گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے

April 02, 2020

زندگی کے بہت سے شعبے دیکھے اور پرکھے ہیں، پوری سچائی اور ذمہ داری کے ساتھ عرض ہے کہ ان میں شعبۂ صحافت سب سے اچھا اور اپنے مزاج کے قریب تر لگا جبکہ سب سے گھٹیا افسر شاہی کو پایا۔ رعب داب کے چکر میں تمام تھڑ دِلے اور چھوٹے موٹے مفادات کے پجاری اِدھر جمع ہو جاتے ہیں۔ اِس حوالے سے ایک مرتبہ بابا جی اشفاق صاحب سے گفتگو ہوئی جنہوں نے درویش کی سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیوروکریٹ بالعموم بہت چھوٹی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں جن کی ساری دوڑ دھوپ کا اختتام اپنے ذاتی مفادات اور اکڑ فوں پرہوتاہے۔ ان کے مقابلے کوئی بھی سیاسی آدمی، عام آدمی کی بھلائی کا سوچے گا، اس کے گھر رات گئے بھی کوئی مصیبت کا مارا آئے گا تو وہ اس کی بات سنے گا اور کوشش کرے گا کہ اس کا مسئلہ حل ہو جبکہ یہی دکھی ایسے وقت کسی افسر کا دروازہ کھٹکھٹا کے دیکھے، اول تو دروازہ ہی نہیں کھلے گا، اگر کھلے گا تو جواب ملے گا کہ صاحب گھر پر نہیں۔بہرحال بات محض شعبہ جاتی نہیں، انسان کے اندر انسانیت کی ہے۔ کوئی تنگ نظر شخص اگر شومئی قسمت سے کسی ملک کا سربراہ بن بھی جائے، اگر اس کے اندر انسانیت نہیں ہے تو وہاں بھی ایسی چھوٹی اور کم ظرفی کی حرکات کرے گا کہ شعور والے اسے چننے والوں کی صلاحیت پر شک کرنے لگیں۔

درویش کی یہ خوش قسمتی ہے کہ کوئی تین دہائیاں قبل سب سے پہلا تعلق صحافت کے جس آفتاب سے ہوا وہ مجیب الرحمٰن شامی ہیں، پھر کوئی آٹھ برس قبل جنگ گروپ میں بطور کالم نگار شمولیت اختیار کی تو میر صاحبان سے راہ و رسم ہوئی۔ شروع میں گمان تھا کہ یہ بڑے لوگ ہیں، ہماشا کو کہاں لفٹ کرواتے ہوں گے مگر جب میر شکیل الرحمٰن سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ اتنی محبت و اپنائیت سے ملے اور ایسی کارآمد رہنمائی فرمائی کہ ناچیز نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان کے ادارے جنگ و جیو کے لئے ہمیشہ دعاگو رہتا ہے۔ پچھلے دنوں اُن پر آزادیٔ اظہار کے جرم کی پاداش میں جو ناحق، ناروا اور جعلی مقدمہ بنا، جس طرح گرفتاری کی گئی اس پر ایک کالم میں اپنے دکھ کا اظہار کیا تو ایک دوست نے کہا کہ کیا آپ نمک حلال کر رہے ہیں؟ کہا کہ ہاں بالکل، اس لیے کہ نمک حرام نہیں ہوںتاہم سچائی یہ ہے کہ سچی محبت وہ ہوتی ہے جو کسی طمع اور لالچ کے بغیر ہو، اگر وہ اس ناچیز کو اپنے ادارے سے نکال بھی دیں پھر بھی اپنے احساسات کا برملا اظہار یوں ہی کرے گا۔

میر خلیل الرحمٰن نے اپنے بچوں کی جس احسنِ اسلوب میں تربیت کی ہے وہ ان کی فکری عظمت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ شنید ہے کہ انہوں نے شکیل صاحب کو نوعمری میں ہی یہ کہہ دیا کہ بیٹا دفتر میں میرے پاس بیٹھ جایا کرو، سب کچھ خود ہی سیکھ جاؤ گے۔ اسی طرح اپنے بڑے بیٹے میر جاوید رحمٰن میں انہوں نے جو خوبیاں پیدا کیں یوں لگتا تھا کہ وہ اپنے والد محترم کی تصویر ہیں۔ کوئی دو یا تین برس قبل کراچی جانے کا موقع ملا تو میں جناب میر جاوید رحمٰن اور میر ابراہیم سے بھی ملنے گیا۔ یہ ملاقاتیں ناچیز کے لیے اثاثہ تھیں، ایک عام سا بندہ، جس کی کوئی حیثیت یا پہچان نہیں، اس کو یہ بڑے لوگ اتنی عزت اور محبت سے ملیں گے تو وہ بھلا اس قدر حوصلہ افزائی کو کیسے بھول سکے گا۔میر جاوید رحمٰن صاحب کو دفتر میں یوں انہماک سے بیٹھے کام کرتے دیکھ کر لگا کہ شاید یہ ملاقات کو فراش سمجھیں گے مگر ان کی اپنائیت اتنی اچھی کہ جیسے پہلے سے جانتے ہوں۔ میر ابراہیم اگرچہ جواں سال اور جواں عزم ہیں لیکن اپنے والد محترم اور تایا جان کی طرح محبت اور حلیمی ان میں بدرجہ اتم ہے۔ حال ہی میں میر شکیل کی پیشی والے دن نیاز مندی کے لیے پہنچا تو وہاں عدالت کے باہر کافی لوگ موجود تھے، سب نے ماسک لگا رکھے تھے، اس لئے پہچاننا کچھ مشکل ہو رہا تھا، میں ایک سائیڈ پر کھڑا تھا کہ ایک دراز قد نوجوان نے قریب آکر حال احوال پوچھا تو ایک دم حیرت سے کہا، اچھا! آپ تو میر ابراہیم ہیں، میں تو ماسک کی وجہ سے آپ کو پہچان ہی نہیں سکا، کیا آپ نے مجھے پہچانا ہے؟ بولے، افضال صاحب پہچانا ہے تو آپ سے ملنے آیا ہوں!

یہ دنیا فانی ہے، سب نے چلے جانا ہے لیکن جو لوگ زیادتیاں کرنے والے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن مر اُنہوں نے بھی جانا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک بھائی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا لیکن وہ دنیا سے جاتے ہوئے بھی اپنے بھائی سے مل نہیں سکا، اس لئے کہ اسے ایک جعلی مقدمے پر محض انتقامی کارروائی کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس ماں کا خیال آتا ہے کہ جس کا ایک بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے دنیا سے جا رہا تھا اور دوسرے کو ناکردہ گناہ کی بنیاد پر چھوٹی سوچ نے جیل میں ڈال رکھا تھا۔

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے