کورونا متاثرہ ممالک کو قرض ادائیگی کیلئے مہلت دینے پر غور

March 29, 2020

اسلام آباد (مہتاب حیدر) کثیر الجہتی قرض خواہ کووڈ 19 وبائی مرض کا سامنا کرنے والے ممالک کو قرض ادا کرنے کی خصوصی مہلت فراہم کرنے کیلئے غور کر رہے ہیں اور اسلام آباد کی امیدیں بڑھ گئی ہیں کہ وہ اپنے غیرملکی قرضے کے کچھ حصے معاف کرانے کے قابل ہوجائے گا۔ یہ کثیر الجہتی ادارے ترجیحی قرض خواہ ہیں جو اپنے قرضوں کو دوبارہ ترتیب نہیں دیتے لیکن غیرمعمولی صورتحال میں غیرمعمولی حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے واجب الادا بیرونی قرضے اور واجبات 111 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں جن میں سے بڑا حصہ کثیر الجہتی قرض خواہوں بشمول آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر سے حاصل کیا گیا ہے۔ پیرس کلب سے دو طرفہ قرضے 10.9 ارب ڈالرز ہیں جنہیں پہلے ہی 2036تک دوبارہ ترتیب دے دیا گیا جبکہ دیگر دوطرفہ واجب الادا قرضے سیف ڈیپازٹس کے طور پر رکھے ہوئے ہیں جیسے کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ اگر دوطرفہ قرض خواہ پیرس کلب کے ذریعے 76 آئی ڈی اے اہل ممالک کو قرضہ ریلیف فراہم کرتے ہیں تو پھر پاکستان بڑے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل نہیں ہوگا کیونکہ اس میں پاکستان کی جانب سے واجب الادا قرضوں کی بڑی مقدار نہیں تھی۔ بین الاقوامی قرض خواہ جیسے کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کم آمدنی والے ممالک کو قرض ریلیف فراہم کرنے کیلئے وسائل کو متحرک کرنے کے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ انتہائی مقروض غریب ممالک (ایچ آئی پی سی) کے نمونے کو استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے کم آمدنی والے منتخب 36 ممالک کو کافی حد تک ریلیف فراہم کیا گیا۔ اب تک 36 ممالک کیلئے ایچ آئی پی سی انیشی ایٹو کے تحت قرض میں کمی کے پیکجز منظور کئے گئے ہیں جن میں سے 30 افریقا میں ہیں، جنہیں بار قرض ریلیف میں 76 ارب ڈالرز فراہم کئے جارہے ہیں۔ تین اضافی ممالک ایچ آئی پی سی انیشی ایٹو مدد کیلئے اہل ہیں۔ تاہم پاکستان اب تک ایچ آئی پی سی بینفشریز میں شامل نہیں۔ اسپیشل سیکریٹری فنانس عمر حامد خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے باضابطہ دوطرفہ قرض خواہوں سے آئی ڈی اے ممالک کیلئے قرض ریلیف پر غور کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر کم آمدنی والے ممالک کو کثیر الجہتی قرض خواہوں کی جانب سے ایسی ہی سہولت پر غور کرنے کی ضرورت تھی جو کورونا وباء کے باعث بے مثل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔