اب ہم محفوظ ہیں

April 03, 2020

محفوظ ہیں ہم اپنے گھروں میں

پناہ گاہوں میں ، تنہائی میں

اور آدمی سے دوری میں

مصروف ہیں میرے گھر والے

سب پیارےاپنے پسندیدہ مشاغل میں

محفوظ ہیں میرے بچےاس آدمی سے

جو ان کی زندگی کی قیمت پر لے گیا

تھاگھر کا قیمتی سامان

میرے قلم اور انکے کھلونے

سینچ رہی ہوں میں کیاریوں میں پودےدیکھتی ہوں

کھلتے پھولوں اڑتی تتلیوں کے رنگ

سنتی ہوں پرندوں کی آوازیں، پتوں کی سرسراہٹ،

شور نہیں سر پران طیاروں کالاتے ہیں جو ہتھیار

جراثیم اور غربت کے اسباب،آج میں تنہا گھر سے نکلوں گی

آدھے چہرے کو ململ کے دوپٹے سےڈھانپ کر

ہاتھوں پر دستانے چڑھاکر

جو اس دن بھی تھے جب ایک آدمی نے

میرا موبائل فون چھینا تھا، میرے والدین کی قبروں کے نمبر،

بچوں کی تاریخ پیدائش، عزیزوں کے رابطے

سب چھن گئے تھےمیرے ہاتھ سے

اب جنھیں بچانا ہے، صرف جراثیم سے

محفوظ ہوں اب اپنی ذات کی پناہ میں

مطمئن ہوں کہ میری موت طبعی ہوگی اپنے گھر میں