مہلک عالمی آفت... آزمائش کی گھڑی، قیامتِ صغریٰ کا منظر

April 05, 2020

کورونا وائرس جیسا وبائی اور مہلک مرض مشرق و مغرب، گویا دنیا کے ہر خطّے میں اپنے پنجے گاڑ چُکا ہے۔ دو سو کے قریب ممالک کے اربوں انسان اس کی زَد میں ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک آزمائش اور قیامت کی گھڑی ہے۔ اِس موذی مرض نے وطنِ عزیز، پاکستان کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اس وبائی مرض سے تحفّظ اور حفاظتی و احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ازروئے شریعت ایک دینی فریضہ ہے۔ اِس حوالے سے ہمارے نبی کریمﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان(کےشر) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ ‘‘اس حوالے سے معمولی سی بے احتیاطی بھی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور خود کشی کے مترادف ہے۔

گو کہ ہمارے دین نے توکّل کی تعلیم دی ہے، لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور اس وبائی مرض کے سدّباب کے لیے تمام ممکنہ اقدامات پر عمل اسلامی تعلیمات کا بنیادی تقاضا اور شریعت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔نیز، امتحان کی اِس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنا ہمارا دینی، ملّی اور قومی فریضہ ہے۔محسنِ انسانیتؐ،نبیٔ رحمتؐ، رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت کے اجزاء کی طرح رہنا چاہیے، جو ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں اور ان کے جڑنے ہی سے عمارت قائم ہوتی ہے‘‘(بخاری/ کتاب البروالصلۃ)۔اسی طرح ایک اور موقعے پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’مسلمانوں میں باہمی ہم دردی، محبّت اور تعلق اِس قسم کا ہونا چاہیے، جیسا کہ خود جسمانی اعضاء کو ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔ چناں چہ، جب بھی کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے، باقی ماندہ تمام جسم کے اعضاء بخار کی تپش اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے۔‘‘ رسالت مآبﷺ کے یہ ارشاداتِ گرامی اس اَمر کا پتا دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا باہمی تعلق اخوّت و یگانگت، دینی و ملّی بھائی چارے اور ایثار و ہم دردی پر مبنی ہے۔ پوری مسلم برادری جسدِ واحد اور ایک مضبوط عمارت کی طرح ہے،جو ایک دوسرے کی بقا کا ذریعہ اور استحکام و سلامتی کی ضمانت ہیں۔ اس لیے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہمارے جو بھائی آزمایش اور مصیبت کا شکار ہیں، اُن کی مدد کرنا ایک دینی، اخلاقی اور ملّی تقاضا ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مصیبت کی اِس گھڑی میں ہم اسلامی اخوّت کے جذبے کے تحت اپنے بھائیوں کو بے یارومددگار نہ چھوڑیں، بلکہ انصارِ مدینہؓ کی سنّت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مواخات اور ایثار و ہم دردی کا مظاہرہ کریں۔ اس موقعے پر اپنے اُن بھائیوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں، جو روز ریڑھی لگا کر، مزدوری کرکے اپنے کنبے کی کفالت کرتے ہیں۔ اگر وہ روز محنت مزدوری نہ کریں، تو شام کو اُن کے گھر کا چولھا نہیں جلتا۔ وطنِ عزیز میں ایسے لاکھوں افراد ہیں، جو روز کماتے ہیں، روز کھاتے ہیں، لیکن اس وبا کے باعث وہ روزی روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ایثار و ہم دردی اور غم گساری کا وہ نمونہ پیش کریں، جو ہمارے مذہب کی بنیادی شناخت اور ہمارے دین کی رُوح ہے۔ ہمیں اسلام کی اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار اپنانا ہوں گی، جس کا بنیادی فلسفہ اور پیغام ہی یہ ہے کہ؎ ’’یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں…کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں۔‘‘

بلاشبہ اسلام نے خدمتِ خلق اور احترامِ انسانیت پر بے حد زور دیا ہے۔ اسلام میں حقوق العباد کا فلسفہ درحقیقت خدمتِ خلق اور احترامِ انسانیت ہی سے عبارت ہے۔ خدمتِ خلق یہی ہے کہ خلقِ خدا کی نفع رسانی کے لیے کام کیا جائے، معاشرے کے غریب اور مفلوک الحال طبقے کی بھرپور مدد کی جائے۔ اسلام نے مخلوق کی خدمت کو خالق کی خدمت سے تعبیر کیا ہے۔ خالقِ کائنات اپنی مخلوق بالخصوص بندگانِ خدا پر اپنی رحمتیں اُسی وقت نازل فرماتا ہے، جب کہ خلقِ خدا پر رحمت و شفقت کا سلوک کیا جائے۔ایک حدیثِ قدسی میں اس حقیقت کو نہایت مؤثر اور دِل نشین انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے فرمائے گا، اے ابنِ آدم!مَیں بیمار ہوا، لیکن تُو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ عرض کرے گا، اے میرے پروردگار! تُو تو سارے جہاں کا پروردگار ہے، تُو کب بیمار تھا؟ اور مَیں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے؟ اگر تُو اُس کے پاس جاتا، تو مجھے اُس کے پاس پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’اے ابنِ آدم! مَیں نے تجھ سے کھانا مانگا، لیکن تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔‘‘ انسان عرض کرے گا’’اے ربّ العالمین! تُو کب بھوکا تھا اور مَیں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا،’’کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، لیکن تُو نے اُسے کھانا نہیں کِھلایا، اگر تُو نے اُس کا سوال پورا کیا ہوتا، تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا،’’اے ابنِ آدم! مَیں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا،’’اے دونوں جہاں کے پالن ہار! تُو کب پیاسا تھا اور مَیں تجھے پانی کیسے پلاتا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا،’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا، لیکن تُو نے اُس کی پیاس بُجھانے سے انکار کردیا تھا، اگر تُو نے اُس کی پیاس بُجھائی ہوتی، تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا‘‘(مسلم/ کتاب البروالصلۃ)۔اسلام کی یہ تعلیمات باور کراتی ہیں کہ زندگی کا مقصد صرف مال و دولت کا حصول نہیں، بلکہ اللہ عزّوجل کے عطا کردہ مال میں سے غربا و مساکین کی خدمت اور مستحق افراد کی مدد و اعانت بھی ضروری ہے۔ زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ہے۔ اسلام میں ایثار وقربانی اور مواسات پر زور دیا گیا ہے۔’’مواسات‘‘ کے لفظی معنیٰ ایثار و ہم دردی اور غم گساری کے ہیں۔ مواسات، یعنی ہم دردی و غم گساری لازم و ملزوم ہیں۔ اس عالمی وبا پر غریب غربا سمیت بہت سے سفید پوش، جن کے پاس کھانے کو نہیں، ہماری ہم دردی و غم گساری اور ایثار و اعانت کے منتظر ہیں، بلاشبہ، ان کی مدد کسی عبادت سے کم نہیں۔

ہم تو اس نبیﷺ کے پیروکار ہیں، جو رحمۃ للعالمین ؐاور محسنِ انسانیتؐ ہیں، جنہوں نے اپنے بدترین دشمن، کفّارِ مکّہ کی بھی اُس وقت مدد و اعانت کی، جب وہ قحط سالی کا شکار تھے، جب کہ یہ تو ہمارے اپنے، ہمارے دینی اور ملّی رشتے کے شریک اور مسلمان بھائی ہیں۔ ہمیں اس موقعے پر ایثار اور انفاق کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہیے، یہ وہ تعلیمات ہیں، جو ہمارے نبیﷺ نے ہر مسلمان پر فرض قرار دی ہیں، وہ جو کہ سیّدالمرسلینؐ، خاتم النبیینؐ اور امام الانبیاءﷺ ہیں، جن کے متعلق بجا طور پر کہا گیا؎’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا…مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والا…مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا…وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا…فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ…یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ۔‘‘جنہوں نے ارشاد فرمایا’’من لایَرحم، لایُرحم‘‘یعنی ’’جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اُس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘آپﷺ کی تعلیمات کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ؎’’اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اِس جہاں میں.....ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔‘‘ہم محسن انسانیتؐ،نبیٔ رحمتﷺ کے امّتی ہیں، آپؐ رحمت و شفقت، ایثار و ہم دردی کے پیکر تھے، انسانیت کی خدمت، اُن کی فلاح،اُنہیں دین کی راہ پر گام زن کرنا، توحید کے نور سے منوّر کرنا اور خدمتِ خلق کا جذبہ ہمیشہ آپﷺکے دل میں موج زن رہا،یہ آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہؐ کا امتیازی پہلو ہے۔ آزمایش کے اس لمحے اور قومی و ملّی زندگی کے اس موڑ پر ہمیں یک قلب اور یک جان ہوکر اپنے بزرگوں، مائوں، بہنوں، بھائیوں، معصوم بچّوں، بے سہارا افراد کو ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ اُن کی بڑھ چڑھ کر اور دل کھول کر ہر ممکن مدد کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ یہ خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کا اہم مصرف ہے۔

دوسری جانب ضرورت اس امَر کی بھی ہے کہ ہم خود فراموشی، خدا فراموشی، دین سے انحراف، گناہوں سے آلودہ زندگی، قرآن و سنّت اور اسلامی نظام سے بغاوت اور اس کی مخالفت چھوڑ کر دین کے دامن میں پناہ لیں۔ آزمائش کی اس گھڑی اور امتحان کے اس لمحے میں اپنے گناہ اور بداعمالیوں سے تائب ہوجائیں۔ اللہ ربّ العالمین کا ارشاد ہے’’کون ہے، جو مجبور اور لاچار کی فریاد سُنتا ہے،جب وہ اسے پُکارتا ہے اور آزمایش اور تنگی کو دُور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں اپنا جاں نشین مقرّر کرتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہے؟‘‘ اللہ ہی سے اپنی امیدیں وابستہ کریں اور اسی سے لَو لگائیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے ایک حدیثِ قدسی میں بیان فرمایا، ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بندہ میرا قُرب حاصل کرنے کے لیے اور میری اطاعت و فرماں برداری کی راہ میں میری طرف بالشت بھر آگے بڑھتا ہے، مَیں اُس کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہوں۔ جو میری طرف ہاتھ بھر آگے بڑھتا ہے، مَیں گز بھر اُس کی طرف بڑھتا ہوں۔ اگر میرا بندہ چلتا ہُوا میری طرف آئے، تو مَیں دوڑتا ہُوا اُس کی جانب بڑھتا ہوں۔‘‘بیش تر مواقع پر وبائی امراض، قدرتی آفات اور آسمانی مصائب اللہ کی طرف سے مقرّر کردہ طرزِ زندگی سے انحراف، سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے انتباہ اور یاد دہانی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اُس کی نافرمانی چھوڑ کر اللہ کے دامنِ رحمت میں پناہ تلاش کی جائے۔ سُورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اُنہیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمایش میں مبتلا کردیتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی اُنہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور نصیحت پکڑیں۔‘‘ہمیں یہ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی صُورت اور کبھی بھی مایوس نہ ہوں، اُس کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہنے، دین پر عمل کرنے، عبرت و نصیحت حاصل کرنے ہی میں عافیت ہے۔ اللہ کی رحمت کا دامن جس قدر وسیع ہے، اُس کے عفو وکرم اور درگزر کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی رحمت سے مایوس ہوجانے والوں سے بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے، اس حوالے سے ارشاد فرمایا’’اللہ کی رحمت سے صرف گُم راہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں‘‘ (سُورۃ الحجر / 56)۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو اُس کے کنبے سے اچّھا سلوک کرتا ہے‘‘ (مشکوٰۃ/باب الشفقۃ و الرّحمۃ علی الخلق)۔شاعر نے قرآن اور صاحبِ قرآنؐ کی ترجمانی کیا خُوب انداز میں کی ہے ؎’’یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہُدیٰ کا.....کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا.....وہی دوست ہے، خالقِ دوسرا کا.....خلائق سے ہے، جس کو رشتہ وِلا کا.....یہی ہے عبادت، یہی دِین و ایماں.....کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں۔‘حضرت ابنِ عُمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ اُس سے کنارا کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری میں مصروف رہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت براری کو پورا کرنے میں رہتا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کا ایک دُکھ بانٹا، اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت کی مشکلات میں سے اُس کی ایک ایک مشکل کو دُور کردیا اور جس کسی نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر پردہ ڈالے گا‘‘ (صحیح بخاری/باب لایظلم المسلم)۔

اسلام کی یہ سُنہری تعلیمات ہمیں اس امَر کا پابند کرتی ہیں کہ ہم مشکل اور آزمایش کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی ہر طرح مدد کریں۔ خدمتِ خلق، فلاحِ انسانیت، ایثار و ہم دردی کے اُن جذبات کا مظاہرہ کریں، جو ہمارے دین کا شِعار اور ہماری دینی، مِلّی اور تہذیبی اقدار کے آئینہ دار ہیں۔ اس موقعے پر ہمیں جسدِ واحد اور تسبیح کے دانوں کی طرح متّحد ہوکر اخوّت و اجتماعیت، یگانگت اور دینی و مِلّی اتّحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خدمتِ خلق اور ایثار و ہم دردی کے اُس جذبے کو عام کیا جائے، جو ہمارے دینِ متین کا امتیاز اور ہمارے قومی و مِلّی مزاج کی رُوح ہے۔