کووڈ 19کو تاخیر سے جواب پاکستان اور دیگر ممالک کو مہنگا پڑگیا

March 28, 2020

اسلام آباد (طارق بٹ) پاکستان بلاشبہ صوبہ سندھ کے استثناء کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک بشمول انتہائی ترقی یافتہ اور دولتمند اقوام کے درمیان نمایاں نظر آتا ہے جنہوں نے کورونا وائرس کو نہایت سست اور تاخیر سے جواب دیا اور اب سخت مشکل میں گرفتار ہیں۔ فروری کے آخر میں جب مختلف ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں جو خود بھی اس سے قبل اس عالمگیر وباء کو ہلکا لے رہے تھے تو وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اعلان کیا تھا کی پاکستان کورونا سے آزاد ہے۔ یہ مفلوج کردینے والے امکانی بحران کا سامنا کرنے کی تیاری، اعتراف اور احساس کی علامت تھا۔ عین اس وقت جب وہ یہ بیان دے رہے تھے تو پاکستان نے زائرین وصول کرنے کیلئے ایران کے ساتھ اپنی سرحد کھول دی جو کچھ عرصہ قبل پڑوسی ملک گئے تھے۔ واپس آنے والے وہ پہلے افراد تھے جو کووڈ 19 پاکستان لے کر آئے جیسا کہ اس سے پہلے وائرس یہاں نہیں پہنچا تھا۔ اس وقت تک ایران کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوچکا تھا اور ا س سے نمٹنے میں بے بسی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ جوں ہی سندھ نے وائرس سے متاثرہ زائرین کے قافلے وصول کرنے شروع کئے، وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں نے پرسکون رویہ اپناتے ہوئے ابھرتے ہوئے بحران کی دیکھ بھال کیلئے کچھ بھی قابل قدر نہیں کیا۔ بعد میں بے کار کی بحث سامنے آئی کہ آیا لوگوں کو گھر بیٹھنے یا ملک کو لاک ڈاؤن کیا جائے یا نہیں۔ تاہم سندھ حکومت نے ہر لحاظ سے صف اول پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ اس انتشار کی صورتحال کو بڑی حد تک سنبھال لیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کے دیگر حصوں کا لاک ڈاؤن بہت تاخیر سے کیا گیا۔ مجموعی طور پر تیاریاں انتہائی پیچیدہ، سخت رہی ہیں جو متاثرہ افراد پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ کوئی بھی اندازہ کرلے کہ وبائی مرض پاکستان کو کس طرف لے جائے گا اور اس وقت تک کتنی زندگیاں ختم ہوجائیں گی۔ وسائل کی رکاوٹ درحقیقت ایک مسئلہ ہے لیکن فیصلہ سازی کرنے میں نااہلی اور فقدان بہت زیادہ واضح ہے۔ قابل نفرت پہلو یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی ایک صفحے پر نہیں۔ بے قابو کووڈ 19 کی جانب سے دنیا کو مغلوب کرنے اور اس کے طبی نظام کو ناکام بنادینے کے بعد پاکستان اور بہت سے ممالک اب انسانی نقصانات میں کمی کیلئے دوڑ رہے ہیں۔ جہاں سیاسی حکومتیں ہیں وہ انہیں کسی بھی بڑے نقصان سے بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے انہوں نے اس تباہی کی شدت کو بہت دیر سے سمجھا۔