اُردو ادب میں انسانی اور سماجی اقدار کا تصور

March 25, 2020

طارق شمس

’ادب‘سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر ادیب سماج کے تانے بانے کوجوڑتا ہوا نظرآتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ نظریات مختلف ہوتے ہیں،راستے الگ الگ ہوتے ہیں، مگر سب ہی انسانی سماج کا راگ الاپتے ہیں،جو جتنا بڑا ادیب ہوتا ہے،وہ اتنی ہی طاقت سے انسان اورانسانی سماج کے حق میں آواز بلند کرتاہے۔ یہی عکس ونقش اردو ادب میں بھی نمایاں ہے۔میر ہوں یا غالب، اقبال ہوں یا جوش،پریم چند ہوں یامنٹوسب انسانیت کی بات کرتے ہیں اور انسانی اقدار کو اپنے اپنے رنگ ڈھنگ سے تقویت پہنچاتے ہیں۔ غالب کی شاعری میں انسان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ وہ انسان اور انسانی سماج کے حامی ہیں اور انسان کو انسان بنے رہنے کی صدالگاتے ہیں۔

اقبال کا فلسفہ خودی انسان کو انسان سے متعارف کراتاہے، انسانیت کی منزلوں کو طے کرنے کی تلقین کرتا ہے۔اقبال کا انسان متحرک اور فعال ہے،یہی وجہ ہے کہ اقبال کے انسان کے یہاں مایوسی اور قنوطیت کا گزر نہیں ہے۔اقبال کا انسان شاہین کی طرح پرواز کرنے کانہ صرف حوصلہ رکھتاہے بلکہ دنیا کو بدلنے کا خواہاں بھی ہے۔ان کا ایک شعر ملاحظہ کریں:

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

مولانا الطاف حسین حالی نے شاعری میں اصلاح کی بات کی تو وہ بھی اس لیے ،تاکہ شاعری زیادہ سے زیادہ انسان اور انسانی سماج کی ترقی و تعمیر کے لیے ممدو معاون ثابت ہوسکے۔حالی نے خود بھی ایسی ہی شاعری کی جو انسانی وسماجی قدروں کی آئینہ دار بن گئی۔ اس حوالے سے حالی کی ایک نظم کا بند ملاحظہ فرمائیں

بنے قوم کھانے کمانے کے قابل،

زمانے میں ہو منہ دکھانے کے قابل

تمدن کی مجلس میں آنے کے قابل

خطاب آدمیت کا پانے کے قابل

سمجھنے لگیں اپنے سب نیک و بد وہ

لگیں کرنے آپ اپنی مدد وہ

مولانا محمد حسین آزاد کی نظموں میں بھی انسان کی اخلاقی تربیت کا درس ملتاہے۔انھوں نے اپنی نظموں میں آزاد انسان کو ترقی کی راہ دکھانے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنے اندر اتارنے پر خاص زوردیاہے۔وہ کسی بھی انسان کو کمتر نہیں سمجھتے تھے۔

جوش ملیح آبادی کی شاعری انسانیت کی موثر اور مستحکم آواز ہے۔ جوش شاعر شباب اور شاعرِ انقلاب تو ہیں ہی لیکن وہ شاعر انسان بھی ہیں۔ان کے شعری مجموعے میں سیف وسبو، سرود وخروش، عرش وفرش، الہام وافکار، نجوم وجواہر،فکر ونشاط، جنو ن وحکمت اور شعلہ و شبنم شامل ہیں۔ انسانیت کے حوالے سے جوش کی شاعری کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز انسان سے بالاتر نہیں ہے۔ ان کی نظم ’درس آدمیت‘ دراصل انسانیت کی آواز ہے

کوئی چیز انسان سے بالا نہیں!

ہر اک شے گماں صرف انساں یقیں

مجاز و حقیقت کا شاہ آدمی

کلاہِ سرِ مہر و ماہ آدمی

اردو میں باضابطہ ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد سے ہوتا ہے۔مراۃ العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت، فسانہئ مبتلا اور ایامیٰ ان کے قابل ذ کر ناول ہیں۔نذیر احمد نے ’مراۃ العروس‘ میں دراصل انسان کی اچھائی اور برائی کو اکبری اور اصغری کے توسط سے پیش کیا ہے۔مراۃ العروس میں نذیر احمد نے ایک جگہ لکھا ہے:

”جو آدمی دنیا کے حالات میں کبھی غور نہیں کرتا اس سے زیادہ کوئی احمق نہیں۔غور کرنے کے واسطے دنیا میں ہزاروں طرح کی باتیں ہیں لیکن سب سے عمدہ اور ضروری آدمی کا اپنا حال ہے کہ جس روز پیدا ہوتا ہے، زندگی میں اس کو کیا کیا باتیں پیش آئیں اور کیوں کراس کی حالت بدلی۔“

اردو ناول نگاری میں عبدالحلیم شرر کی بھی ایک الگ شناخت ہے۔انھوں نے تاریخی ناول لکھے اور ان میں بہادر انسانوں کے کارناموں کو پیش کیا۔

پریم چند کے ناولوں میں بھی مرکزی موضوع انسان ہی ہے، مگر انھوں نے دبے کچلے انسانوں کی بات کرکے یہ تاثر دیاہے کہ انسان بلند مقام کا حامل ہے۔پریم چند کے بعد کرشن چندر، بیدی، عزیزاحمد، قرۃ العین حیدرجیسے بہت سے ناول نگاروں کی ایک پوری کہکشاں موجود ہے، جنھوں انسان اور انسانی سماج کے مسائل کو اپنے ناولوں کاموضوع بنایاہے۔

زندگی کو جس طرح سے منٹو نے پیش کیا ہے، وہ دراصل ان ہی کا خاصہ ہے۔ان کے افسانوں میں انسان کا درد سامنے آتاہے۔ان کا انداز اچھوتا ہے اور بلاکی تاثیر رکھتاہے۔تقسیم وطن کے حوالے سے بہت سے افسانے لکھے، اس کے علاوہ سماج میں ہونے والی ناانصافی اور زیادتی کے بارے میں لکھا۔

اردوکے مقبول افسانہ نگاروں کی فہرست میں ایک نام کرشن چندرکا بھی ہے۔ انھوں نے اپنے ناول، افسانے اور ڈرامے میںانسانی زندگی کے پہلوؤں کو ذرا مختلف انداز سے پیش کیاہے۔ان کے افسانوں میں رومان اور حقیقت دونوں کا امتزاج ملتاہے۔

راجندر سنگھ بیدی کے یہاں انسان اورانسانی سماج کا تصور اچھوتے انداز میں سامنے آتاہے۔بیدی اپنے افسانوں کی تخلیق کے لیے سماج کے چھوٹے چھوٹے زندہ جاوید انسانی کرداروں کو نہ صرف پیش کرتے ہیں بلکہ ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔وہ اپنے افسانوں میں فطری انسان کو پیش کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔

اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کانام زیادہ اہم ہے،انھوں نے عورتوں کے مسائل کو زیادہ بیان کیا ہے بالخصوص متوسط مسلم گھرانے کی عورتوں کو اپنے افسانوں میں پیش کیاہے۔ عصمت چغتائی ترقی پسند تحریک سے باضابطہ وابستہ رہی ہیں،اس لیے ان کے افسانوں میں ترقی پسند خیالات کے عناصر بخوبی ملتے ہیں۔پریم چند، اوپندرناتھ اشک، کرشن چندر،منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی کے علاوہ دوسرے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی انسان کا تصور ملتاہے۔گویاکہ ہر ادیب انسان کے اردگرد سے ہی اپنی تخلیقات کامواد فراہم کرتاہے اور انسانی سماج کی تشکیل وتعمیر میں اپنا تعاون پیش کرتاہے۔