اہل قلم اور لاک ڈاؤن

April 05, 2020

کورونا وائرس نے ہر نسل، مذہب اور مُلک کے عوام کی سماجی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمیاں تبدیل کرکے رکھ دیں۔ لوگوں کی سماجی زندگی میں وہ تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں، جن کا مشاہدہ اِس سے پہلے کم ہی ہوا۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس عالمی آفت سے متاثر ہوا اور ایک دو ماہ میں لوگوں کی زندگیوں کا پیٹرن ہی تبدیل ہو کر رہ گیا۔

خاص طور پرلاک ڈائون کے دَوران تو وہ زندگی، جو چند روز پہلے حرکت پذیر اور ہنگامہ خیز تھی، یک لخت منجمد ہو کر رہ گئی۔ اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیز پہلے ہی بند تھیں۔ پھر سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں پر جمود طاری ہوا، تو زندگی ٹھہر سی گئی۔ لاک ڈائون نے اُنہیں صرف گھروں تک محدود کردیا۔ مُلک کا معاشی محاذ پر جو نقصان ہوا، اُس کے ازالے میں شاید کئی برس لگ جائیں،جب کہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص کو کافی مشکلات اُٹھانی پڑ رہی ہیں۔ بالخصوص دہاڑی دار مزدور اور کم تن خواہوں والا سفید پوش طبقہ ناقابلِ بیان پریشانیوں سے دوچار ہے۔

لاک ڈائون نے تقریباً ہر فرد کی زندگی اور معمولات بدل ڈالے۔ صبح سویرے تیار ہو کر دفتر، کاروبار، تعلیمی اداروں، شاپنگ پلازوں، دُکانوں، کارخانوں اور محنت مزدوری کے لیے نکلنے والوں کے لیے بلاشبہ یہ سخت آزمائش کا وقت ہے۔ گھر کا صدر دروازہ جو رشتے داروں، دوستوں، کام کرنے والیوں اور دوسروں کے لیے کُھلا رہتا تھا، بند ہوگیا۔

لوگ گھروں میں محصور ہوئے، تو اُنھوں نے اپنے اپنے مزاج اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کی۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ لاک ڈائون کے دَوران ادیب، دانش وَر، کالم نگار اور سینئر صحافی اپنے شب و روز کیسے گزارتے ہیں اور اُنہوں نے خود کو بدلتے ہوئے حالات سے کیسے ہم آہنگ کیا۔ ہم نے اُن سے یہ بھی پوچھا کہ اِس قسم کی آفات اور وبائوں میں انسان کے لیے کیا سبق پوشیدہ ہے۔

ڈراما نگار اور شاعر، امجد اسلام امجد نے بتایا’’ جہاں تک لاک ڈائون کے دَوران مصروفیات کا تعلق ہے، اہلِ قلم ظاہر ہے لکھنے پڑھنے کے علاوہ اور کیا کام کرسکتے ہیں۔ مَیں مصروفیت کے باعث جو کتابیں نہیں پڑھ سکا تھا، وہ آج کل پڑھ رہا ہوں، تھوڑا بہت لکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ اہلیہ کے ساتھ بھی پہلے سے زیادہ وقت گزر رہا ہے۔ پورا دن بچّوں، پوتے ، پوتیوں کی خیر خیریت دریافت کرنے میں گزر جاتا ہے۔

جہاں تک سبق سیکھنے کی بات ہے، تو اس ضمن میں میرا کہنا ہے کہ انسان اپنی ٹیکنالوجی، عقل اور ترقّی پر جتنا فخر کیا کرتا تھا، اُسے ایک کیڑے نے جو دِکھائی بھی نہیں دیتا، خاک میں ملا دیا۔ اس نے بڑی بڑی طاقتوں کے غرور اور کرّوفر کو نیچا دِکھا دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم نے گوروں، کالوں، غریبوں اور امیروں کے درمیان جو فاصلے پیدا کر رکھے تھے کہ طاقت وَر اوپر اور کم زور نیچے تھا، وہ فاصلے بھی مِٹ گئے۔ یہ وائرس اونچی اونچی فصیلوں کے درمیان محلّات میں بھی پہنچ گیا۔ کورونا نے ثابت کردیا کہ اللہ نے سب کو برابر پیدا کیا ہے اور رتبے کا معیار دنیاوی طاقت نہیں، بلکہ علم اور اخلاق کی طاقت ہے۔‘‘

معروف مزاح نگار اور کالم نویس، عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں ’’پنجابی میں آپ نے سُنا ہوگا کہ ’’ویہلا بندہ سب تُوں زیادہ مصروف‘‘ یعنی بے کار شخص سب سے زیادہ مصروف رہتا ہے، یہی حال آج کل اکثر لوگوں کا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، چوں کہ 50، 60 سال سے مسلسل لکھنے کی عادت ہے، اس لیے ایسا شخص گھر میں بے کار تو بیٹھ نہیں سکتا، حتیٰ کہ آج کل وہ کالم بھی پڑھ لیتا ہوں، جو کبھی نہیں پڑھے تھے۔ میرے خیال میں یہ بہت قیمتی وقت ہے، اسے زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانا چاہیے، لیکن اس میں ایک پرابلم، جسے مَیں بہت مِس کرتا ہوں، یہ ہے کہ میری پوتیاں جو میرے گھر میں اوپر والی منزل پر رہتی ہیں، مَیں اُنہیں گلے لگا کر پیار بھی نہیں کرسکتا۔ بس دُور دُور سے فلائنگ کِس کرلیتا ہوں، جس پر میرے دِل میں چُھریاں چلتی ہیں۔ مَیں یہ تو قطعی نہیں کہوں گا کہ مجھے گھر رہنے میں مزا آ رہا ہے، مگر گھر والے، گھر سے باہر بھی نہیں جانے دیتے کہ باہر پولیس والا بھی کھڑا ہوتا ہے۔

اللہ کرے، یہ دن جلدی ختم ہوں۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، سچّی بات یہ ہے کہ سیکھنے والی بہت سی باتیں ہیں۔ مَیں نے جو سیکھا ہے، وہ یہی ہے کہ چاہے وہ فرد ہو یا قوم یا مُلک، جتنا بھی طاقت وَر ہو، اسے اپنی طاقت پر غرور نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ سب کچھ سیکنڈز کے اندر ملیا میٹ ہو سکتا ہے، کوئی چیز ایسی نہیں، جسے فنا نہ ہو، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے دِکھا دیا کہ وہ ممالک جن کے پاس سائنس کا علم سب سے زیادہ ہے، وہاں بھی سڑکیں لاشوں سے بَھری پڑی ہیں یا سنسان ہیں۔

لیکن بہرحال یہ ترقّی یافتہ اور ہم جیسی پس ماندہ قوموں کے لیے سبق ہے کہ ہم سائنس اور علم کی طرف زیادہ توجّہ دیں۔ ہم میں سے جو طاقت وَر لوگ ہیں، اُن کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ اکڑنا چھوڑ دیں۔ بڑی طاقتوں کو جان لینا چاہیے کہ اُن سے بھی ایک بڑی اعلیٰ اور طاقت وَر قوّت موجود ہے، جو آناً فاناً ان کا غرور خاک میں ملا سکتی ہے۔‘‘

سینئر صحافی اور اینکر پرسن، سہیل وڑائچ کا کہنا ہے’’ عام حالات میں تو زندگی اتنی مصروف، ہنگامہ خیز اور افراتفری کا شکار ہوتی ہے کہ فرصت کے لمحات نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب جو لاک ڈائون کے دَوران فرصت کے شب و روز میّسر آئے، تو مَیں نے اس کے بہترین استعمال کا فیصلہ کیا۔ لکھنا پڑھنا تو تمام زندگی میرا اوڑھنا بچھونا رہا ہے، مطالعہ پسندیدہ مشغلہ ہے، جو بے حد مصروفیت کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ ان دنوں میں نے بعض ایسی کُتب اور ناولز پڑھے، جنہیں ایک عرصے سے پڑھنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ، مَیں نے اپنی نئی آنے والی دو تین کتابوں کے مسوّدوں پر نظرِثانی کی اور اُنھیں حتمی شکل دی۔ مرزا غالب پر لکھی گئی ایک انگریزی کتاب کا مطالعہ کیا۔ اپنے پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ ‘‘ پر مبنی کتاب پر آخری نظر بھی ڈالی۔

ٹی وی دیکھنا اور تبصرے کرنا بھی معمولات میں شامل رہا۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ اس قسم کی آفاتِ ارضی و سماوی اور وبائوں سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ تو بات بالکل واضح ہے، اس قسم کی آفات انسان کو یہ یاد دِلاتی ہیں کہ اُس کی حیثیت ایک بلبلے کی مانند ہے۔ آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں، خدانخواستہ کسی وجہ سے یہ مرض لاحق ہوتا ہے، تو یہ آپ کو یاد دِلاتا ہے کہ زندگی کتنی ناپائیدار ہے اور چاہے دولت مند اور اشرافیہ کتنی ہی مستحکم فصیلوں کے اندر بنے ہوئے محلّات میں بظاہر محفوظ ہوں، لیکن ان کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں۔اس سے انسان کو یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ تکبّر، غرور اور زمین پر اکڑ کر چلنا، اُسے ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتا۔ اسے ہمیشہ عاجزی، انکساری اور انسان دوستی پر عمل کرنا چاہیے۔

تاریخ اُٹھا کر دیکھیں، کتنے نمرود اور فرعون اپنے شاہی محلّات سمیت ملیامیٹ ہوگئے، تو پھر یہ غرور، تکبّر اور اکڑ کیسی، جب کہ اس نے بالآخر مٹّی میں جا ملنا ہے۔ اس قسم کے واقعات انسان میں تکبّر پیدا نہیں ہونے دیتے۔ ہمیں کسی کی بددُعا نہیں لینی چاہیے۔ ہر ایک کے ساتھ جہاں تک ہو سکے، بھلائی کرنی چاہیے، کیوں کہ اس دنیا سے جانے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔ میری دُعا ہے کہ کاش انسان اس قسم کی آفات اور عذابوں سے سبق بھی سیکھیں اور قدرت نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں، اُن کا بھی شُکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُس وقت یا د آتا ہے، جب وہ آزمائش میں پڑتا ہے، حالاں کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔‘‘

کئی شعری مجموعوں کے خالق اور سابق بیوروکریٹ، کیپٹن(ریٹائرڈ) عطا محمّد خان کہتے ہیں’’ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، مَیں اس میں سے خیر کا پہلو تلاش کرتا ہوں۔ لاک ڈائون نے اہلِ خانہ کو اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مجھے 40سال تک گورنمنٹ سروس کے ایک اعلیٰ ترین ملازم کی حیثیت سے کبھی بیوی بچّوں کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا تھا۔اب مشکل حالات میں یہ موقع مل گیا ہے۔ آج کل بچّوں کے ساتھ مل کر توبہ استغفار کرتا ہوں۔بچّوں کو بھی پتا چل گیا ہے کہ نصف ایمان، صفائی کتنی ضروری ہے۔

نمازوں سے فراغت کے بعد بیوی گھر کے کام کاج اور مَیں باغ بانی کرتا ہوں، کیوں کہ گھریلو ملازمین کی چُھٹی کی وجہ سے خواتینِ خانہ کو صفائی ستھرائی اور برتن خود دھونے پڑ رہے ہیں۔اِن دنوں کورونا کے حوالے سے ٹونے ٹوٹکوں کا بھی سیلاب آیا ہوا ہے، مَیں دوستوں سے یہی کہتا ہوں کہ ان سے اجتناب کریں۔ میری شاعری بکھری ہوئی تھی، فرصت کے ان لمحات میں اسے اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جہاں تک اس قسم کی آفات سے سبق کا تعلق ہے،تو ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ان تباہ کُن حالات کا ذمّے دار خود انسان ہے۔جہاں سے یہ بیماری شروع ہوئی ہے، اُن لوگوں کی غذائی عادات دیکھیں۔ مغربی دنیا میں بظاہر صاف ستھرے لوگ اپنی باطنی اور داخلی زندگی میں اتنے صاف نہیں ہوتے۔

ہم نے اپنی آسائشوں کے لیے کرّۂ ارض کی حفاظتی تہہ خود تباہ کر دی ہے۔ دنیا میں اتنا اسلحہ اور زہریلی گیسیز تیار ہو رہی ہیں کہ پورا کرّۂ ارض اس وقت ایک ٹائم بم کے دہانے پر ہے۔غرض یہ مصیبت انسان کے اپنے ہاتھوں سے لائی ہوئی ہے اور میرا خیال ہے آخر کار انسان سبق سیکھ کر خود ہی راہِ راست پر آئے گا۔‘‘.

معروف ادیب، شاعر اور مجلس ترقّی ادب، لاہور کے ڈائریکٹر، پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی کہتے ہیں’’کورونا وائرس کے عالمی آشوب کے باعث پاکستان میں بھی جو اجتماعی تدابیر اختیار کی گئیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں تک محدود رہیں، اس بندش کے نتیجے میں، مَیں بھی خانہ نشین ہوگیا ہوں۔ خوش قسمتی سے میری ذاتی لائبریری میں مختلف علوم پر کئی قابلِ ذکر کُتب ہیں، جن سے آج کل استفادہ کرتا رہتا ہوں۔

مَیں نے اِنہی دنوں میں وقت گزارنے کے لیے مشہور کتب، سفر ناموں اور کانفرنس ناموں کی کہانیوں کے اُردو ترجمے کا مشغلہ بھی اپنایا ہے۔ ان میں ایران کے ممتاز ادیب، مہدی یزدی کی اسکول کے بچّوں کے لیے جدید فارسی محاورے میں’’ اچھے بچّوں کے لیے اچھی کہانیاں‘‘ بھی ہے، جو’’قصّہ ہائے خُوب برائے بچّہ ہائے خُوب‘‘ کے زیرِ عنوان ایران سے شائع ہوئیں۔

اگلے ڈیڑھ ہفتے میں ان تمام کہانیوں کا ترجمہ کرلوں گا۔ اسی طرح مَیں نے اپنے کئی رکے ہوئے علمی کاموں کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ اس پریشان کُن عالمی صُورتِ حال میں آپ کا گھر ہی آپ کی پناہ گاہ ہے۔ بڑے ادیبوں کی بڑی ناقابلِ فراموش تخلیقات ان کے قید و بند کے زمانے میں وجود میں آئیں ، کچھ بعید نہیں کہ اس وبائی مرض سے پیدا شدہ بندش کے نتیجے میں گھروں میں محصور لکھنے والوں کے قلم سے ادب کا ایک قابلِ قدر ذخیرہ وجود میں آ جائے، جو عہدِ حاضر کی افراتفری کے باعث ان اہلِ قلم کے لیے ممکن نہیں تھا۔

رہا یہ سوال کہ اس پُرآشوب عالمی وبا سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے؟ تو میرا کہنا ہے کہ تاریخِ انسانی میں ایسے بحران ہی نئی سوچوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا ایک بے حرکتی یعنی STAND STILL سے دو چار ہے۔ وقت آگیا ہے کہ انسان ایسے تصوّرات پر نظرِ ثانی کرے، جن میں بظاہر بڑی چمک دمک ہے، مگر فی الواقع تہذیبوں اور ثقافتوں کے لیے پیغامِ مرگ ہے۔ جدید سائنس کی ترقّی اپنی جگہ، مگر اس مادر پدر آزاد سائنس اور ٹیکنالوجی نے خود اس کائنات اور اس میں بسنے والے انسان کے وجود اور بقا پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔‘‘

معروف ناول نگار، ادیب اور اکادمی ادبیات پاکستان، لاہور کے ڈائریکٹر، محمّد عاصم بٹ کہتے ہیں’’اپنی مصروفیات کا ذکر کرنے سے پہلے اس وبا سے سبق سیکھنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کارخانۂ قدرت میں جہاں انسان کے ہر کام کا اس کی نوعیت کے اعتبار سے جلد یا بدیر نتیجہ مرتّب ہوتا ہے، وہاں اقوامِ عالم بھی اسی امتحان سے گزرتی ہیں۔ قدیم اقوام پر جتنے بھی عذاب آئے، وہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے نازل ہوئے اور قرآنِ حکیم میں ان کے کرتوتوں کی واضح طور پر نشان دہی بھی کی گئی ہے۔

اگر آپ عہدِ حاضر کے انسان کا جائز لیں، تو پتا چلے گا کہ جان لیوا کیمیکلز اور تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری، مہلک گیسیز سے فضائی آلودگی اور فطرت سے قطع تعلق۔ ان سب عوامل نے کرّۂ ارض کو’’ Self Destruction ‘‘کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اس کا خمیازہ اس وقت پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ یہ صُورتِ حال پوری دنیا کے دانش وَروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

ہمیں بہرحال فطرت سے قریب تر ہونا ہوگا۔ جہاں تک لاک ڈائون کے دَوران مصروفیات کا تعلق ہے، کئی معروف کتابیں میرے پاس تھیں، لیکن پڑھنے کے لیے وقت نہیں ملتا تھا۔ اب ان کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ ان میں جرمنی کے نوبل انعام یافتہ ادیب، گنٹر گراس کا ناول ’’ٹن ڈرم‘‘ بھی شامل ہے۔ غالب کی انتخاب نثر اُردو بھی زیرِ مطالعہ ہے۔ آج کل مَیں خود ایک نئے ناول پر کام کر رہا ہوں، جس کا موضوع بھی بلواسطہ اور بلا واسطہ کورونا سے ملتا ہے۔ ناول کا آئیڈیا یہ ہے کہ انسان فطرت سے جو ناانصافیاں کر رہا ہے، درخت کاٹ کر اور ماحولیاتی آلودگی پھیلا کر، تو پھر قدرت کس طرح اپنا ردّ عمل ظاہر کرتی ہے، اگر آپ فطرت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کریں گے، تو وہ بچاؤ کے لیے ہاتھ پائوں تو مارے گی اور ہو سکتا ہے زخمی بھی کر دے۔‘‘

25کتابوں کے مصنّف، معروف سماجی کارکن اور چیف گلسٹر کسٹمز (نارتھ)، ڈاکٹر محمّد آصف جاہ کہتے ہیں’’میری طرح ضروری سروسز کے دیگر اعلیٰ سرکاری افسران کو ان حالات میں اپنے فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے فرصت کے وہ لمحات میّسر نہیں، جو دوسروں کو ہیں۔ہماری رفاہی تنظیم کے رضاکار ان دنوں مُلک بھر کے 43سینٹرز کے ذریعے دہاڑی دار اور مستحق لوگوں کو راشن پہنچا رہے ہیں۔ گھر گھر جاکر مستحق لوگوں کی فہرستیں مرتّب کرتے ہیں اور آگاہی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ نیز، مَیں خود بھی ٹی وی پر آگاہی مہم کے تحت لیکچر دیتا ہوں۔ کورونا وائرس نے مُلک بھر کی سڑکیں ویران کر دی ہیں، اس پر دو شعر ذہن میں آ رہے ہیں ؎کیا عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی…بقائے شہر اب شہر کے اجڑنے میں ہے۔‘‘اور یہ کہ؎’’زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں…کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا ’’ جہاں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتیں اس کے رحیم و کریم ہونےکی دلیل ہیں، وہاں اس طرح کی آفتیں اس کے جبّار و قہار ہونے کا پتا دیتی ہیں۔ سزا اور جزا، ایک عظیم ذاتِ باری تعالیٰ کی نشان دہی کرتی ہے۔ نہ جانے کتنی اقوام اب تک اپنی خرابیوں کے باعث صفحۂ ہستی سے معدوم ہو گئیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ قوموں کو ان کے کیے کی سزا جلد یا بدیر مل کر رہتی ہے۔ انسان یوں تو اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا ہے۔ فرعونوں کی مثال ہمارے سامنے ہے، لیکن یہ آفات انسان کو یاد دِلاتی ہیں کہ اس کی اوقات کیا ہے۔

جس طرح کورونا وائرس نے بتا دیا ہے کہ انسان کتنی ہی ترقّی کیوں نہ کر لے، ایٹم بم کیوں نہ ایجاد کر لے، مگر صرف خردبین سے نظر آنے والا ایک چھوٹا سا وائرس پوری دنیا ہلا کر رکھ سکتا ہے۔ اب تو ترقّی یافتہ ممالک بھی’’آسمان والے‘‘ کی طرف رجوع کر رہے ہیں، جیسا کہ اٹلی کے وزیرِ اعظم نے کہا’’ہم نے سب کچھ کر لیا ہے۔ اب آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا ہے۔ چناں چہ اس وقت حفاظتی تدابیر کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا وقت ہے۔ عوام صدقات، خیرات دیں۔ صدقہ بلائوں کو ٹالتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، کوئی بے روز گار، دیہاڑی دار یا مستحق نظر آئے، تو اس کی مدد کریں۔ رمضان المبارک میں ابھی دیر ہے، لیکن لوگ اس وقت بھی زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں کہ یہ ہنگامی حالت ہے۔ اگر آپ کو اللہ نے دیا ہے، تو مستحق لوگوں کی مدد، انسانیت کی بہترین خدمت ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا اجر مصیبتوں کو ٹال کر دے گا۔‘‘

کالم نگار، یاسر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ’’ پہلے سوال کا جواب تو واضح ہے، لکھنے پڑھنے والے لوگوں کو جب بھی تنہائی یا فرصت ملتی ہے، تو وہ پسندیدہ کتب پڑھتے ہیں۔ پسند کی ڈاکیو منٹریز یا کلاسیک فلمز دیکھتے ہیں۔ بیوی بچّوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، کیوں کہ عام حالات میں اپنی پیشہ ورانہ مجبوریوں کے سبب وہ اُنہیں مناسب وقت نہیں دے پاتے۔ ہر شخص اپنے ذہنی رجحان کے مطابق مصروفیات ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ مَیں انٹرنیٹ پر کورونا مرض کے بارے میں مستند معلومات بھی تلاش کرتا ہوں، لیکن مَیں آپ کے دوسرے سوال میں زیادہ دِل چسپی رکھتا ہوں۔اس قسم کی آفت میں ہمارے لیے دو تین سبق پوشیدہ ہیں۔ایک تو یہ کہ اس وقت دنیا جس طریقے سے چلائی جا رہی ہے، وہ مزید اس طرح نہیں چلائی جا سکتی۔

یعنی ایک طرف تو محلّات اور عظیم الشان بنگلوں میں لوگ جو خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور دوسری طرف، اس صاحبِ ثروت کمیونٹی سے باہر ننگ دھڑنگ، بھوک اور افلاس میں ایڑیاں رگڑتے لوگ ہیں۔ اس قسم کی دنیا جو طبقات میں بَٹی ہو، اب مزید نہیں چل سکتی۔ دنیا کو بالآخر انسانی مساوات کی طرف آنا پڑے گا۔ جب ارب پتی لوگوں کو بھی عملاً محسوس ہو گا کہ محض دولت اور آسائشیں زندگی کی گارنٹی نہیں دے سکتیں۔اب دنیا کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ گلوبل ہائی وے معاشی مشکلات کا حل نہیں، بلکہ ملکوں کو مقامی انڈسٹریز کو ترقّی دے کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ گلوبلائزیشن، ہماری معیشت کا حل نہیں ہے، یعنی پراجیکٹ اپنے طور پر اتنا خودکفیل ہو کہ اسے دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑے۔کورونا کے سلسلے میں آپ نے دیکھ لیا کہ ہم دوسروں کے کتنے محتاج ہیں۔دوسری بات جو مَیں محسوس کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس وبا میں عالمِ اسلام کی پس ماندگی کُھل کر سامنے آگئی۔

اِس وقت دنیا بھر میں کورونا کی ویکسین تیار کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں۔مگر عالمِ اسلام میں کوئی تحقیق اور جستجو نظر نہیں آتی۔ اس کا حل محض یونی ورسٹیز قائم کرنا نہیں، بلکہ عوام کے اندر شعور و آگہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں ہر قسم کا سوال اُٹھانے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘