کورونا وائرس قیامتِ صغریٰ کا منظر

March 27, 2020

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

دنیا میں وقتاً فوقتاً ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جن سے قیامت کا منظر یاد آجاتا ہے۔ ایک طرف جہاں دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے، وہیں چین کے ووہان شہر سے پھیلا کورونا وبائی مرض مختلف ملکوں میں بھی پہنچ گیا ہے۔ کورونا کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اب دنیا کا ہر فرد اس مہلک بیماری اور اس کی علامات واسباب سے واقف ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مرض پہلے سے موجود تھا ،مگر ابھی تک اس کا کوئی علاج یا ٹیکہ ایجاد نہیں ہوسکا۔ مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج ومعالجہ کے لئے دواؤں اور ٹیکوں کے ایجاد ہونے کے باوجود ایسی نئی بیماریاں سامنے آتی رہتی ہیں، جن کے سامنے ساری دنیاوی طاقتیں زیر ہوجاتی ہیں، جس کی تازہ مثال کورونا وائرس ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں اس بیماری کے خوف نے لوگوں کے چین وآرام کو چھین لیا ہے۔ ہمیں غور وخوض کرنا چاہئے کہ سائنس نے بہت ترقی کی ہے، چنانچہ بعض لوگ چاند پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں مصروف ہیں، بعض ممالک بڑے بڑے میزائل بناکر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے انتظامات کررہے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو ایک گاؤں کے مانند بنانے کی کوشش کی جاری ہے۔ لیکن بعض مہلک بیماریوں کو روکنے کا انتظام پوری دنیا کے سائنس داں مل کر بھی نہیں کرپائے ہیں۔ سائنس داں دنیا کے عجیب وغریب نظام کو دیکھ کر یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ ابھی تو وہ اس دنیا کا بہت تھوڑا حصہ ہی سمجھ سکے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ دنیا کا اتنا بڑا نظام کسی بڑی طاقت کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟ ہر گز نہیں، ہرگز نہیں۔ اس لیے ایسی بیماروں سے عبرت حاصل کریں اور اس پوری کائنات کے خالق، مالک اور رازق کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کی مخلوقات سے یقیناً استفادہ کریں، لیکن اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں، کیونکہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ دنیا کے کسی بڑے ملک کے سربراہ ہونے کے باوجود، دنیا میں سب سے زیادہ دولت رکھنے کے باوجود، دنیا کے بڑے سے بڑا سائنس داں بننے کے باوجود اور دنیا میں بہت زیادہ شہرت حاصل کرنے کے باوجود ہم بھی سارے انسانوں کی طرح ایک دن زمین بوس ہوجائیں گے۔ صحیح معنی میں آج سائنس ترقی حاصل کرنے کے باوجود یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ موت کا مزہ نہ چکھنے کی خواہش رکھنے کے باوجود آخر تمام انسان مر ہی کیوں جاتے ہیں اور وہ کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ اوریہ دنیا آخر کیوں بنی ہے؟ یہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے خالق ومالک ورازق کائنات ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

موجودہ کورونا وائرس کے پھیلنے کے متعلق مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں کہ یہ Biological ہتھیار کا ایک نمونہ ہے جو مستقبل میں ایک طاقت دوسری طاقت کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہے، یا چین میں اقتصادی بحران پیدا کرنے کی امریکہ کی کوشش ہے، یا چین کی کوئی سازش یا خفیہ منصوبہ ہے جس سے دنیا ابھی تک ناواقف ہے، یا واقعی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے؟ مگر مسلمان ہونے کے باعث ہمیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے وبائی امراض کے پھیلنے پر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے مضبوط ہونا چاہئے، لہٰذا ہم گناہوں سے معافی مانگنے کے ساتھ احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہوں۔ سیرت نبویﷺ پڑھنے والے حضرات بخوبی واقف ہیں کہ حالات آنے پر حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابۂ کرام ؓکو اپنے قول وعمل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا پیغام دیا ہے۔ یقینا ًبعض امراض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتے ہیں، اسی لئے کسی وبائی مرض کے پھیلنے پر آخری نبیﷺنے ساری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ وبائی مرض کے پھیلنے کی جگہ جانے سے احتیاط رکھی جائے اور اُس علاقے کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں جانے سے حتیٰ الامکان بچنا چاہئے،لیکن اس یقین کے ساتھ کہ بیماری اور شفا اللہ کے حکم سے ہی ملتی ہے۔

اس موجودہ بیماری کا بظاہر کوئی علاج دستیاب نہیں ہے،اس لئے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے مخالف نہیں ہے۔ مگر ہماری کوئی تدبیر قرآن وحدیث کے واضح حکم کے خلاف نہ ہو۔ یقیناً ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسباب وذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اسباب ووسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا خواہ لڑائی ہو یا کاروبار۔ لہٰذا حسب استطاعت اسباب کا اختیار کرنا چاہئے، لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ پر توکل یعنی بھروسہ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ اختصار کے مد نظر یہاں صرف چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں۔ ’’ تم اُس ذات پر بھروسہ کرو جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی‘‘۔ (سورۃ الفرقان ۵۸) ’’جب تم کسی کام کے کرنے کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو‘‘ (سورۂ آل عمران ۱۵۹) ’’جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے‘‘۔ (سورۃ الطلاق ۳) ’’بے شک ایمان والے وہی ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل نرم پڑجاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ آیات ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال ۳)۔

نبی کریم ﷺ نے بھی متعدد مرتبہ اللہ پر توکل کرنے کی تعلیم دی ہے، فی الحال صرف ایک حدیث پیش ہے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسے توکل کا حق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق عنایت فرماتا، جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔ (ترمذی)

کورونا مرض کو بڑھنے سے روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، اس بیماری کی علامتیں پائے جانے پر فوراً ہسپتال کا رخ کریں اور دوسروں سے حتیٰ الامکان دور رہیں۔ تمام لوگوں کو چاہئے کہ بار بار ہاتھ دھوتے رہیں، خاص کر ہر نماز کے وقت اچھی طرح وضو کریں۔ پانی وافرمقدار میں پینا چاہئے،بے ضرورت اجتماعات سے دور رہیں، مگر یہ بات یاد رکھیں کہ موت کا وقت اور جگہ متعین ہے ،اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنی وسعت کے مطابق اس مرض سے بچنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ نے موت کی اس حقیقت کو بار بار بیان کیا ہے، چار آیات کا ترجمہ پیش ہے: تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔ (سورۃ النساء ۷۸) (اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔ (سورۃ الجمعہ ۸) چنانچہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔ (سورۃ الاعراف ۳۴) اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ زمین کے کس حصے میں اُسے موت آئے گی۔ (سورۃ لقمان ۳۴) ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔

جب ہمارا یہ یقین ہے کہ حالات سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتے ہیں، اور وہی مشکل کشا، حاجت روا، اور صحت دینے والا ہے، لہٰذا ہم دعا کا خاص اہتمام رکھیں ،کیونکہ دعا ایک اہم عبادت بھی ہے۔ ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں اور بیماریوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں، مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے خالق ومالک کے سامنے خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا سے اس بیماری کو دور فرمائے، (آمین)