عمر اکمل، ذہین اور باصلاحیت بیٹسمین کا کیریئر ہمیشہ داغ دار رہا

March 31, 2020

ٹیسٹ بیٹسمین عمر اکمل کے دو بھائی کامران اکمل اور عدنان اکمل بھی پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔دنیا کے صف اول کے بیٹسمین بابر اعظم ان کی فرسٹ کزن ہیں جبکہ عمر اکمل کے سسر ماضی کے عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر ہیں۔عبدالقادر کے تین بیٹے فرسٹ کلاس کرکٹر ہیں جبکہ عثمان قادر حالیہ دنوں میں پاکستان کی ٹی ٹوئینٹی ٹیم کے رکن ہیں۔کرکٹ کے اتنے بڑے خاندان کے چشم و چراغ آئے دن منفی خبروں میں رہتے ہیںا ور اس وقت انہیں اسپاٹ فکسنگ کیس میں معطلی کا سامنا ہے۔اپنے پہلے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ میں سنچری اور دوسرے ون ڈے انٹر نیشنل میں سری لنکا میں سنچری بنانے والے عمر اکمل بلا کے ذہین اور باصلاحیت بیٹسمین ہیں۔لیکن تنازعات کی وجہ سے ان کا کیئریئر ہمیشہ داغ دار رہا ہے۔وہ شائد اپنے ٹیلنٹ سے وہ انصاف نہیں کرسکے ہیں جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔

کراچی میں پاکستان سپر لیگ شروع ہونے سے چند قبل آنے والے اسکینڈل نے ان کے کیئر یئر پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ شائد عمر اکمل کی کرکٹ میں واپسی چند ماہ کی پابندی کے بعد ختم ہوجائے گی۔سوال پھر یہ بھی جنم لیتا ہے کہ کیا چند ماہ کی پابندی کے بعد عمر اکمل ڈسپلن میں آ سکیں گے۔ایک انٹر ویو میں عمر اکمل کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ کرتے تو بہت سارے کرکٹر ہیں لیکن عمر اکمل وہ کھلاڑی ہیں جو شائد اپنی صاف گوئی کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں۔عمر اکمل کے سسر عبدالقادر مرحوم سے میرا عقیدت کا رشتہ تھا جب بھی ملتے پیار سے ملتے تھے اکثر گلہ کرتے تھے کہ آپ لاہور آتے ہیں اور بغیر ملے چلے جاتے ہیں۔ایک بار عمر اکمل کسی اسکینڈل میں ملوث پائے گئے تو میں نے فون پر قادر سے کہا کہ عمر اکمل آئے دن کسی اسکینڈل میں ملوث ہوجاتے ہیں اور آپ کو بھی بدنام کرتے ہیں ۔

عبدالقادر نے سرد آہ بھری اور کہا کہ ماجد بھائی !آپ عمر اکمل کو سمجھائیں۔شائد وہ آپ کی بات مان جائے۔عبدالقادر کے ساتھ اپنی نجی گفتگو آج کئی سال بعد پبلک کررہا ہوں ۔لیکن مجھ میں ہمت نہ ہوسکی کہ عمر اکمل کو سمجھا سکوں۔اب نئے اسکینڈل نے عمر اکمل خاندان کے لئے ایک اور مشکل کھڑی کردی ہے۔پی ایس ایل کے دوران کراچی میںپریس کانفرنس میں عمر اکمل کے بڑے بھائی کامران اکمل نے میڈیا سے درخواست کی کہ وہ پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کی تحقیقات کو مکمل ہونے دیں ۔تحیقیقات کے آغاز میں عمر کے خلاف عدالت لگانا کسی طرح درست نہیں ہے۔میں اپنے بھائی کو جانتا ہوں وہ یقینی طور پر اس اسکینڈل سے سرخرو نکلیں گے۔جاوید میاں داد پاکستانی بیٹنگ میں بہت بڑا نام ہے ۔

سابق کپتان نے انضمام الحق اور یونس خان سے بڑھ کر نام کمایا لیکن کرکٹ کے میدان میں جاوید میاں داد اپنے منفرد انداز اور دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔سب سے بڑھ کر ان پرکبھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔گذشتہ دنوں جاوید میاں داد نے عبدالقادر مرحوم سے اپنی دوستی کی بنا ء پر عمر اکمل کو اپنے منفرد انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔جاوید میاں داد اور عمر اکمل میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نے ٹیسٹ ڈیبیو پر نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری بنائی۔جاوید میاں داد نے لاہور ٹیسٹ کے بعد کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھااور کئی بیٹنگ ریکارڈ کو اپنے قدموں تلے روند دیا جبکہ عمر اکمل نے کم عمری میں ملنے والی شہرت کو کنٹرول نہ کرسکے اور خود ہی آوٹ آف کنٹرول ہوگئے۔

حالیہ اسکینڈل کے بعد جاوید میاں داد نے اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کا سامنے کرنے والے ٹیسٹ بیٹسمین عمر اکمل کو تنبہہ کی ہے کہ تم اپنے آپ کو ٹھیک کرو اس قسم کی غلط حرکتوں سے تم نیک نامی نہیں کررہے ہو۔ایسی حرکتوں سے باز آو اور سدھر جاو۔چھچھوری حرکتوں سے باز آکر اپنے اور اپنے خاندان کے رتبے کا خیال کرو۔اپنی اہلیہ اور بچوں کا خیال کرو۔اب میں عبدالقادر کی جگہ ہوں۔عبدالقادر دنیا میں نہیں ہیں لیکن میںتم سے نمٹوں گا۔جاوید میاں داد نےمتنازع بیٹسمین عمر اکمل کو مخاطب ہوئے کہا کہ عبدالقادر میراپیارا دوست تھا۔میں عبدالقادر کے دوست کی حیثیت سے تم سے بات کررہا ہوں اورتم سے نمٹوں گامیں تمہارے بھائیوں اور والد سے درخواست کرتا ہوں کہ عمر اکمل کو کنٹرول کریں اور اسے لگام دیں۔

تمہارے دوسرے بھی بھائی ہیں۔تمہیں اللہ نے عزت دی ہے تم کرکٹ کھیل رہے ہولیکن نامناسب حرکتیں کرکے ہمیں اور ملک کو بدنام کررہے ہو۔پاکستان کے عوام اور کھلاڑی تمہاری ان حرکتوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ہر کوئی تمہاری مذمت کررہا ہے اور تم اپنے پیشے پر لات ماررہے ہو۔جاوید میاں دادنے عمر اکمل کو نصحیت کی کہ پاکستان کے لئے کھیلو اور اس کھیل سے پیسہ کماو،آج ہم کرکٹ چھوڑ چکے ہیں لوگ اسی لئے محبت کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کا نام روشن کیا تھا۔عبدالقادر اب دنیا میں نہیں ہے لیکن اس کی جگہ میں ہوں۔میں اب عبدالقادر کی جگہ تمہاری سرزنش کررہاہوں، میں عبدالقادر کے گھر والوں کو کہتا ہوں کہ میں اب عمر اکمل سے نمٹوں گا اس لئے تم کرکٹ کھیلو۔غلط حرکتیں کرکے ملک اور خاندان کی بدنامی کا سبب نہ بنو۔ان حرکتوں سے باز آو اور کھیل پر توجہ دو۔

19فروری کی شب کراچی کے سرد موسم میں فائیو اسٹار ہوٹل میں رات گئے ہونے والی غیر معمولی پیش رفت میں ٹیسٹ بیٹسمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کے سامنے کہٹرے میں موجود تھے اور اسی دوران جب کرنل (ر)آصف کی سربراہی میں پی سی بی ویجلنس اینڈ سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ نے عمر اکمل سے سوال جواب کئے اور ان کے سامنے بعض ٹھوس شواہد رکھے تو عمر اکمل نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اس بات کا اعتراف کر لیا کہ وہ گذشتہ کئی دنوں سے کراچی میں سٹے بازوں کے ایک نیٹ ورک سے رابطے میں تھے اور انہیں دو بار اسپاٹ فکسنگ کی پیشکش کی گئی لیکن عمر اکمل نے قواعد کو نظر انداز کرکے یہ دونوں پیشکشیں رپورٹ نہیں کیں۔

عینی شاہدین کے مطابق عمر اکمل کا بیان کیمرے کے سامنے لیا گیا اور جب ان کے خلاف کیس آگے بڑھے گا اور اگر عمر اکمل چارج شیٹ میں عائد کئے الزامات سے انکار کرتے ہیں تو یہ ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ پی سی بی حکام کلب روڈ پر واقع فائیو اسٹار ہوٹل کے سوئٹ میں یہ تمام کارروائی کررہے تھے۔رات دس بجے جب پہلی بار عمر اکمل کو سامنے واقع ایک اور ہوٹل سے دوسرے ہوٹل بلوایا گیا تو ان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب اور دفاعی چیمپین کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پہلے میچ سے قبل کسی بڑےمسئلے سے دوچار ہونے والے ہیں۔ابتداء میں جب عمر اکمل کے سامنے شواہد رکھے گئے تو وہ انکار کرتے رہے لیکن جب انہیں شواہد دکھائے گئے تو پھر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔

خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عمر اکمل کراچی میں جن لوگوں سے میل ملاپ رکھ رہے تھے۔وہ پی سی بی نیٹ ورک میں مشکوک تھے۔پی سی بی کا نیٹ ورک چند دنوں سے عمر اکمل کو پیچھا کررہا تھا۔پھر جب معاملات سنجیدگی سے آگے بڑھے اور پی ایس ایل شروع ہونےمیں چند گھنٹے باقی تھے تو عمر اکمل کوبلاکر شواہد دکھائے گئے اور انہیں ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے معطل کرکے لاہور بھیج دیا گیا۔عمر اکمل کو نوٹس آف چارج 17 مارچ کو جاری کیا گیا اور ان کے پاس اس نوٹس کا جواب دینے کے لیے 14 دن کا وقت ہے ۔آرٹیکل 6.2 کے تحت آرٹیکل 4.2.2 کی خلاف ورزی کا جرم ثابت ہونے پر 6 ماہ سے تاحیات پابندی تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔اگر عمر اکمل اپنے خلاف الزامات کو چیلنج کرتے ہیں تو پھر پی سی بی ایک آزاد ٹریبونل بنائے گا۔

لیکن اس کے امکانات کم ہیں۔توقع ہے کہ عمر اکمل ،ماضی کی روایات کے مطابق اپنی غلطی تسلیم کرلے گا جس پر انہیں جرمانہ اور چند ماہ کی پابندی عائد کرکے چھوڑ دیا جائے گا۔واضع رہے کہ 20 فروری کو پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے افتتاحی میچ سے چند گھنٹے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی کے سبب عمر اکمل کو معطل کردیا تھا۔عمر اکمل کو پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرنا تھی لیکن معطلی کے سبب ان کی لیگ سمیت ہر طرح کے کرکٹ مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائدکردی گئی تھی۔یہ پہلا موقع نہیں کہ پی سی بی کی جانب سے عمر اکمل کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہو بلکہ وہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ مختلف وجوہ کی بناء مشکلات سے دوچار رہے ہیں۔یہ دوسرا موقع تھا جب پی ایس ایل شروع ہونے سے قبل اسپاٹ فکسنگ کا کوئی اسکینڈل سامنے آیا ہو۔2017میں پی ایس ایل کے آغاز پر شرجیل خان اور خالد لطیف اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو اپنی زد میں لیا تھا۔عمر اکمل کے بارے میں سابق ہیڈ کوچ ووقار یونس اور مکی آرتھر کی رپورٹس پی سی بی ریکاڈرز کا حصہ ہیں۔

دونوں نے عمر اکمل کے خلاف منفی رپورٹس دی تھیں۔گذشتہ سال دبئی میں آسٹریلیا کی دن ڈے سیریز میں انہوں نے کرفیو ٹائمنگ کی خلاف ورزی کی اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔کبھی حیدرآباد کی ڈانس پارٹی میں انہیں پولیس حراست میں لیتی ہے۔کبھی لاہور میں ٹریفک وارڈن سے جھگڑا کرتے ہیں اور کبھی قذافی اسٹیڈیم میں سیکیورٹی گارڈ سے الجھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔پی ایس ایل سے قبل انہوں نے ٹرینر کے سامنے کپڑے اتار دیئے اور پھر تحقیقات سے بچ نکلے۔

عمر اکمل کی عمر صرف29سال ہے وہ پاکستان کے لئے16 ٹیسٹ121ون ڈے انٹر نیشنل اور84ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل کھیل چکے ہیں۔شائد وہ صرف کرکٹ پر فوکس رکھتے تو ان کے ریکارڈز کچھ اور کہانی بیان کررہے ہوتے۔ماضی کے اسکینڈلز کے برعکس موجودہ معطلی کا کیس زیادہ سنگین ہے۔حال ہی میں شرجیل خان ڈہائی سال کی پابندی گذارنے کے بعد پی ایس ایل میں شریک ہوئے لیکن ان کی پاکستان ٹیم میں واپسی پر ساتھی اوپنر محمد حفیظ نے تحفظات کا اظہارکیا ہے۔یہ دوسرا موقع ہے کہ محمد حفیظ نے ا سپاٹ فکسنگ میں ملوث کسی کرکٹر کی ممکنہ واپسی پر سوال اٹھایا ہے۔

اس سے قبل 2015 میں جب فاسٹ بولر محمد عامر کی پاکستانی ٹیم میں واپسی ہوئی تھی تو محمد حفیظ اور اظہر علی نے قومی کیمپ میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کے خیال میں شرجیل خان کی پاکستانی ٹیم میں واپسی اتنی آسان نہیں ہوگی لیکن اس واپسی کا تمام تر انحصار پاکستان کرکٹ بورڈ اور چیف سیلیکٹر مصباح الحق پر ہوگا۔شرجیل خان پر اسپاٹ فکسنگ کیس میں پابندی عائد ہوئی تھی۔

عمر اکمل کے خلاف ابھی کیس زیر سماعت ہے لیکن ماضی میں نت نئے اسکینڈل کی زد میں رہنے والے بیٹسمین کے لئے ایک اور مشکل سامنے کھڑی ہے۔عمر اکمل کیس کو جو بھی نتیجہ آئے انہیں اب تنازعات سے چھٹکارہ پا کر اپنے کیئریئر کو طول دینا ہوگا ورنہ تاریخ اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ان کی کہانیاں ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں زندہ رہ جاتی ہیں۔عمر اکمل کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔اپنے لئے نہیں تو اپنی بیوی بچوں،اپنے بھائیوں ،والد اور سب سے بڑھ کر اپنی مرحومہ والدہ اور اپنے مرحوم سسر عبدالقادر کے لئے!