چمک رہے تھے کبھی نقشِ جاوداں کی طرح

April 01, 2020

جانا تو ایک روز سب ہی کو ہے،باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔لیکن زمانہ یہ دیکھتا ہے کہ کون کس طرح گیا اور کس نے زندگی میں کیا کِیا۔حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اپنے صفحات پر ہر کسی کو جگہ نہیں دیتی۔کسی کا نام اپنے صفحات میں محفوظ کرنے کے ضمن میں اس کے اپنے معیارات ہیں۔ان معیارات کے مطابق اس نے میرِ صحافت،میر خلیل الرحمن کو جگہ دی۔اردو صحافت کو جو نام اور اعتبار انہوں نے دیا اس نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔انہوں نے جو اقلیمِ صحافت قائم کی اسے برقرار رکھنے اور نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اپنے دونوں صاحب زادوں کی بھرپور تربیت کی۔میر جاوید رحمٰن ان کے بڑے صاحب زادے تھے۔میر شکیل الرحمٰن ان سے چھوٹے ہیں۔

میر جاوید رحمٰن کی مختصر علالت کے بعد رحلت نہ صرف شعبہ صحافت بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی بڑا نقصان ہے۔وہ ہماری صحافت میں ادارت، اشاعت اور طباعت کے اہم شعبوںمیں بہت سرگرمی سے نمایاں کردار ادا کررہے تھے۔وہ ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے،انڈیپینڈنٹ نیوز کارپوریشن کے کے گروپ چیئرمین اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر کی حیثیت سے مصروفِ کار تھے۔اس گروپ کے جس کے اخبارات اور جرائد کی اشاعت پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔وہ ہفت روزہ ’’اخبارِ جہاں‘‘اور ’’میگ ویکلی‘‘کے ایڈیٹر انچیف بھی تھے۔

انہوں نے اپنے عظیم والد میر خلیل الرحمن کی راہ نمائی اور نگرانی میں صحافت کے تمام شعبوں میں تربیت حاصل کی تھی اور والد کے ورثے میں توسیع اور اس کی ترقی کے لیے نمایاں کردار اداکرتے رہے۔انہوں نے16 اگست 1946کو دہلی میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد والدین کے ساتھ پاکستان آگئے۔سینٹ میری ٹاون اینڈ کنٹری اسکول،جامعہ کراچی اور یونیورسٹی آف ویلز ، انگلینڈ سے تعلیم حاصل کی۔

میر جاوید رحمٰن نے 30جون 1968کو ’’جنگ‘‘ راول پنڈی کی ذمّے داریاں سنبھالیں۔بعد ازاں 1978میں ’’اخبارِ جہاں‘‘کے مدیرِ اعلی کی حیثیت سے کام شروع کیا اور تا دمِ مرگ یہ ذمّے داری نبھاتے رہے ۔انہیں ’’اخبارِ جہاں‘‘ سے عشق تھا۔اس کا اندازہ اس سے بہ خوبی کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے لیے نت نئے خیالات پیش کرتے،تصاویر منتخب کرتے،اس میں شایع ہونے والی کہانیوں کے کئی مقبول سلسلوں کے نام تک خود تجویز کرتےتھے۔ان میں شکستِ آرزو،شعلوں کا کفن ، پھولن دیوی وغیرہ جیسے مقبولِ عام سلسلے بہ طورِ خاص شامل ہیں۔

ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا:’’ والد نے جب مجھے راول پنڈی میں ذمے داریاں سونپیں تو میں کراچی میں تھا۔ اندازہ نہیں تھا کہ مجھے راول پنڈی جانا ہے۔ تھوڑے سے پیسوں کی ضرورت پڑی جو میں نے جنگ کراچی کے کیشیئر صاحب سے ادھار لیے۔ اس کے فوراً بعدراول پنڈی جانا پڑ گیا۔ میر صاحب میری صورت دیکھ کر جان گئے کہ پیسے لے کر آیا ہے۔ گویا احساس دلا دیا کہ کیا ہوا ہے۔ راول پنڈی میں میری تنخواہ 25 سو روپے مقرر ہوئی اور میں نے تنخواہ ملتے ہیں ساری رقم جنگ کراچی کے کیشیئر صاحب کو بھجوا دی۔ راول پنڈی سے میں 4جنوری 1974ء کو گیا۔ 1968ء میںجنگ راول پنڈی 32 ہزار چھپتا تھا۔ پانچ سال کے دوران 1973ءمیں اسے 65 ہزار تک لے گیا۔ اب خدا کے فضل سے اس کی اشاعت ایک لاکھ سے زیادہ ہے‘‘۔

اسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا:’’ 1978ء میں میں نے اخبار جہاں کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام شروع کیاتو اس وقت اس کی تعداد اشاعت 18 ہزار تھی۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ اس کی اشاعت ایک لاکھ ہوجائے۔ لیکن 1979ء میں صرف ایک سو کاپیوں کا اضافہ ہوا۔ میں پھر بھی رب العزت کے حضور دعا مانگتا رہا۔پھر 1980ء میں 72 ہزار اور 1981 ء میں 41 ہزار کا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید کامیابی عطا فرمائی اوراب اخبار جہاں کی اشاعت ڈھائی لاکھ ہے۔ پاکستان کے علاوہ پاکستان کے باہر جتنا اخبار جہاں جاتا ہے کوئی دوسرا ر سالہ نہیں جاتا۔میر صاحب کی نگرانی میں اخبار جہاں کی ذمے داری سنبھالی تو وہ نقصان میں تھا۔ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ اب تو اخبار جہاں کے ساتھ اتنی زیادہ انوالومنٹ ہوگئی ہے کہ اس کے بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں۔ آئیڈیا دیتا ہوں ، تصویریں منتخب کرتاہوں، مارکیٹ پر نظر رکھنی پڑتی ہے، کاپی تک خود لگواتا ہوں‘‘۔

ان کے انتقال پر اخبارِ جہاں کے سابق ایڈیٹر اور روزنامہ جنگ کے سابق گروپ ایڈیٹر محمود شام،اخبار جہاں کے سابق ایڈیٹر ،اخلاق احمد کی میر جاوید رحمٰن سے وابستہ کچھ یادیں،کچھ باتیں نذرِ قارئین ہیں۔