کووڈ 19: دنیا بند، مگر اُمید کے دروازے کُھلے ہیں

April 05, 2020

دنیا کی تقریباً نصف آبادی، یعنی ساڑھے تین ارب افراد، گھروں میں بند ہیں۔ حکومتیں اپنے شہریوں سے سماجی تعلقات محدود کرنے کی پُرزور اپیلیں کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ضروری کاروباری سرگرمیاں بھی بند کردی گئی ہیں۔ اِن دنوں’’سوشل ڈسٹینسنگ‘‘ یعنی’’ سماجی دُوری‘‘ دنیا کا مقبول ترین جملہ بن چُکا ہے۔ ظاہر ہے، اگر ساڑھے تین ارب افراد ہفتوں گھروں میں مقید رہیں، تو اُس کے سنگین معاشی، اقتصادی اور معاشرتی اثرات بھی سامنے آئیں گے اور آ رہے ہیں۔اِسی لیے حکومتیں عوام اور صنعتوں کے لیے اربوں ڈالرز کے امدادی پیکیجز کے اعلانات کر رہی ہیں۔ماہرین اس صُورتِ حال کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی جنگ قرار دے رہے ہیں۔ اِن دونوں میں فرق محض اِتنا ہے کہ اُس جنگ میں آدمی، آدمی کے خلاف لڑ رہا تھا، جب کہ اِس جنگ میں ساری انسانیت ایک وائرس،’’ کورونا وائرس‘‘ کے خلاف صف آرا ہے۔

اُس عالمی جنگ میں ایک دوسرے کو مارنے پر زور تھا اور اِس جنگ میں انسانوں کو بچانا مقصود ہے۔ محاذِ جنگ کی فرنٹ لائن پر مسلّح فوجی دستوں کی بجائے ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ ہے، جو جان کی پروا کیے بغیر رات دن، بلاتفریق رنگ ونسل انسانوں کی زندگی بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔تاہم، مشکل یہ ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے یہ دشمن وائرس، مریض کے ساتھ ڈاکٹر پر بھی حملہ آور ہو جاتا ہے، اِس لیے مسیحاوں کو جہاں مریضوں کی جان بچانی ہے، وہیں اپنی بھی حفاظت کرنی ہے کہ یہ فرنٹ لائن ٹوٹنے نہ پائے۔ اِسی محاذ پر وہ سائنس دان اور تحقیق کرنے والے بھی ہیں، جو کورونا وائرس کا علاج دریافت کرنے کی تگ ودَو میں مصروف ہیں۔

پاکستان بھی اِس عالمی آفت اور وبائی مرض کی لپیٹ میں ہے اور مُلک بھر میں لاک ڈائون ہے۔ دراصل، اِس وبا کو محدود کرنے کے لیے تادمِ تحریر لاک ڈائون سے بہتر کوئی تدبیر سامنے نہیں آئی، اِسی لیے چاہتے، نہ چاہتے شہریوں کی آمدورفت محدود کرنی پڑ رہی ہے۔نیز، لاک ڈاؤن کے معاملے میں اِس لیے بھی سختی کی جاتی ہے کہ اِس وبا کا مقابلہ ڈٹ کر ہی کیا جا سکتا ہے، وگرنہ نیم دِلانہ کوشش، کچھ احتیاط، کچھ لاپروائی جیسے رویّے تو زیادہ نقصان اور مایوسی کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے صوبہ سندھ میں لاک ڈائون ہوا۔ پھر پنجاب، خیبر پختون خوا، بلوچستان ، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں شہریوں کی نقل وحرکت پر پابندیاں عائد کی گئیں۔

تاہم، یہ وقت اِس بحث میں پڑنے کا نہیں کہ کس نے پہل کر کے اچھا کیا اور کس نے دیر کر کے وقت گنوایا۔ لاک ڈائون ہوچُکا اور اب عوام کو ہر صُورت اس پر عمل کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے، تو اُنھیں ایسا کرنے پر بزورِ قوّت مجبور کیا جا سکتا ہے، جس سے اُنھیں بعض پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔کیوں کہ یہ کسی کی انفرادی آزادی کا معاملہ نہیں، بلکہ اجتماعی تحفّظ کا مسئلہ اور مُلک وقوم کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اب تک ہر خاص و عام کو پتا چُل چکا ہے کہ لاک ڈائون اور کرفیو میں کیا فرق ہے؟ اور یہ بھی کہ اِس طرح کے حالات میں کس طرح زندگی گزاری جاتی ہے۔کہتے ہیں’’ ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘، سو ضرورت پڑنے پر انسان خود کو کچھ اِس طرح ڈھال لیتا ہے، جس میں معمول سے ہٹ کر چیزیں بھی برداشت کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ پھر معاملہ کسی غیر کا نہیں، خود اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی جان بچانے کاہو، تو مشکلات زیادہ خندہ پیشانی سے برداشت کی جاسکتی ہیں۔

کیا کوئی اپنے لاابالی پن یا غیر ذمّے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھائی بہنوں، بیوی بچّوں، والدین یا دیگر رشتے داروں کی زندگی کا سودا کرسکتا ہے؟معروف معالج، ڈاکٹر سعید نے درست کہا’’ ہم ایک اچھی قوم ہیں، لیکن ہمارے رویّے اکثر بہادری کے نام پر لاپروائی یا غیر ذمّے داری کا رُوپ دھار لیتے ہیں۔‘‘پھر یہ کہ اگر معاملہ انسانی جان کے تحفّظ کا ہو، تب تو بزورِ قوّت بھی احکامات پر عمل درآمد کروانا ضروری ہے، تاہم اچھی بات یہ رہی کہ عوام کی بڑی تعداد نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈائون کی صُورت میں پابندیوں کو خوش دِلی سے قبول کیا۔گھروں پر ٹھہرے ہوئے ہیں، نئی مصروفیات ڈھونڈیں اور صرف اپنے خاندان ہی کو نہیں، آس پڑوس کو بھی حکومتی ہدایات پر سختی سے عمل پر راضی کیا۔ درحقیقت، لاک ڈائون کے سارے دن، قومی دن ہیں کہ اِس عرصے میں وطن کی حفاظت گھر پر رہنے ہی میں ہے۔عام طور پر جنگ یا کس قومی آزامائش کے وقت پوچھا جاتا ہے کہ’’ ہم اِس موقعے پر کیا کر سکتے ہیں؟‘‘تو اِس عالمی آفت سے نمٹنے کے لیے گھروں پر بیٹھنا ہی مُلک کی خدمت ہے۔

چین نے کورونا وائرس سے متاثرہ شہروں کا لاک ڈائون کیا اور بڑے مؤثر انداز میں اِس وبا سے نمٹ کر مثال قائم کی۔ اسی ماڈل کو جنوبی کوریا، جاپان اور مشرقِ بعید کے کئی دیگر مُمالک نے بھی کام یابی سے اپنایا۔دوسری طرف، یورپ اور امریکا ہے، جہاں شخصی آزادی اور جمہوری روایات کے مضبوط تصوّرات عوامی سرگرمیوں کو محدود کرنے میں رکاوٹ بنے۔ اسی لیے اٹلی کورونا وائرس کے تباہ کاری کی ایک بدترین مثال بن کر سامنے آیا۔ وہاں کی حکومت اور عوام خود اپنی لاپروائیوں اور ضروری اقدامات میں تاخیر پر افسوس کر رہے ہیں،لیکن یہ افسوس اب ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب وہ یورپ اور برطانیہ میں وبا پھیلا کر اسے عالمی وبا بنا چُکے ہیں۔ پورے یورپ کی سرحدیں بند ہیں اور ہوائی جہاز کھڑے کر دئیے گئے ہیں۔ اقتصادی بحران سَر اُٹھا چُکا ہے، تو دوسری طرف اُنھیں اربوں ڈالرز کے امدادی پیکیجز دینے پڑ رہے ہیں۔

یورپ کے لیے یہ غور وفکر کا بھی مقام ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اِس طرح کے بحران یورپ میں اِس قدر شدّت کیوں اختیار کر جاتے ہیں۔ چھوٹی سی جنگ شروع ہوئی، تو وہ جنگِ عظیم بن گئی۔ سَرد جنگ ہوئی، تو ہر سُو وہی نظر آنے لگی۔ وہاں دہشت گردی بڑھی، تو عالمی مسئلہ بن گئی۔ مہاجرین کا ایشو اُٹھا، تو قوم پرستی لَوٹ آئی۔ یورپ میں اقتصادی بحران آیا، تو دنیا ہل کر رہ گئی۔اور اب وہاں کورونا وائرس پہنچا، تو عالمی وبا بن گیا۔اِس مرحلے پر مسلم دنیا کا جائزہ لیا جائے، تو مسلم مُمالک کا کورونا وائرس پر ریسپانس یورپ کے مقابلے میں تیز اور مؤثر نظر آتا ہے، حالاں کہ وہاں جمہوریت کی بجائے بادشاہتیں ہیں۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے جس تیزی سے مذہبی اور معاشرتی معاملات پر ایکشن لیا، وہ دنیا کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔

اِس پر کچھ بھی کہا جائے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ اُنہوں نے انسانی جان کو سب سے محترم سمجھا، جو ہردین اور نظریے کی رُوح ہے۔جب کہ جہاں جمہوری نظام ہیں، وہاں کی حکومتیں مختلف وجوہ کی بنا پر تذبذب کا شکار رہیں۔ کورونا کی صُورت میں عالمی وبا کے پھیلاؤ نے ایک بار پھر مذہب اور سائنس کی بحث چھیڑ دی ہے۔گو کہ ہر طبقۂ فکر کا اِس اَمر پر اتفاق ہے کہ کورونا وائرس کے سدّ ِباب کے لیے برق رفتاری، یک سوئی اور قومی یک جہتی سے ہرممکن ایکشن لیا جائے۔تاہم، صدیوں سے چلے آ رہے مخصوص مائنڈ سیٹ اِس مرحلے پر کنفیوز ہیں۔ وہ سخت اقدامات کے تو حامی ہیں، لیکن اِس کے لیے طرح طرح کی شرائط بھی عاید کرتے ہیں۔ اس وجہ سے حکومتوں کو کئی معاملات پر عمل درآمد کروانے میں دشواری ہو رہی ہے اور معاملات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اِسی لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر تباہی کے بعد کوئی قدم اُٹھایا گیا، تو اُس کا کیا فائدہ ہوگا؟

ایران نے اِس معاملے میں دیر کی اور اُس کا جو نتیجہ نکلا، شاید وہ اب کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ مسلم دنیا کے علماء کو غور کرنا چاہیے کہ وہ ایک عالمی وبا کے موقعے پر بھی اُمّتِ مسلمہ کو واضح رہ نُمائی کیوں نہیں دے پا رہے؟ ایسی وبا، جو اُن کے گھروں، محلوں اور شہروں کو تہس نہس کر رہی ہے۔ عظیم قومیں وعظ، دعوے اور نصیحتیں کم، عمل زیادہ کرتی ہیں۔جہاں لاک ڈائون کورونا سے نمٹنے کا وقت بھی مہیا کرتا ہے، وہیں غریب، ضرورت مند اور دیہاڑی دار طبقے کی مدد بھی ایک چیلنج ہے۔ اُن کی مدد کسی مالی پیکیج، راشن، اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی اور مفت علاج کی شکل میں کی جاسکتی ہے۔

یقیناً پاکستان جیسے کم زور معیشت کے حامل مُلک کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش ہے، لیکن کوئی بھی آزمائش انسانی جان سے بڑھ کر نہیں۔لاک ڈائون وہ وقت فراہم کرتا ہے، جس میں ایک تو کورونا وائرس کے پھیلائو کو کم کیا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف، اُن وسائل کو یک جا اور منظّم کرنے کی بھی مہلت مل جاتی ہے، جن سے اِس وبا کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ طریقہ چین، جنوبی کوریا، جاپان، برطانیہ اور امریکا وغیرہ میں کام یاب ہے،ہم نے بھی اس ماڈل کو اپنا کر بہت اچھا کیا۔ ماہرین اور ڈاکٹرز سب ہی متفّق ہیں کہ اِس معاملے میں جتنی بھی سختی کرنی پڑے، کر گزریں،کیوں کہ تذبذب مشکلات کو جنم دے گا۔

دنیا میں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آگے بند باندھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، تو علاج پر بھی بھرپور کام ہو رہا ہے۔اِس حوالے سے جلد ہی بریک تھرو کی توقّع ہے، کیوں کہ آج میڈیکل سائنس کے پاس موذی مرض سے چھٹکارے کی ویکسین بنانے اور علاج دریافت کرنے کی جتنی صلاحیت ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔اگر لاک ڈائون سے یہ وقت مل جاتا ہے، تو یہ ڈاکٹرز اور سائینس دانوں کےلیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔ اِس مرحلے پر یہ بھی ضرروی ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ سہولتیں دی جائیں اور اُن کی حفاظت کو ہر صُورت مقدّم رکھا جائے۔ 27 مارچ کو عوامی سطح پر ان مسیحائوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔اِس موقعے پر’’ ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ جیسے سلوگنز ان مسیحاؤں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔قوم کو اپنے اِن ہیروز کو سلامِ عقیدت پیش کرنا چاہیے، جو اِس خوف ناک بیماری کے خلاف ایک ڈھال بن کر کھڑے ہیں۔

تاہم، تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ ترین سطح پر ان ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی اَن تھک محنت کا اُس طریقے سے اعتراف نہیں کیا جارہا، جیسے باقی دنیا کر رہی ہے۔یقیناً یہ ڈاکٹرز اِن دنوں جہاد میں مصروف ہیں۔ صدر، وزیرِ اعظم اور خاص طور پر عوامی سطح پر ان کے کام کا اعتراف اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ لیکن حوصلہ افزائی کا مطلب زبانی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اُنہیں وہ ساری سہولتیں دی جائیں، جو اُنھیں درکار ہیں۔جیسے حفاظتی انتظامات، ہنگامی میڈیکل انشورنس، اسپیشل الائونس، ٹرانسپورٹ، کھانے پینے کی اشیاء کی سہولت وغیرہ۔

ان سہولتوں کی فراہمی پر ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ یک سوئی سے اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لاسکیں گے۔ہم ڈاکٹرز سے توقّعات تو بے حساب وابستہ کرلیتے ہیں، لیکن اُن کی عملی حوصلہ افزائی کا مرحلہ آئے، تو پیچھے کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں۔ کم از کم اب تو عوامی اور حکومتی سطح پر اُنھیں داد دی جانی چاہیے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر حفاظتی سامان درآمد کر کے اُنھیں مہیا کرنا شروع کردیا ہے، یہ خوشی کی بات ہے۔ نیز،نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی جس طرح فوری طور پر ایکشن میں آئی ہے اور قومی سطح پر کورونا سے مقابلہ کرنے کے اقدامات اور ہم آہنگی پیدا کر رہی ہے، وہ بھی قابلِ تحسین ہے۔اس سے عوام میں اعتماد پیدا ہوا کہ اس معاملے میں قومی سطح پر سنجیدگی پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو شعبہ سب سے کم توجّہ کا مستحق سمجھا گیا، وہ تحقیق اور اس کے علاج کی دریافت کا ہے، حالاں کہ بیش تر ترقّی یافتہ ممالک ہی نہیں، ترقّی پذیر ممالک میں بھی اس پر تحقیقی کام ہورہا ہے۔ٹھیک ہے، اِس موقعے پر غیر مستند باتیں نہیں پھیلانی چاہئیں، لیکن حکومت اپنی تحقیق کے ذریعے ہی ان افواہوں کا بہتر طور پر توڑ کرسکتی ہے۔ ان تمام معلومات کو یک جا کیا جانا چاہیے، جو کورونا کے علاج میں مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔بتایا جائے کہ اس کی ویکسین اور ادویہ کی دریافت پر کس طرح کام ہو رہا ہے۔عالمی ادارۂ صحت اور دوسرے عالمی و علاقائی ادارے کیا کیا کام کر رہے ہیں اور کیا کرچُکے ہیں؟

تاہم پاکستان میں شاید ہی کسی اللہ کے بندے کو ریسرچ کا خیال بھی آیا ہو۔ روز دعوے کیے جاتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بہترین ٹیلنٹ ہمارے مُلک میں ہے۔ہم ہر میدان میں دنیا سے آگے ہیں۔اگر واقعی ایسا ہی ہے، تو پھر اس ٹیلنٹ کے سامنے آنے اور عملی شکل دِکھانے کا اس سے بہتر کون سا وقت ہوگا، جب ساری دنیا اسی کی منتظر ہے۔ لیکن یاد رکھا جائے کہ کورونا جیسی بیماریوں کا علاج مروجّہ سائنسی طریقوں ہی سے کرنا ہوگا۔خواہ یہ کسی کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے۔ کوئی شارٹ کٹ یا اِدھر اُدھر کا ٹوٹکا زہر ثابت ہوگا۔ہر علاج کو ان مستند طریقوں پر پورا اُترنا ہوگا، جو دنیا کے اعلیٰ طبّی معیارات تسلیم کرتے ہیں۔

چین سے لے کر امریکا تک،دنیا بڑی ہم آہنگی سے میڈیکل ریسرچ ایک دوسرے سے شئیر کر رہی ہے۔اِس سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت کا کردار مرکزی ہے،جس نے عالمی سطح پر طبّی تحقیق میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے فروری میں’’ solidarity‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم لانچ کیا، جس کے تحت کورونا وائرس پر ہونے والی تحقیق کو یک جا کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے۔ اسی لیے اب یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ کورونا ویکسین کی ایجاد مختلف ممالک میں آخری مراحل میں ہے۔ علاوہ ازیں یورپی یونین میں پہلے سے موجود دوا کے کورونا میں موثر ہونے کے حوالے سے بھی بڑے

پیمانے پر تجربات ہو رہے ہیں۔اِس ضمن میں چار میڈیسنز کا خاص طور پر ذکر کیا جارہا ہے۔ ان تجربات کو ڈسکوری کا نام دیا گیا، جو 23 مارچ سے شروع کیے گئے۔ پہلی ’’Hydroxychloroquine ‘‘ایک اینٹی ملیریا دوا ہے۔یہ ملیریا کے علاج کے لیے 75 سال سے استعمال ہو رہی ہے۔صدر ٹرمپ نے اسے اپنی ایک ٹویٹ اور پھر پریس کانفرنس میں اُمید کہا، لیکن امریکا کے سب سے بڑے ڈاکٹر، انتھونی فاؤچی نے اسے یہ کہہ کر رد کردیا کہ’’ یہ اُس وقت تک استعمال نہیں ہوسکتی، جب تک تحقیقی مراحل مکمل نہیں ہوتے اور ایف ڈی اے(فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن) اجازت نہیں دیتی۔‘‘ چین کی ریسرچ اور فرانس کے ڈاکٹرز بھی اس دوا سے متعلق مثبت باتیں کر رہے ہیں۔پاکستان میں اس کی ڈاکٹری نسخے کے بغیر خرید وفرخت پر پابندی ہے، کیوں کہ بعض مریضوں میں اس کے سائیڈ ایفیکٹس خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ دوسری دوا ’’remdesivir ‘‘ ہے، جو ایبولا کےلیے استعمال ہو رہی ہے۔تیسری’’ ‘‘Lopinavir/Ritonavirگولیاں ہیں، جو ایچ آئی وی کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔ چوتھی دوا’’ ‘‘interferon betaہے۔

سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا انھیں کورونا کے علاج میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟لیکن یہ صرف تجربات ہیں اور حتمی فیصلہ ماہرین ہی کریں گے۔ اُمید کی کرن یہ ہے کہ علاج اور ویکسین کے لیے سائنس دان کام کر رہے ہیں، نتائج کب سامنے آتے ہیں، اس کا پوری دنیا کو انتظار ہے۔ہمارے ہاں بھی بعض ڈاکٹرز نے کورونا کے علاج کے حوالے سے تجاویز دی ہیں، تاہم جب تک حکومت اجازت نہیں دیتی، ان ادویہ کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔کورونا سے متاثرہ افراد میں اموات کی شرح بہت ہی کم ہے، جو اس سے مقابلے کا حوصلہ دیتی ہے، لیکن اس کا پھیلائو بہت تیز ہے، جو احتیاط کو فرض بنا دیتا ہے۔