آزمائش یا عذابِ خُداوندی

April 03, 2020

دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پُری ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا، آفات کئی طرح کی ہوتی ہیں، مثلا سیلاب، طوفان، وبائی امراض وغیرہ ۔اسلام نام ہے سرِ تسلیم خم کردینے کا، ایک مسلمان کو ایسے مواقع پر قرآن حدیث اور تاریخ امم کی روشنی میں لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، زمانہ سے مرعوب ہونا، ناقص ایمان کی علامت ہے، اسلام جذب کا قائل ہے انجذاب کا نہیں، ایسے موقع پر بالخصوص قدرتی آفات کے وقت ہم مسلمانوں پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ایک خودکو سنبھالنااور عقیدے کی حفاظت کرنااور دین سے بیزار اور دینی علم سے دور مسلمان بھائیوں کے عقیدے کی حفاظت کرنا کہ کہیں اس میں تزلزل پیدا نہ ہوجائے اور اِس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم برادرانِ وطن کو اسلامی نقطۂ نظر سے آگاہ کرنا ہماری دوسری ذمہ داری ہے،اِس لیے ذیل میں قرآن وحدیث اور تاریخ کے حوالے سے متعلق اسلامی ہدایات اور کچھ اہم باتیں درج کی جارہی ہیں:

قرآن کریم میں قوم شعیبؑ پر عذاب آنے کا تذکرہ ہے اور اُس کی وجہ قرآن نے ناپ تول میں کمی بیشی بتائی ہے کہ ان کی عادت بن گئی تھی کہ لینے کا وقت آتا تو زیادہ لیتے اور دینے کا وقت آتا تو کمی کردیتے تھے، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ناپ تول میں کمی صرف محسوسات میں نہیں ہوتی ہے،بلکہ معنوی چیزوں میں بھی ہوسکتی ہے ،مثلاً لوگوں کے حقوق کی پامالی، ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں اپنا پورا حق سمیٹ لوں اور جب دینے کا وقت آئے تو مجھے پورا نہ دینا پڑے، اگر قوم شعیب پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب آسکتا ہے تو آج حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کمی بیشی کی وجہ سے عذاب آگیا تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

اسی طرح حضرت موسیٰؑ کی قوم پر عذاب آیا، حیلے حوالے اور کٹ حجتی کی وجہ سے فَلَمَّا أخذتھم الرجفةُ (پس جب انہیںعذاب نے آدبوچا، اللہ نے انہیں وہیں ہلاک کردیا) (سورۃالاعراف:۱۵۵)

قارون جو مال داری میں ضرب المثل تھا، جب اُس سے کہا گیا کہ ان خزانوں پر ا للہ کا شکر ادا کرو تو کہنے لگا، یہ سب میرے زورِ بازو کا کرشمہ ہے؛ چناں چہ اللہ نے اسے اِس ناشکری کی وجہ سے خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا۔فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْض (سورۃالقصص: ۸۱)

آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے کتنے شرعی احکام میں قیل وقال کرنے والے ملیں گے اور کتنے ہی ایسے ملیں گے جن کے احساسات وجذبات قارون کی طرح ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سےراویت ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )

۱- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔

۲- امانت دبالی جائے۔۳-زکوٰۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔۴-علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔۵-انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔۶-دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔ ۷-مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔۸- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔ ۹- انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔۱۰-گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔۱۱-شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔۱۲-بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔(سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامۃ حلول المسخ)

انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے، مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، مسلمانوں کے مالیہ کا نظام بد سے بدتر ہے، عصری تعلیم کا شور اتنا طاقت ور ہے کہ دینی درس گاہوں کے طلبہٴ کرام، مدرسے کی چہار دیواری میں رہتے ہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہو کر، عصری علوم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی ﷺنے چودہ سو سال پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف وبائی امراض کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے ۔

حضرت سعد ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میںطاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:نہ متعدی بیماری سے بیماری ہوتی ہے۔ نہ بدفال کوئی چیز ہے۔نہ مقتول کی روح پیاسا پرندہ بنتی ہے اور نہ پیٹ میں بھوک لگانے کا کوئی جانور ہے۔ مجذوم سے ایسے بھاگو جیسے شیرسے بھاگتے ہو۔(صحیح بخاری)

یہ بات واضح ہے کہ وبائی امراض کا بنیادی سبب انسان کا بد اعمالیوں پر اصرار ہے، اور اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست آزمائش ہے، ہمیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا رب تم سے ناراض ہے، تم نیکیوں کی جانب متوجہ ہوجاوٴ،اور مامورات پرعمل اور منہیات سے اجتناب اپنا شیوہ بنالو۔

اسلام نے جو کچھ بتایا ہے اُس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، اسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تو یہ وبائی امراض ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ تم نے کتنی بھی ترقی کرلی، کیسی بھی مشین ایجاد کرلی، کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنالیں، اڑنے کے سامان بنالیے، کمپیوٹر ایجاد کرلیے، چاند پرکمندیں ڈال آئے، مسافت سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنادیا، سردی میں مصنوعی گرمی اور گرمی میں مصنوعی سردی کے اسباب مہیا کرلیے اور ترقی کے سارے ریکارڈتوڑ ڈالے، لیکن تم اپنی اوقات یاد رکھو، اپنی تخلیق کا مقصد یاد رکھو، اپنے مالک وخالق سے لا تعلق مت ہوجاوٴ، اس کی مرضیات ونا مرضیات کو پہچانو، دنیا وآخرت کا فرق سمجھو، حیات وما بعد الحیات کا راز جانو، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ تم سے بڑھ کر بھی کوئی ذات ہے، جس کی قدرت وعظمت اور قہاریت وجباریت کا تم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ چناں چہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاوٴں کی معافی مانگو۔(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۸۳۳۴)

دوسری بات یہ کہ اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا، جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اورسب سے بڑے دربار میں، سب کو اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہے، اسلامی زبان میں اسے قیامت کہتے ہیں۔ لہٰذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو۔کیا ایک کامل ایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے، چناں چہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: جہاں قدرتی آفات آتے ہیں، اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔(الجواب الکافی لابن القیم،ص:۴۷)

غرض قدرتی آفات اور وبائی امراض کے تعلق اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ انہیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں، لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں؛،لیکن موجودہ سائنس کایہ مانناہے اور میڈیا چلا چلا کر اُس کے نظریات کی تشہیر کررہا ہے کہ مصائب، آفات اور زلزلوں کا ظہور کسی عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں، بلکہ اِس کا تعلق تو طبعیات اور میڈیکل سے ہے اور الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کی قساوتِ قلبی اِس انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی اِسے صرف سائنس کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں اوراِن حالات میں جانی ومالی حفاظت کا ہی تذکرہ کرتے ہیں، توبہ واستغفار اور انابتِ الی اللہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔

بیماریوں اور وباؤں سے حفاظت کے لیے روزانہ کم ازکم پانچ مرتبہ وضو کرنا، سونے قبل ضروریات سے فراغت حاصل کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعدمیں ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہمارے دین کا لازمی حصہ ہیں۔ ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے، اگر انسان صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کام کو بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا، دین نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہوں۔

ارشادِ خداوندی ہے:’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (سورۃ الاعراف)یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں؛کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں حلال و پاکیزہ کھانے اورکھانے میں اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حرام و خبیث کھانے اسی طرح نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور ﷺکا ارشاد ہے:’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کوصحیح خون مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے“۔(طبرانی۔ المعجم الاوسط)

وبائی امراض کے پھیلنے میں گھر اور ماحول کی گندگی اور خرابی کا بھی بڑادخل ہے۔اسلام نے انسانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔ارشادربانی ہے:”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں“۔(سورۃالبقرہ)ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریم ﷺنے فرمایا:”پاکی نصف ایمان ہے“(صحیح مسلم)مزید اس جانب توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں)کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(مسندبزار)

شریعت یہ کہتی ہے کہ طبعی اسباب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہیں،اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوں تو اسباب بندے کے موافق ہوجاتے ہیں، بسا اوقات کسی جگہ کے لوگوں کے اعمال خراب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو وہ ناراض کرلیتے ہیں،بہر حال ان قدرتی آفات اور وبائی امراض سے مسلمانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دعا واستغفار، صدقہ وخیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہیے۔