ہم کتنے خوش نصیب ہیں

April 03, 2020

ہم ہیں 50یا اس سے اوپر عمر کے، لوگ ہمیں بھی پڑھیں۔ ہم خوش نصیب لوگ ہیں، کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے بچپن میں محلے کی چھتوں پہ اپنے دوستوں کے ساتھ روایتی کھیل کھیلے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے لالٹین کی روشنی میں ناول پڑھے، جنہوں نے اپنے پیاروں کے لیے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔ کھلیانوں کی رونق دیکھی۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔

عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔ ہمارے جیسا تو کوئی نہیں، کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں جو سر پہ سرسوں کا تیل انڈیل کر اور آنکھوں میں سرمہ لگا کر شادیوں میں جاتے تھے۔ ہم وہ ہیں جو گلی ڈنڈا کھیلتے تھے اور گلے میں مفلر لٹکا کے خود کو بابو سمجھتے تھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے شبنم اور ندیم کی ناکام محبت پہ آنسو بہائے اور انکل سرگم کو دیکھ کے خوش ہوئے ۔ ہم وہ بہترین لوگ ہیں جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ اسکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔ ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔

ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں، کبھی وہ بھی زمانے تھے جب سب چھت پر سوتے تھے۔ اینٹوں پر پانی کاچھڑکاؤ ہوتا تھا ،اسٹینڈ والا پنکھا بھی چھت پر ہوتا تھا۔ لڑنا جھگڑنا سب کا اس بات پر ہوتا تھا کہ پنکھے کے سامنے کس کی منجی نے ہونا تھا۔ سورجُ کے نکلتے ہی آنکھ سب کی کھلتی تھی ڈھیٹ بن کر پھر بھی سب ہی سوئے رہتے تھے وہ آدھی رات کو کبھی بارش جو آتی تھی پھر اگلے دن بھی منجی گیلی ہی رہتی تھی وہ چھت پر سونے کےسب دور ہی بیت گئے، منجیاں بھی ٹوٹ گئیں، رشتے بھی چھوٹ گئے، بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور، لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔ کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل "جاہل زمانہ" آ گیا۔

فیس بک سے