کورونا وائرس، دنیا اور ہم

March 29, 2020

کورونا وائرس سے انسانی جان کے ساتھ، دنیا کی معیشت پر بھی انتہائی سنگین اثرات مرّتب ہوئے ہیں۔ خاص طور پر دیہاڑی دار طبقے اور چھوٹے کاروباری افراد کو بہت نقصان پہنچا ہے، اِسی لیے دنیا بھر کی حکومتیں اور معاشی ماہرین کی کوشش ہے کہ اس شعبے کو زیادہ سے زیادہ سہارا دیا جائے ۔اچھی بات یہ رہی کہ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے سب مل کر اس وبا سے نبرد آزما ہیں۔ صرف امریکا نے پندرہ ہزار ارب روپے عوام کی مدد کے لیے مختص کیے ہیں۔وائرس کے علاج کے ساتھ یہ امدای فنڈ حوصلے کا باعث ہوگا کہ ایک اندازے کے مطابق پچاس کروڑ افراد گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں بھی اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ عوام، حکومت، سِول اور فوجی ادارے مل کر اس ناگہانی آفت پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں اور اُنھیں اِس ضمن میں بہت سی کام یابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔

ہم اِس اَمر پر فخر کرتے رہے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے ہمارا دنیا میں پانچواں نمبر ہے۔نیز، ہم اپنی ایٹمی طاقت وغیرہ کا بھی بار با رذکر کرتے ہیں۔ اِس بات پر بھی مُصر رہے ہیں کہ ہم اقوامِ عالم میں ایک اعلیٰ اور نمایاں مقام پر فائز ہیں۔بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ گو کہ ان میں سے بہت سی باتیں اور دعوے درست بھی ہیں، تاہم کورونا وائرس جیسے بحران ہی کسی مُلک کی اصلی طاقت اور صلاحیت کی آزمائش ہوتے ہیں۔ یہ آزمائش ریاست، حکومت اور عوام یعنی سب کے لیے ہے۔ ایسے موقعے پر دیکھا جاتا ہے کہ کون سا مُلک کیسی حکمتِ عملی، اقدامات اور صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اُس کی کارکردگی کیا رہی؟اِس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کورونا جیسی وبا کا مقابلہ کسی ہتھیار نہیں، بلکہ قومی یک جہتی ہی سے کیا جاتا ہے اور ساری دنیا یہی کچھ کر رہی ہے۔ احتیاط سب سے بڑا دفاع اور عوامی شعور و عمل سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ بلاشبہ یہی طرزِ عمل کورونا وائرس جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں کام یابی کی کلید ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمی اقتصادی بحران بھی وہ افراتفری نہیں مچا سکا تھا، جو کووڈ 19 نامی اس وائرس نے مچائی ہے۔ایک حوصلہ افزا بات یہ رہی کہ عالمی سطح پر’’ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ یعنی’’ عالمی ادارۂ صحت‘‘ جیسے ادارے پوری طرح فعال ہیں اور بھرپور طریقے سے مستند معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے علاج کے لیے مختلف ممالک کے ماہرین کے درمیان تحقیق میں ہم آہنگی بھی پیدا کر رہے ہیں۔ قومی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کے ساتھ، عام آدمی کی بھی رہنمائی کی جاری ہیں۔ متاثرہ ممالک کے عوام کو اپنے بچائو کے لیے کیسے روزمرّہ کی زندگی گزارنی چاہیے؟ یہ ساری معلومات انتہائی برق رفتاری سے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چُکی ہیں۔ یہاں تک کہ بچّہ بچّہ واقف ہوچُکا ہے کہ یہ بیماری کیا ہے اور ہاتھ بار بار دھونا ہی اس سے بچاؤ کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔

پھر یہ بھی کہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کی اس مہم میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مثبت کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو بُرے حالات میں بھی مسلسل عوام کا حوصلہ بڑھا رہا ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو سوشل میڈیا پر بھی خاصی ذمّے داری کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے، تاہم سازشی تھیوریز، من گھڑت قصّے کہانیوں، ٹوٹکوں اور غیر مستند علاج کے مشوروں کی بھی بھرمار ہے، لیکن عام طور پر عوام نے ایسی باتوں پر کم ہی کان دھرے ہیں۔اب بھی سب سے بہتر بات عوامی سطح پر یہی مانی جارہی ہے کہ اِس معاملے پر تجزیوں اور تبصروں کو بعد میں اپنی تحقیق کا موضوع بنایا جائے، فی الحال تو ان چھوٹے چھوٹے عملی اقدامات ہی پر توجّہ مرکوز رکھی جائے، جن سے وائرس کے اثرات کو محدود کیا جاسکے۔یعنی قوم اِن دنوں’’ نیم حکیم، خطرۂ جاں‘‘ کے حقیقی مفہوم سے نہ صرف یہ کہ آگاہ ہوچُکی ہے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایسے جان کے دشمنوں سے اجتناب بھی کر رہی ہے۔

چین سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے امریکا سے افریقا تک تقریباً ہر مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اثرات کہیں زیادہ اور کہیں کم ہیں، لیکن امتحان سے سب ہی گزر رہے ہیں۔ بین الاقوامی رابطوں کو ہر سطح پر محدود کیا جارہا ہے۔ پروازیں معطّل اور سرحدیں بند ہیں۔یورپی یونین جیسے اتحاد میں شامل ممالک نے ایک دوسرے سے لگنے والی اپنی سرحدوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اِس سے بڑھ کر اہم قدم شہروں کو لاک ڈائون کرنا ہے۔ لاک ڈائون کا سلسلہ سب سے پہلے چین نے کیا اور اس کے نتیجے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کام یابی سے محدود کردیا۔

ہمارے ہاں اس اَمر پر خوشی کا اظہار ہو رہا ہے کہ چین میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، ہمیں اس پر خوش بھی ہونا چاہیے کہ چین ہمارا دوست ہے، لیکن خوشی منانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم بھی اس وبا سے جان چُھڑانے کے لیے چین کے ماڈل کی پیروی کریں۔یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم چین کی طرح بڑی آبادی والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں، تاہم یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ چین کے مقابلے میں ہماری صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاوہ ازیں، ہماری اور چین کی معیشت کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں۔ شاید اسی لیے وزیرِ اعظم، عمران خان کے قوم سے خطاب میں بے بسی کی جھلک نمایاں تھی، بلکہ’’ بلوم برگ‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں تو اُنھوں نے یہ اعتراف کیا کہ پاکستان کے پاس اس وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ اُنہوں نے قرضوں کی معافی اور امداد کی بھی بات کی، جس پر طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں، تاہم اس بیان کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ ایران جیسے خود دار اور تیل کی دولت سے مالا مال مُلک نے بھی آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالرز کے قرضے کی درخواست کی ہے۔یاد رہے، پاکستان میں کورونا وائرس کے زیادہ تر متاثرین ایران ہی سے تفتان بارڈر کے راستے پہنچے ہیں۔ اس معاملے میں ایران سے کس قدر رابطوں کا فقدان رہا اور کیا یہ ہماری انتظامی مشنری کی نااہلی کا شاخسانہ ہے؟جیسا کہ میڈیا میں کہا جارہا ہے۔اس بات کا درست علم تو کسی اعلیٰ سطحی تحقیق کے بعد ہی ہوسکے گا۔تاہم، وزیر اعظم تو بلوچستان کی حکومت اور فوج کو بہترین انتظامات پر خراجِ تحسین پیش کرچُکے ہیں۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کے ضمن میں قومی سطح پر سب سے بہترین اور مؤثر ردّعمل سندھ حکومت کا دیکھنے میں آیا۔ بلاشبہ وزیرِ اعلیٰ، مُراد علی شاہ نے جس تیزی اور تن دہی سے اقدامات کیے، اس پر وہ عوام سے داد وصول کر رہے ہیں۔ داد کے ساتھ ان کے اقدامات کے مثبت اثرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اُنھیں یہ احساس تھا کہ صوبے کے دیگر حصّوں کے ساتھ، مُلک کے سب سے اہم اور بڑے شہر، کراچی کی کمان بھی اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شہر جہاں ٹیکس وصولی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، وہیں یہ مُلک بھر سے آنے والوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔اِسی لیے اُنھوں نے کراچی ہی کو سب سے زیادہ حفاظتی اقدامات کا محور بنایا۔ مُلک میں سب سے پہلے عوامی نقل وحرکت پر پابندیاں بھی یہیں لگائی گئیں۔ یہ اور بھی بہت حوصلہ افزا بات ہے کہ عوام نے اس طرح کی پابندیوں کا عمومی طور پر خیرمقدم کیا اور حکومت سے تعاون بھی کیا۔ اس کے برعکس، وفاقی سطح پر کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے،جن کی توقّع کی جا رہی تھی۔ مشیرِ صحت، ظفر مرزا کی پریس کانفرنسز کے علاوہ وفاقی ادارے کہیں بھی فعال نظر نہیں آئے۔

اگر صحت صوبائی معاملہ ہے، تو کیا صوبے مُلک کا حصّہ نہیں؟ کیا جب تک اُن کی طرف سے عرضیاں نہ آئیں، تب تک وفاقی حکومت کو خاموش رہنا چاہیے؟ وزیرِ اعلیٰ سندھ بار ہا کہہ چُکے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت کی توجّہ اس جانب مبذول کرواتے رہے، مگر اُنھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام توقّع کر رہے تھے کہ وزیرِ اعظم کے قوم سے خطاب میں کورونا وائرس سے قومی سطح پر مقابلے کی کوئی گائیڈ لائن دی جائے گی۔ ایسے عملی منصوبوں کا ذکر ہوگا، جن کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے گا اور صوبوں کو مدد کا پیغام دیا جائے گا۔تاہم، ایسا نہیں ہوا۔ وزیرِ اعظم کی جانب سے سندھ کی بہترین کارکردگی کو نظر انداز کرنا، تقریر کو بدمزہ کرگیا۔ کورونا وائرس کوئی سیاسی یا انتخابی مقابلہ تو نہیں، جس میں پوائنٹ اسکورنگ کی جائے ۔ماہرین اور سیاست دان متفّق ہیں کہ وزرائے اعلیٰ کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہیے۔اگر کوئی اچھا کام کیا گیا ہے، تو سب کو عملی طور پر اس کا حصّہ بننا چاہیے اور وزیرِ اعظم کو اس سلسلے میں ایک رہنما کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اگر ہم عالمی سطح کی بات کریں، تو کورونا وائرس سے نمٹنے کے مختلف طریقے دیکھنے میں آئے۔اس سلسلے میں تین چار ماڈلز کا خاص طور پر ذکر ہو رہا ہے۔سب سے پہلے تو چین کا ماڈل ہے، جسے جنوب مشرقی ایشیا نے بڑے پیمانے پر اپنایا۔ان ممالک میں سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا شامل ہیں۔ ان ممالک میں فوری لاک ڈائون اوردیگر احتیاطی تدابیر کو اپنایا گیا۔ اس کے مقابلے میں امریکی اور یورپی ماڈلز ہیں۔ امریکا نے اسے اپنی معاشی قوّت اور بہترین طبّی سہولتوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو امدای پیکیجز کے ذریعے کم کرنے کی کوششیں کیں۔ وہ طبقہ جو روزمرّہ کے معمولات اور کاروبار کے ٹھپ ہونے سے متاثر ہوا، اُس کے لیے رقوم مہیا کی جارہی ہیں۔آسان قرضے، امداد، سستے داموں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ یورپی ماڈل میں سرحدوں کی بندش اور شہروں کا لاک ڈائون زیادہ مؤثر مانا گیا، لیکن شہروں کو محض لاک ڈائون کر کے چھوڑ نہیں دیا گیا، بلکہ اس کی قومی اور شہری سطح پر زبردست مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔

اداروں کو غیر معمولی طور پر متحرّک کیا گیا ہے۔ یورپ میں اٹلی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یورپی ممالک کا ہم جیسے ممالک سے موازنہ درست نہیں۔ وہاں کے شہر سیّاحت اور کاروبار کے عالمی مراکز ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اسی لیے وہاں زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ ہمارے ہاں بیرونی دنیا سے آنے والوں کی تعداد کم ہے، اس لیے حالات کو زیادہ آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا تھا، لیکن تفتان سرحد پر جو کچھ ہوا، وہ بہت حوصلہ شکن ہے۔ کس قدر افسوس اور نااہلی کا مقام ہے کہ ہم ایک بارڈر تک کو کنٹرول نہ کرسکے۔ اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ خود ستائی ہر معاملے میں کام نہیں آتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت قرضے لینے اور قرضے معاف کروانے کے ہیر پھیر ہی سے نہیں نکل پائی۔ اگر ہم ایک جھٹکا برداشت کرنے کے بھی قابل نہیں اور ایسے مواقع پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، تو پھر خوش فہمیوں میں رہنے کا کیا فائدہ۔

قوموں کی بڑائی کی علامت ریلیاں، بڑے اجتماعات اور نغمے وغیرہ نہیں ہوتے، بلکہ آزمائش میں سرخ رُو ہونے کی صلاحیت ہی اُنھیں دنیا میں معتبر بناتی ہے۔جرمنی کی چانسلر، مرکل نے اپنے بیان میں کہا’’ ہم ہر سطح پر اپنے لوگوں کی مدد کریں گے، چاہے وہ روز گار کی صُورت میں ہو، امداد ہو یا قرضے ہوں۔ وہ شہری ملازمت پیشہ ہوں یا تاجر۔‘‘ دوسری جنگِ عظیم کا شکست خوردہ جرمنی آج اس بلند مقام پر کھڑا ہے اور ہم قرضے معاف کروانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ عالمی اداروں نے چھوٹے ممالک اور کم زور معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے تیزی سے رقوم فراہم کی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو بھی ایک کھرب روپے ملیں گے، اس کے علاوہ بھی رعایتیں دی جا رہی ہیں۔ عوام توقّع کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے یہ تمام وسائل پوری شفّافیت سے کام میں لائے جائیں گے۔