پاکستانی فلموں کا جنگجو ہیرو ’’لالہ سدھیر‘‘

March 24, 2020

لالہ سدھیر کا اصل نام شاہ زمان خان آفریدی تھا۔1922،ان کا سن پیدائش ہے۔ انہوں نے بمبئی میں بننے والی فلم ’’ فرض‘‘ سے فلمی کیئرئیر کا آغاز کیا ۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ’’ ہچکولے‘‘ تھی، جسے داؤد چاند نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ریلیز کے اعتبار سے یہ دوسری پاکستانی فلم تھی، جس کا ایک گیت ’’ میں پیار کا دِیا جلاتا ہوں تُو چپکے چپکے آجا‘‘ جسے علی بخش ظہور نے گایا تھا اور ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کیا تھا۔ یہ کسی حدتک مقبول ہونے والا پہلا پاکستانی فلمی گیت تھا ، جس کی فلم بندی سدھیر پر ہوئی۔ ہدایت کار سبطین فضلی کی انتہائی معیاری میوزیکل تخلیق ’’ دوپٹہ‘‘1952سدھیر کی پہلی سلور جوبلی ہٹ فلم تھی ۔ اس میں انہوں نے ایک نرم خو شریف النفس ڈاکٹر کا کردار بہ حسن خوبی ادا کیا تھا ۔ اس فلم کی ہیروئن نورجہاں تھیں۔ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم کے ہیرو ہونے کا اعزاز بھی سدھیر ہی کو حاصل ہوا، جب ایور ریڈی پکچرز کی کثیر سرمائے سے بنائی گئی فلم ’’ سسی‘‘ نے پچاس ہفتوں کا سنگ میل عبور کیا،جس میں سدھیر ’’پنوں‘‘ کے روپ میں جلوہ گر ہوئے تھے اور ان کی ’’سسی‘‘ کا کردار فرسٹ لیڈی آف سلور اسکرین صبیحہ خانم نے ادا کیا تھا ۔

سسی1954کی ریلیز تھی،سسی سے قبل اسی سال لالہ سدھیر کی ’’گمنام‘‘ بھی سلور جوبلی ہٹ مووی تھی جو نہایت معیار کی حامل اور بہت اعلیٰ، منفرد ودل چسپ کہانی پر مبنی تھی ۔پاکستان کی سینما کا سب سے بڑا انسٹیٹوٹ آف تھاٹ انور کمال پاشا نے یہ شاہ کار تخلیق کیا تھا ۔ سدھیر نے اس فلم میں ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا، جو بے روزگاری سے تنگ آکر ایک بھاری معاوضے کے عیوض ایک لڑکی فلم کی ہیروئن ’’ سیما‘‘ کو دریا میں دھکا دےکر اپنی دانست ہلاک کردیتا ہے۔ اور احساس جرم کے سبب شہر سے بہت دور ایک بستی میں گمنام زندگی بسر کرنے لگتا ہے ۔ اس کردار میں پرفارمنس کا مارجن بہت زیادہ تھا، جس سے سدھیر نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت ہی معیاری انداز سے اس کردار کی ادائیگی کی۔ جنگجو ہیرو کا خطاب پانےوالے لالہ سدھیر کے بارے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ کیرئیر کے ابتدائی برسوں میں انہیں کثرت سے لائٹ ، سنجیدہ، اور رومانی کردار ملے ۔ پنجابی فلموں میں انہیں داود چاند نے فلم بلبل1955کی وساطت سے متعارف کروایا۔ پاکستان میں کسی ہیرو کی بہ یک وقت2فلمیں ریلیز ہونے کا پہلا پہلا اعزاز بھی سدھیر ہی کو حاصل ہوا ، جب31جولائی1955کو جھیل کنارے اور طوفان ایک ساتھ منظر عام پر آئیں۔

اسی طرح یہ اعزاز بھی سب سے پہلے لالہ سدھیر ہی کو حاصل ہوا کہ کسی ہیرو کی ایک ہی سال میں دو عدد فلموں نے عظیم الشان گولڈن جوبلی کا سنگ میل عبور کیا ، وہ فلمیں تھیں عطااللہ شاہ ہاشمی کی نغمہ بار سوشل اصلاحی تصویر ’’چھوٹی بیگم‘‘ اور اشفاق ملک کی ایکشن ،تصویر تخلیق ’’ باغی‘‘ یہ بات ہے1956کی ۔ چھوٹی بیگم میں سدھیر کا کردار ایک مغرب پرست نوجوان کا تھا،جو اپنی گھریلو اور سگھڑ مشرقی اقدار سے پیار کرنےوالی بیوی صبیحہ خانم کو چھوڑ کر ایک ماڈرن حسینہ آشا پوسلے سے عشق کرتا ہے، لیکن مشرقی بیوی کی دُعا اور ایثار اسے راہ راست پر لے آتے ہیں، چھوٹی بیگم کے برعکس’’ باغی‘‘ میں ان کا کردار ایکشن سے بھرپور تھا ۔ جسے بڑی محنت سے لالہ نے ادا کیا ۔

یہی وہ فلم تھی، جس نے انہیں سوشل فلموں کے ساتھ ساتھ ایکشن کی حامل فلموں میں بھی مصروف کردیا، وقت کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف اور مشکل نوعیت کے کرداروں میں اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع تواتر سے ملتا رہا، جیسے کہ عطااللہ شاہ ہاشمی کی ’’ داتا‘‘ میں وہ ایک جعلی پیر کے روپ میں سامنے آئے… تو داود چاند کی ’’ حاتم‘‘ میں سخی حاتم کا گیٹ اپ اختیار کیا ۔ انورکمال پاشا کی ’’ انار کلی‘‘ میں وہ شہزادہ سلیم نورالدین جہانگیر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ سیف الدین سیف کی ’’کرتار سنگھ‘‘ میں ایک مسلمان سپاہی بنے ۔ عطااللہ ہاشمی کی ’’غالب‘‘ میں مرزا غالب کی تمثیل نبھائی،جب کہ مسعود پرویز کی ’’ جھومر‘‘ میں ان کا کردار ایک نفسیاتی نوجوان کا تھا ۔ 1958کی ریلیز ہدایت کار اشفاق ملک کی شان دار سپرہٹ مووی’’ آخری نشان‘‘ وہ ایک بار بھرپور ایکشن رول میں نظر آئے۔1960میں لالہ سدھیر نے اپنے پروڈکشن ہاوس کے تحت خود ہی بہ طور ڈائریکٹر فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیگم ’شمی‘ کو ہیروئن لےکر ’’ ساحل بنائی، جس کے ایک منظر میں انہوں نے جنگل کے بادشاہ شیر سے فائیٹ بھی کی تھی، یہ فلم ناکام رہی ۔1961کی ریلیز’’عجب خاں‘‘ میں لالہ سدھیر فرنگی سامراج کے علاوہ آفریدی قبیلے کے پختون مجاہد کے روپ میں بھرپور انداز میں جلوہ گر ہوئے۔ 1963میں انہوں نے ایک بار پھر ڈائریکشن کے شعبے میں طبع آزمائی کی ٹھانی اور شمی کو ہیروئن لےکر ایکشن کاسٹیوم مووی’’ بغاوت‘‘ تخلیق کی، جس میں ان کے مقابل پنجابی فلموں کے اُس وقت کے سپر اسٹار اکمل بہ طور وِیلن پیش ہوئے۔

ہدایت کارجمیل اختر نے سدھیر کے ساتھ متعدد فلمیں کیں۔ اور ہر بار انہوں نے سدھیر کو ایک بے وقوف یا بھولا بھالا ٹائپ رول دیا، خواہ وہ مجاہد ہو۔ ’’لاٹری‘‘ سدھیر کے کیرئیر میں ایک قطعی جداگانہ اہمیت کی حامل فلم تھی۔ نوآموز اور کم عمر ممتاز فلم میں ان کی ہیروئن تھیں اور وہ نہایت بے وقوف اور سادہ لوح دیہاتی کے روپ میں جلوہ گر تھے، عوامی حلقوں نے سدھیر کے اس روپ کو بھی خوب سراہا۔ 1974کے بہترین پنجابی ہیرو کا نگار ایوارڈ بھی انہوں نے اس فلم سے جیتا، جب کہ قبل ازیں وہ ’’ ماں پتر‘‘کیے لیے بھی بہترین پنجابی اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کرچکے تھے۔1975کی ریلیز اقبال کشمیری کی ’’ جادو‘‘ میں لالہ سدھیر ایک بار پھر کیریکٹر رول میں نظر آئے۔ اور اپنی شان دار کردار نگاری سے پوری فلم کو اپنے نام کیا۔ اس فلم میں وہ ممتاز کے باپ کے روپ میں موجود تھے ۔’’ جادو‘‘ نے کراچی سرکٹ میں شاندار گولڈن جوبلی منائی ۔1976میں اقبال یوسف نے ’’ صورت اور سیرت کے عنوان سے ایک سوشل ایکشن فلم بنائی، تو اس میں اردو سینما کے دوعظیم ہیروز محمد علی اور وحید مراد کے باپ کے رول میں سدھیر کو کاسٹ کیا گیا، تین نمایاں ترین ہیروز بھرپور کرداروں میں ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ بالخصوص محمد علی اور سدھیر کا اس فلم میں جا بہ جا ٹکراو تھا، جسے فلمی شائقین نے بے حد پسند کیا اور اس فلم نے شاندار گولڈن جوبلی منائی۔ 1976میں اقبال یوسف نے محمد علی اور سدھیر کے ساتھ سلطان راہی کو کاسٹ کیا۔

سدھیر نےایک بار پھر بہ طور ڈائریکٹر طبع آزمائی کا فیصلہ کیا اور اردو فلم ’’ بیٹی ‘‘ شروع کی… لیکن بوجوہ یہ فلم نہ بن سکی … ہدایت کار اقبال یوسف نے ’’ان داتا ‘‘ کا پارٹ ٹو سن آف ان داتا کے نام سے بنایا لیکن رشید ساجد’’ ان داتا‘‘ کی کہانی کو کام یاب تسلسل نہ دے سکے، چوں کہ اسکرپٹ بے جان تھا، لہذا سن آف آن داتا فلاپ رہی اور سدھیر بھی متاثر نہیں کرسکے۔

سدھیر نےاپنے42سالہ فلمی کیرئیر میں170کے قریب فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ صبیحہ خانم اور مسرت نذیر کے ساتھ ابتدائی دور میں ان کا اشتراک بےحد کام یاب اور مقبول رہا،جب کہ65سے75کے درمیان نغمہ اور فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد کام یاب رہی ۔ نیلو، شیریں،سلونی اور روزینہ کے ساتھ بھی انہیں پسند کیا گیا ۔

لالہ سدھیر نے تین شادیاں رچائیں۔ ایک گھریلو خاتون سے جب کہ دو شادیاں فلمی ہیرونیز شمی اور زیبا کے ساتھ کیں۔ زیبا کے ساتھ ان کی شادی بمشکل ایک ڈیڑھ سال ہی چل سکی، جب کہ دیگر دونوں شادیاں کام یاب رہیں۔ ان کی پہلی فلمی بیوی ’’ شمی‘‘ اداکارہ سلمیٰ ممتاز کی بہن تھیں۔ سلمیٰ ممتاز کی صاحبزادی یعنی سدھیر کی بھانجی ندا ممتاز نے ماضی قریب میں متعدد فلموں میں کام کیا اور ان دنوں ٹی وی ڈراموں میں بھرپور انداز سے حصہ لے رہی ہیں۔ سدھیر کی ریلیز شدہ آخری فلم ’’ دا دشمن تلاش‘‘ تھی، جو دشمن کی تلاش کا پشتو ورژن تھی ۔ یہ فلم1991میں سدھیر کے انتقال کے4سال بعد ریلیز ہوئی تھی،جب کہ سدھیر کا انتقال19جنوری1997کو ہوا ۔