کورونا بحران کے باوجود حکومت اور اپوزیشن اکھٹے کیوں نہیں بیٹھے؟

April 02, 2020

چین کے صوبہ ہوبے کے دارالحکومت ’’ووہان‘‘ سے دسمبر 2019ء میں کورونا وائرس صرف چار ماہ کے قلیل عرصہ میں واحد عالمی قوت ہونے کے دعویدار امریکہ سمیت200 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔8 لاکھ سے زائد افراد اس کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ45ہزار کے لگ بھگ افراد اس بیماری کا نشانہ بن کر لقمہ اجل بن گئے ہیں۔26 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا اور ایران، عراق اور دیگر عرب ممالک سے واپس آنے والے زائرین کو وطن واپسی پر کورونا تصدیق کے بعد گھروں میں جانے کی اجازت دینے پر زور دیا گیا تاہم وفاقی حکومت بلوچستان حکومت کو اتنی تیز رفتاری سے عارضی قرنطینہ مراکز قائم کرنے کیلئے وسائل فراہم نہ کرسکی جس کی وجہ سے ایران سے زبردستی پاکستان میں منتقل کئے گئے زائرین تفتان پر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، سندھ اور پنجاب میں پھیل گئے جس کی وجہ سے کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ چین میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین ہزار رہی جبکہ اپریل2020 سے قبل ہی نئے کیس سامنے آنا بند ہو گئے اور ایک کروڑ 12لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کے اس شہر میں لاک ڈائون ختم کرکے کھول دیا گیا۔

کورونا وائرس میں گھرے امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، سپین، ایران یہ جاننے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ شکاگو آف چائنا کہلانے والا ووہان کورونا سے کیسے لڑ گیا؟ چینی عوام سخت ترین آزمائش میں کیسے سرخرو ہوئے؟ پاکستان میں وائرس تاخیر سے پہنچنے کے باوجود مریض تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کے تناظر میں متوقع متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے پوری قوم پریشان ہوگئی مگر حکمرانوں اور اشرافیہ کی طرح ’’لاک ڈائون‘‘ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا۔

ماضی کے سیاسی حکمرانوں کی غلطیوں سے شعبہ طب کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ اربوں ڈالرز قرضوں کے باوجود پورے ملک میں صرف 2ہزار وینٹی لیٹرز کی موجودگی ہمارے حکمرانوں کی عدم توجہ اور عوام سے دوری کی عکاسی کرتی ہے۔ ماضی میں ہر حکمران نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت کا اظہار تو کیا مگر عملاً دونوں شعبے انکی پہلی ترجیحات نہ بن سکے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت کو اقتدار تو دے دیا گیا‘ اور بدقسمتی سے وہ اپنے مخالفین کو جیلوں کی یاترا کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے مگر ابھی تک ’’تبدیلی‘‘ شروع نہیں ہوسکی۔ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے چکر سے نہیں نکل سکے۔ ادھار پر ملنے والی معیشت عالمی حالات کی وجہ سے مزید دبائو کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے۔

امریکہ اور یورپی ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری برآمدات متاثر ہونے کا خطرہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پورے ملک میں ضلعی انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں مگر ہماری اشرافیہ ابھی تک اکٹھی نہیں بیٹھ سکی۔ا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان بالاو ایوان زیریں کے تمام پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس بلایا تو وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سنے بغیر اٹھ کر چلے گئے جس پر دونوں رہنمائوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے صورتحال کو بگڑنے سے قبل ہی لاک ڈائون کا اعلان کرکے دوسروں کو بھی لاک ڈائون پر مجبور کر دیا وگرنہ وزیراعظم عمران تو لاک ڈائون کو کرفیو قرار دیتے ہوئے آخر تک اسکی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

کمرشل ٹرانسپورٹ کو بند کیا گیا‘ ٹرینوں کو بند کیا گیا مگر بعد میں بین الصوبائی گڈز ٹرانسپورٹ اور مال گاڑیوں کو چلانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ کورونا وائرس برطانیہ میں متحرک ہوتا دیکھ کر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو کئی ماہ سے اپنے بھائی اور قائد نواز شریف کے علاج کے سلسلے میں انکے ہمراہ لندن میں موجود تھے‘ وطن واپس لوٹ آئے اور انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کی۔ شہباز شریف کی آمد سے قبل ہی انکی مصروفیات کا ایجنڈا تیار کر لیا گیا۔ انہوں نے وطن واپس پہنچ کر آئیسولیشن میں رہ کر اس ایجنڈے پر عمل کیا۔ انہوں نے وڈیو لنک کے ذریعے لاہور کے بلدیاتی اداروں کے ضلعی چیئرمینوں اور مشیرز سے کورونا صورتحال سے نمٹنے کی مشاورت کی اور انہیں اپنے اپنے حلقہ جات میں عوام کی خدمت کا ٹارگٹ دیا۔

شہباز شریف نے چینی صدر اور وزیراعظم کو خطوط لکھے۔ اپوزیشن حکومتی اقدامات پر جائزہ رپورٹ تیار کرنے میں بھی مصروف ہے‘ جہاں خرابیاں ہوں گی نشاندہی کرے گی۔ شہباز شریف نے وڈیو لنک کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادتوں آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن سے وڈیو لنک پر ملاقاتیں کیں‘ انکی ضرورتوں کے بارے میں استفسار کیا اور حکومت کی طرف سے تعاون کی بابت معلومات حاصل کیں۔

وطن واپسی پر اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر نے شریف گروپ کے تمام ہسپتال حکومت پنجاب کے قرنطینہ مراکز کے طور پر دینے کی پیشکش کی مگر شاید انہیں مثبت جواب نہ مل سکا۔ پاکستان کی معیشت پر بدقسمتی سے ایسے لوگ مسلط ہیں جو مصنوعی قلت پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے‘ قوم کو نچوڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں مگر انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ کورونا وائرس 5اگست 2019ء سے کرفیو کا مسلسل مقابلہ کرنے والے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی تکالیف سے دنیا کو روشناس کرانے کیلئے آیا ہے جس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم مودی بھی اپنی پوری قوم کو تین ہفتے کے مکمل لاک ڈائون کا حکم دے چکا ہے۔

حریت پسند کشمیری رہنمائوں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی کشمیری اپنے حق خودارادیت کے حصول کیلئے صرف لاک ڈائون میں نہیں ہیں بلکہ آزادی کا پرچم بلند کرتے ہوئے خون کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں بھی اب یہ بات زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر کورونا کا مقابلہ کرنا چاہئے مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس ناگہانی صورتحال میں بھی بعض سیاسی قائدین بلوغت اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی پر عمل پیرا ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جب پہلی بار اپنی پریس کانفرنس میں لاک ڈائون کو کرفیو قرار دیتے ہوئے اقدامات سے گریز کا اعلان کیا تو اسکے آدھ گھنٹے بعد ہی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے15 روزہ لاک ڈائون کا اعلان کر کے ’’انسانوں کو بچانے‘‘ کے عزم کا اظہار کر دیا‘ گلگت بلتستان حکومت نے بھی پیروی کی۔

وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں بھی اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے کے عزم کا اظہار نہیں کیا ۔ وزیراعظم مخالفین ایک گروپ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو قومی اتحادو یگانگت کیلئے اقتدار دیا ہی نہیں گیا‘ انہیں اقتدار میں رہنے والے سب پرانے حکمرانوں سے لوٹی گئی دولت واپس لینے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا جس میں بھی وہ ابھی تک کامیاب نظر نہیں آئے۔ ادہر بلاول بھٹو زرداری متحد ہو کر کورونا کا مقابلہ کرنے کا پیغام دے چکے ہیں‘ مولانا فضل الرحمان بھی اپنے حکومتی اقدامات پر عمل درآمد کیلئے چالیس ہزار رضا کار دینے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’کورونا وائرس دنیا میں کیسی تبدیلی کا موجب بنتا ہے‘ فوری طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں مگر انسانی جانوں کا نقصان خواہ کتنا بھی ہو جائے کسی کو فکر نہیں ہوگی‘ بلکہ یہ سوال اُٹھے گا کہ زندہ بچ جانے والوں کو بھوک سے کیسے بچانا ہے؟