پاکستان کر کٹ، میڈیا اور ایک کیمرا۔۔۔۔

March 30, 2020

پاکستان کرکٹ کا بین الاقوامی سطح پر ایک مقام اور حیثیت ہے، اور یہ ایک مسلمہ حقیقت تھی،اور ہے،یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کرکٹ اور میڈیا کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔

ایک وہ زمانہ تھا، جب صحافی اسٹیڈیم سے بیٹھ کر ہاتھ سے لکھی خبریں دفاتر فیکس کیا کرتے، پھر ٹائپ رائٹر کا دور آیا، ٹی وی کے کیمرے نے بعدازاں اس جدت میں مزید اضافہ کیا، اور آج موبائل ٹیکنالوجی کیساتھ چند سکینڈ میں واٹس ایپ نے صحافتی دوڑ کو مزید تیز تر بنادیا ہے۔

البتہ اس تمام سلسلے میں اظہار آزادی پر قدغن اور سچ بات کہنے پر جیسے معاملات کھیلوں کی صحافت میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں ،مثبت تنقید اور سچائی جیسے الفاظ زرائع ابلاغ کے لئے بھلے فخر کی بات ہوں ، مخالف کے لئے ایک ایسی کڑوی گولی ہے، جیسے کسی بھی میٹھے مشروب کیساتھ حلق سے اتارنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، اور رہے گا،مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

جب 1998ء میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں آسڑیلیا کے خلاف شاھد آفریدی ، عامر سہیل کی قیادت میں پہلا ٹیسٹ کھیل رہے تھے، پولیس اہلکاروں نے ایک صحافی کو زد و کوب کیا، جس کی نا صرف پرزور انداز میں مذمت کی گئی، بلکہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی مین بلڈنگ کے احاطے میں صحافیوں نے پریس بکس چھوڑ کر اپنے ساتھی صحافی سے اظہار یک جہتی کے لئے دھرنا دے دیا۔

اس دھرنے میں کھیلوں کے جریدوں کے مدیر ان ، سینئر صحافی اور کیمرا مین بھی شامل تھے، البتہ افسوس کیساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ آج مین بلڈنگ کے اسی احاطے میں جہاں ساتھی صحافیوں کیساتھ کیمرا مین دھرنے پر موجود تھے، آج دوران میچ وہی احاطہ ان بیچارے کیمرا مینوں کے لئے “ نوگو ایریا” بن چکا ہے، اور بطور صحافی اس دھرنے کے چشم دید گواہ سمیع الحسن برنی جو کل صحافی تھے، آج ڈائریکٹر میڈیا اور کمیونیکشن کرکٹ بورڈ کیساتھ منسلک ہیں ۔

ماضی میں آئی سی سی کیساتھ میڈیا میں کام کرنے والے سمیع الحسن برنی نے پندرہ سے زیادہ افراد پر مشتمل پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ کو بالخصوص ڈیجیٹل کے معاملے میں خاصا متحرک کیا ہے۔

البتہ اس سلسلے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بورڈ اس کام میں بعض اوقات اس قدر آگے چلا جاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کے کیمرے بے وقت ہوگئے ہیں ،پھر بورڈ کے میڈیا ریلیز کے معاملے تک سب ہی معترف دکھائی دیتے ہیں ۔ البتہ بورڈ کی میڈیا ریلیز پالیسی سے کہیں یہ تاثر ابھرتا دکھائی دیتا ہے کہ الیکڑانک میڈیا اور پرنٹ محض کاپی پیسٹ کے لئے رہ گئے ہیں ۔

اس تناظر میں سمیع الحسن برنی نے استفسار پر بتایا، یہ تاثر صحافیوں کی سطح پر تو ہو سکتا ، البتہ ہمارا نقطع نظر واضع ہے، ہم گہرائی اور مکمل معلومات کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں ، اور اس تناظر میں ہم میڈیا کو معلومات بہم پہنچا رہے ہیں ، اس میں کنڑول میڈیا کا لفظ قدرے مناسب نہیں لگتا، ہم نے کسی کو نہیں کہا ، کاپی پیسٹ کرو، ہم جیسی خبر دیں ، ویسی چلاؤ، اگر ہماری طرف سے ایسی کوئی شرط نہیں تو کنڑول میڈیا کا ٹیگ ہم پر چسپاں کرنا مناسب نہیں لگتا۔

ماضی کے برعکس سمیع الحسن برنی کے چند اچھے اقدامات میں قومی ٹیم کیساتھ مستقل بنیادوں پر رضا راشد کچلو کا میڈیا ڈائریکٹر کی حیثیت سے تقرر لائق تحسین ہے۔

ان ساری باتوں سے قطع نظر بورڈ سے منسلک خبروں کی میڈیا تک رسائی اور بورڈ کے فیصلوں پر تنقید اور کھلاڑیوں کے انڑویو جیسے معاملات وہ اہم نکات ہیں ، جو ایک مرتبہ پھر بورڈ اور صحافیوں کے مابین دو رویوں کا سبب بنتے دکھائی دیتے ہیں۔

پی سی بی میں تقرریوں کی خبریں قبل ازوقت میڈیا کی زینت بننا اور بورڈ کی سطح پر خاموشی اور تردید جیسے معاملات ، سمیع الحسن برنی جیسے تجربے کار اور پیشہ ورانہ شخص کی موجودگی کے باوجود ایک ایسی کمزوری ہے، جو آج بھی بورڈ سے منسلک ہے، پھر سمیع الحسن برنی کے آنے کے باوجود صحافیوں کے ایکریڈٹیشن اور بلخصوص کیمرا مینوں کی دوران میچ پابندی جیسے معاملات بورڈ کی وہ ناقص پالیسیاں ہیں ، جس پر سوالات اٹھ رہے ہیں ، پھر سمیع الحسن برنی کے آنے کے بعد بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی “ میڈیا گائیڈ “ ایک پہیلی ہی بنی ہوئی ہے۔

اس سارے معاملے میں پر پاکستان میں کھیلوں اور کرکٹ کے چند سرکردہ صحافیوں سے جب ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور میڈیا پالیسی پر گفتگو کی ، تو انھوں نے کچھ اس انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

احسان قریشی ( سینئرصحافی )

اب کھیلوں کی صحافت کا معیار وہ نہیں رہا، ہاں میں سمجھتا ہوں کہ تحقیقاتی صحافت کا کرکٹ میں انداز افسوس ناک ہے، خود ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی ماضی میں اپنا ایک بطور صحافی مقام رکھتے تھے، البتہ آج ان کی موجودگی میں بورڈ کی طرف سے کنڑول میڈیا کی پالیسی کا تاثر غلط نہیں ہے، موجودہ کرکٹ بورڈ کے میڈیا میں لوگوں کی جتنی فوج ظفر موج ہے، اتنی تو شائد آئی سی سی میں بھی نہیں ہے۔

عبدالماجد بھٹی (روزنامہ جنگ)

ذاتی حیثیت میں بورڈ سے کوئی شکایت نہیں، جہاں تک معلومات کی فراہمی کا تعلق رہا، اس میں تو مشکلات نہیں ، البتہ اہم نوعیت کی معلومات کا تبادلہ نہیں ہوتا،مجھے اپنی خبروں اور تحریروں میں بورڈ کی جانب سے کسی دباو کا تو سامنا نہیں ہے، تاہم کنڑول میڈیا کی باتیں وہ اشخاص کر رہے ہیں ، جو بورڈ کی پریس ریلیز کو کاپی پیسٹ کرتے ہیں ۔

مرزا اقبال بیگ ( ایکسپریس ٹی وی)

سمیع الحسن برنی بطور ڈائریکٹر میڈیا بظاہر ناکام ہوتے دکھائی دیتے ہیں ، اتنا بڑا میڈیا ڈپارٹمنٹ چند مخصوص صحافیوں کو قابو کر کے اپنا کنڑول بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے، بورڈ تنقید سے جواب دینے کے بجائے گھبراہٹ کا شکار ہے، کیمرا مینوں کو روکنا قابل مذمت ہے،پی سی بی کے اعلی حکام اپنی پریس کانفرنس اور پیغام کی رسائی میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کی اس پالیسی میں پیچھے رہ جائیں گے۔

ارشاد ( روزنامہ ڈان )

٘پاکستان کرکٹ بورڈ کا یہی تو مسئلہ ہے کہ وہ ہر خبر پر مکمل کنٹرول چا ہتا ہے۔ اس کی یہی روش اس سے غلطیاں کرواتی ہے لیکن پی سی بی کو عقل نہیں آتی۔اگر بورڈ اپنے فیصلے کرنے سے پہلے معا ملا ت کو ہر زاویے سے دیکھ لے اور کہنہ مشق صحافیوں اور کھلاڑیوں کی رائے لے لیا کرے تو مسئلہ ہی حل ہو جائے۔

سلیم خالق ( روزنامہ ایکسپریس)

میڈیا ڈپارٹمنٹ نہ صرف درست کام نہیں کررہا، بلکہ چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو کو صحافیوں سے غیر ضروری طور پر دور رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صحافیوں کو تقسیم کیا جارہا ہے، ابھی کیمرا مینوں کو روکا ہے، اب بورڈ کو جس صحافی کی خبر پسند نہ آئی ، اسے قانونی شکنجے میں کسنے کی کوشش کیساتھ ایکریڈٹیشن نہ دینے کی پالیسی اپنائی جائیگی۔

آصف خان ( ٹی وی ون )

میڈیا ڈپارٹمنٹ کی پالیسی شفاف اور واضع ہونی چاہئے،جس کا تاثر اس بورڈ میں نہیں ملتا، بورڈ جس خبر کی تردید کرتا ہے، وہی خبر درست نکلتی ہے۔جہاں تک کنڑول میڈیا کا تاثر ہے، وہ اسی وقت ممکن ہے، جب میڈیا بورڈ کی معلومات پر من وعن انحصار کرئے، اور فی الحال میڈیا کی طرف سے بورڈ پر حد سے زیادہ انحصار اس تاثر کو تقویت دے رہا ہے۔

حافظ عمران ( روزنامہ نوائے وقت)

میڈیاڈپارٹمنٹ کے طرز عمل سے ایک بات عیاں ہے کہ وہ صحافت کی آزاد ی کو دبانا چاہتے ہیں ، ان کے فیصلوں میں تضاد اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ جن کیمرا مینوں پر انہوں نے پابندی لگائی ، وہی پی ایس ایل ملتوی ہونے پر چیف ایگزیکٹو وسیم خان کی پریس کانفرنس کور کر رہے تھے،جب آپ خود انٹرویو کریں گے، اور یک طرفہ کوریج کے لئے میٹھے انداز میں صحافیوں کو قابو کریں گے، تو پھر کنٹرول میڈیا کی گفتگو میں شدت لازمی بات ہے۔