں ڈیپریشن میں مبتلا افراد سے 4گُنا زیادہ ہے۔ ‘‘ یہ صورتِ حال اتنی الارمنگ تھی کہ ماہرِ نفسیات نےمُلک میں فوری طورپر ذہنی صحت سے متعلق آگہی مہم چلانےپر زور دیا۔ کراچی میں تو اس حوالےسے مہم شروع بھی کی گئی، جس میں ماہرین نے ٹارگٹ کلنگ، جنسی جرائم، بچّوں کے اغوا اور خاندانی نظام کے بکھرتے شیرازے کو مُلک میں پھیلتی بے چینی اور مایوسی کا شاخسانہ قرار دیا۔

ذہنی عوارض کی شرح

دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے اعداد و شمارکے حوالے سے کوئی تازہ ترین سروے یا رپورٹ وغیرہ دست یاب نہیں کہ ہمارے یہاںعوام کی اکثریت آج بھی اپنی ذہنی پریشانیوں اور بیماریوں کے لیے ماہرِ نفسیات کے پاس جانایا سائیکائٹرسٹ کی خدمات حاصل کرنا معیوب سمجھتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عموماً ماہرِ نفسیات کے پاس جانے والے پر ’’پاگل پن ‘‘کی مُہر لگ جاتی ہے۔اکیسویں صدی میں بھی ایسے متعدد اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں، جو دل ودماغ میںپریشانیوں کا ایک الائو لیے پھرتے ہیں،لیکن ماہرِ نفسیات کے پاس نہیں جاتے۔ ’’انٹرنیشنل جرنل آف ایمرجینسی مینٹل ہیلتھ‘‘ نے اپنے تازہ ترین جریدے میں جو اعداد و شمار درج کیے ہیں ان کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد کسی نہ کسی سنگین نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں، اگر عام ڈیپریشن، مایوسی، پریشانی اور دیگر منفی نفسیاتی کیفیات کو بھی شامل کرلیا جائے، تو یہ تعداد 5کروڑ سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔

جریدے کے مطابق ’’پاکستان میں 34فی صد افراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ صوبوں کی درجہ بندی کے اعتبار سے سندھ میں یہ شرح 16فی صد، پنجاب میں 8فی صد، بلوچستان میں 4فی صد اور کے پی کے میں 5فی صد ہے۔ شہروںکے دارالحکومت کی بات کی جائے تو لاہور ڈیپریشن میں پہلے نمبر پرہے، جب کہ کوئٹہ 44فی صد اور کراچی میں یہ شرح35فی صد ہے۔ ‘‘جہاں تک ان بیماریوں میں اضافے کا تعلق ہے ، توانٹرنیشنل جرنل آف ایمرجینسی مینٹل ہیلتھ نے پاکستان کو ان ممالک میں سرِ فہرست قرار دیا ہے، جہاں دماغی اور نفسیاتی عوارض کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔

میو اسپتال ، لاہورکا شعبۂ نفسیات

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت، لاہور میںواقع دو ہزار سے زائد بستروں پر مشتمل میواسپتال کا شمار ایشیا کے قدیم ترین اور بڑے اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پنجاب بھر اور دوسرے صوبوں سے بھی آنے والے مریض مُلک میں ذہنی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا افراد کے رحجانات کی عکاّسی کرتے ہیں۔ اسی طرح اسپتال کا شعبۂ دماغی امراض بھی مُلک میں ذہنی صحت کے نشیب و فراز کی ایک عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس شعبےکے سربراہ ،ماہرِ دماغی امراض و نفسیات ،پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف کی بات چیت اور یہاں آنے والے مریضوں سے بات چیت سے مُلک میں دماغی اور نفسیاتی امراض کی عمومی صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف کا کہنا ہےکہ ’’گرچہ آپ اس شعبے سے اخذ کردہ نتائج پورے ملک پر منطبق نہیں کر سکتے، لیکن بہرحال کسی حد تک اندازہ ضرور لگا سکتے ہیںکہ یہ سب سے بڑے اسپتال کا وہ شعبہ ہے،جہاں ہر عُمر کے افراد نفسیاتی مسائل کا علاج کروانے آتے ہیں۔یہ وہ شعبہ ہے ،جہاں 1980ء میں ہیروئن کا نشہ کرنے والا سب سے پہلا مریض داخل کیا گیا تھا ۔‘‘’ ’کیا حالیہ چند برسوں میں مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے؟ ‘‘اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر آفتاب نے کہا’’ اس ضمن میں کوئی باضابطہ سروے تو نہیں ہوا اور مستند اعدادوشمار بھی اس لیے دست یاب نہیں کہ دوتین سال کا مختصر عرصہ ،بدلتے رجحانات کا اندازہ لگانے کے لیے کافی نہیں، لیکن میواسپتال کے شعبۂ نفسیات سے رجوع کرنے والے مریضوں، نفسیات کے کلینکس پرآنے والے مرد و خواتین اور مشاہدات سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ گزشتہ دو ،ڈھائی سال میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ صرف ہمارے آئوٹ ڈور پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی) کے شعبے میں تین چار سال قبل تک اوسطاً روزانہ پچاس سےساٹھ مریض آتے تھے، اب ان کی تعدادڈھائی سو ہوگئی ہے اور اس میںدن بہ دن اضافہ ہی ہوتاجا رہا ہے۔ یہ حال نہ صرف میرے،بلکہ دیگر ماہرینِ نفسیات کے کلینکس کا بھی ہے۔ قابلِ توجّہ امر یہ ہے کہ یہ تو صرف لاہور کے ایک اسپتال کے ایک شعبے کی صُورتِ حال ہے، جب کہ دیگر سرکاری اسپتالوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ زیادہ تر مریض کن نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، تو ان میں سرِ فہرست ڈیپریشن اور اعصابی کشیدگی ہے، دوسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جنہیںاَن جانے خوف اور مختلف امراض میں مبتلا ہونے کا وہم لاحق ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور یادداشت کی کمی اور بے خوابی کا شکار رہتے ہیں ۔یہ کیفیات شدّت اختیار کر جائیں، تو شیزوفرینیاکے مرض میں تبدیل ہو جاتی ہیں ،جو زیادہ خطر ناک ہے۔ بات یہ ہے کہ طویل عرصے تک ڈیپریشن ، مایوسی، غصّے اور پریشانیوں میں مبتلا رہنے کی وجہ ہی سےدیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں چوں کہ لوگ ڈیپریشن وغیرہ کی صُورت میں ڈاکٹرزکے پاس جانے سے کتراتے ہیں ،تو معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نفسیاتی مسائل کے شکار افراد سب سے پہلے پیروں ،فقیروں اور عاملوں سے رجوع کرتے ہیں ،لہٰذا مرض اندر ہی اندر پلتا اور بڑھتارہتا ہے، پھراکثر مریض دوستوں، رشتےداروں کے کہنے پریا پھر اپنے طور پر ہی مسکن اور خواب آور ادویہ کا استعمال شروع کر دیتے ہیں،جو بغیر نسخے اکثر میڈیکل اسٹورز سے مل بھی جاتی ہیں۔سیلف میڈی کیشن کا یہ بڑھتا ہوا رجحان بے حد نقصان دہ ہے۔ حالیہ برسوں میں نوجوانوں میں سکون آور اور اینزائٹی کنٹرول کرنے کی ادویہ کا استعمال بہت بڑھا ہے، اب تو یہ بطور فیشن بھی استعمال ہونے لگی ہیں۔‘‘’’ نفسیاتی عوارض میں حالیہ اضافےکے پسِ پردہ عوامل کیا ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ اس کے ایک سے زائد عوامل ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ بنیادی ضرور یاتِ زندگی کی عدم دست یابی ہے، جب کہ روزگار اور کاروبار کے مواقع کا فقدان، عدم تحفّظ ، طبقاتی نظام، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ ، خاندانی نظام کا زوال وغیرہ جیسےعوامل بھی کارفرما ہیں۔ ویسے تو یہ مسائل پہلے بھی تھے، حالات پہلے بھی خراب تھے،دودھ اور شہد کی نہریں تونہیں بہہ رہی تھیں، لیکن کاروبار کسی نہ کسی طرح چل ہی رہا تھا ۔

لوگ مطمئن تھے، مگرحالیہ ایک دو برسوں میں ہمارے اقتصادی اور سماجی حالات میں جو بگاڑ پیدا ہوا ، اس نے معاشرتی ڈھانچے کو متزلزل کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے، جیسے معاشرے پر سیاسی، سماجی اور اقتصادی مایوسی اور بے یقینی کی ایک چادر سی تن گئی ہے ۔ لوگوں کو اُمید تھی کہ کرپشن کا پیسا واپس آئے گا اور عوام کی بہبود پر صرف ہوگا، لیکن اس حوالےسے بھی انہیں مایوسی ہوئی۔ مَیں ماہرِ اقتصادیات تونہیں ، لیکن ہماری مجموعی قومی پیداوار میں کمی اور دوسرے تمام روبۂ زوال معاشی اعشارئیے، کسی سے مخفی نہیں ۔ ماہرین کے نزدیک مجموعی قومی پیداوار اور عوام کی خوشیوں کے درمیان ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسی صُورتِ حال میں جب عوام کو یہ پتا چلتا ہے کہ منہگائی اور آٹا، چینی، گھی وغیرہ کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کے پیچھے حکومتی اہل کار ملوّث ہیں، تو ان کی مایوسی ، غم و غصّے، بے بسی ، نفرت اورذہنی پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق، حالیہ ڈیڑھ دو برسوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اور بے روزگاری میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں لوگ ذہنی طور پر بیمار نہیں ہوں گے تو اور کیا ہو گا…مُلک میں حال ہی میں ہونے والا ایک سروے (گیلپ پول) یہ ظاہر کرتا ہے کہ 66فی صد عوام، حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔ با الفاظِ دیگر، عوام نے موجودہ حکمرانوں سےجو توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں ،وہ پوری نہیں ہو سکیں اور یہ مایوسی اور بے بسی ذہنی امراض کی جڑ ہے۔‘‘

الم ناک داستانیں

میواسپتال کے شعبہ ٔ ذہنی امراض کے آئوٹ ڈور سے رجوع کرنے والے چند مریضوں سے گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر آفتاب کی باتیں سو فی صد سچّی ہیں۔ یہاں آنے والے ہر مریض کی زندگی تلخیوں سے بھر پور ہے۔ 34سالہ نوجوان نے بتایا کہ وہ ڈیڑھ سال پہلے ایک نجی ادارے کی ایڈمنسٹریشن میں بہت اچھے عہدے پر فائز تھا۔پر معاشی بحران کی وجہ سےادارے نے ڈاؤن سائزنگ کی تو اسے بھی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ کوئی نوکری نہ ملی تو اس نے اوبر بائیک چلانی شروع کر دی، لیکن آمدنی کم اور زیادہ اخراجات نے اتنا پریشان کر دیا کہ وہ ڈیپریشن میں مبتلا ہوگیا ۔اسی طرح ایک غریب خاتونِ خانہ اپنے شوہر کو لے کر آئی ہوئی تھیں،ان کا شوہردیہاڑی پر رکشہ چلاتا تھا، لیکن آمدنی کم اور اخراجات زیادہ تھے۔

جب 20ہزار کا مقروض ہوا ،تو اس کے رویّے میں تبدیلی آئی، مزاج تلخ ہوگیا اور آئے روز گھر میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے، جس کی وجہ سے اب وہ نفسیاتی بیماری کا علاج کروا رہا ہے۔ ایک ادھیڑ عُمر شخص ، ایک کمپنی میں بطور قاصد ملازم تھا، جب دفتر سے کئی ماہ تنخواہ نہ ملی،تو کسی کے مشورے پر اس نے استعفیٰ دے کر چھوٹے پیمانے پر سری پائے کے ناشتے کا کام شروع کردیا،کیا لیکن چند ہی ماہ بعد کارپوریشن والے اس کی ریڑھی اٹھا کر لے گئے۔جب تنگی کے باعث گھرکے برتن تک بِک گئے، تو دماغ بھی قابو میں نہ رہا اوروہ ذہنی مریض بن گیا۔ایک بے روزگار نوجوان سے بھی ملاقات ہوئی، جس نےایم بی اے کیا ہوا ہے، لیکن تاحال کہیں ملازمت حاصل نہیں کر سکا۔ مریضوں میں ایک خوش پوش تعلیم یافتہ ملازم بھی شامل تھا، جو کم آمدنی اورمنہگائی کے باعث منشّیات کا عادی ہو چُکا ہے۔

مریضوں میں ایک ایسا نوجوان بھی تھا، جو ڈیڑھ سال پہلے حکومتی دعوئوں سے متاثر ہو کرسعودی عرب سےنوکری چھوڑ کر فیملی سمیت پاکستان شفٹ ہوا ، لیکن وہ ایک انتہائی غلط فیصلہ ثابت ہوا۔ نتیجتاً وہ ڈیپریشن کا شکار ہوگیااور اب اپنا علاج کروا رہا ہے۔اس حوالے سےڈاکٹر آفتاب آصف نے بتایا کہ ’’اس شعبے میں آنے والے 90فی صد مریض متوسّط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ شام کو سائیکائٹرسٹس کے کلینکس سے رجوع کرنے والے امیر امراء اور اشرافیہ طبقے کے مسائل الگ ہی ہیں۔ ان کا مسئلہ روزی روٹی نہیں۔ کاروباری، تاجرافراد ، بیوروکریٹس اور صنعت کار وںوغیرہ میںخوف ، تشویش، اضطراب اور اینزائٹی کی بنیادی وجہ کرپشن، بدعنوانی، رشوت، ہیرا پھیری، ذخیرہ اندوزی اور دوسرے نا جائز کام ہیںاورنیب یا عدالتوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کا خوف ، انہیں خواب آور گولیوں کے بغیر سونے نہیں دیتا۔‘‘ہم نے بات چیت مزید آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ ’’کیا موجودہ حالات میں منشّیات کا استعمال بھی بڑھا ہے؟‘‘تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ’’یہ ہمارے معاشرے کا ایسا بھیانک باب ہے ،جسے ہر ذی شعور سُن کر لرز اٹھتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مشن برائے ’’ڈرگ اینڈ کرائم ‘‘کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 70لاکھ افراد (78فی صد مرد 22فی صد خواتین) مختلف قسم کا نشہ کرتے ہیں۔ اس تعداد میں ہر سال 40ہزار افرادکا اضافہ ہو تا جا ر ہا ہے ۔

نتیجتاً، پاکستان دنیا بھر میں منشّیات سے متاثرہ ممالک میں سرِفہرست شمار ہونے لگا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پڑوسی مُلک افغانستان بھی ہے ، جہاں دنیا بھرکی 75 فی صد ہیروئین پیدا ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 44ٹن پراسیسڈہیروئین کھپ جاتی ہے۔ غیرملکی بیانات صرف ڈرگز ،یعنی خالص منشّیات کے بارے میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکیوں، لڑکوں، طلبہ، دفاتر میں کام کرنے والوں حتیٰ کہ کام کے بوجھ تلے دبی خواتینِ خانہ میں بھی سکون آور اور اینزائٹی ختم کرنے والی ادویہ کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ بھی الارمنگ ہے۔ یہ خطرے کی ایسی گھنٹی ہے، جوگرچہ کافی عرصے سے بج تورہی ہے ،لیکن اب اس کی گونج نے سب کے کان کھڑے کر دئیے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ جوں جوں معاشرے میں مایوسی بڑھتی ہے، زندگی کا سکون بھی غارت ہوتاچلاجاتا ہے ۔‘‘

’’ قومیں آزمائشوں کی بھٹّی میں جل کر ہی توکندن بن کر نکلتی ہیں۔ ہم بھی آزمائشوں میں گِھرے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا، توڈاکٹر آفتاب گویا ہوئے ’’جی ، بلا شبہ ایسا ہی ہے،لیکن ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب قوم میں امارت اور غربت کا طبقاتی بُعدنہ ہو ۔ محمود و ایّاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔مگر موجودہ حالات میں،صرف عوام روزی، روٹی، علاج معالجے کو ترس رہے ہیں،خواص ان مسائل سے دوچار نہیں۔پھر آج کل تو ہر شخص ہی اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔ اسے صرف اپنی اور اپنے بال بچّوں کی فکر ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے اندر میل جول اور دکھ درد بانٹنے میں کمی آ گئی ہے، اب موبائل فون ہی ہر شخص کا دوست ہے ۔

دوسری جانب،مُلک کی مجموعی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ابتری بھی لوگوں کو ذہنی طور پر بیمار کر رہی ہے۔ ہمارے یہاں ہر گھنٹے بعدایک نئی ’’بریکنگ نیوز‘‘اعصاب کو مضمحل کر کے رکھ دیتی ہے۔ اسی لیےمَیں اسے ’’ Bad Breaking News ‘‘کہتا ہوں۔ ‘‘’’ ان حالات میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘اس سوال پرڈاکٹر صاحب نے کہا ’’قیام ِپاکستان سے لے کر اب تک کسی بھی حکومت نے عوام کی خوشیوںکے بارے میں نہیں سوچا، بلکہ پیٹرول، بجلی، گیس ، اشیائے صرف کی قیمتوں اور ٹیکسزمیں اضافے سمیت ہر وہ عمل جا ری رکھا جاتا ہے، جو غربت کے مارے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔

جب کہ حکومت میں آنے سے قبل دعوے فلاحی مملکت کے کیے جاتے ہیں۔ جس طرح حکومت دوسرے مسائل کےحل کے لیے ٹاسک فورس بناتی ہے، اسی طرح عوام کو خوشیاں دینے کے لیے بھی ایک ٹاسک فورس بنانی چاہیے،جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل ہوں۔ یہ لوگ حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے کی تجاویز دیں۔واضح رہے کہ ایک صحت مند ذہن کی حامل قوم ہی ترقّی کی منازل طے کر سکتی ہے۔ اگر عوام کا ذہن اسی طرح منہگائی اوربے روزگاری جیسے مسائل ہی میں الجھا رہا ،تو ایٹمی قوّت ہونےکے باوجود ہم کبھی ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے نہیں ہو سکیںگے۔ہمیں اپنی ذہنی صحت سے آگہی کے حوالے سے ایک مُلک گیر مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

میواسپتال کے شعبۂ دماغی امراض میں گزارے گئے چند گھنٹے برسوں پر محیط لگتے ہیں۔ حقیقت تویہ ہے کہ برے معاشی حالات، بیڈ گورنینس، ناانصافیوں، بڑھتی ہوئی منہگائی، کرپشن، بے روزگاری وغیرہ میں ہوش رُبا اضافے نے لوگوں کی ذہنی و دماغی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔اور پھر مایوس عوام جب یہ سُنتے اور پڑھتے ہیں کہ’’ 2020ء ترقّی اور نوکریوں کا سال ہے ، پاکستان ایک عظیم مُلک بننے جا رہا ہے‘‘،تو انہیں یوں لگتا ہے، جیسے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہےکہ عوام تو پہلے ہی ان خُوش نما نعروں کے ڈَسے ہوئے ہیں۔بلاشبہ عوام کو ریلیف دینا حکومتِ وقت ہی کا کام ہے۔ تاہم، ماہرینِ نفسیات، علمائے کرام اور سوشل ورکرز کی بھی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ لوگوں کو مایوسیوں کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کریں، اُنہیں بتائیں کہ حالات کا عزم و ہمّت سے مقابلہ کیا جائے ،تو تاریک رات نئی صبح میں بدل ہی جاتی ہے۔