میرجاویدالرحمٰن ، کچھ باتیں، چند یادیں…!

April 03, 2020

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں لے دے کر ایک ہی سب سے بڑا اخبار (جنگ) ہوا کرتا تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر جو اخبار تھا اس کی سرکولیشن میں جنگ کے مقابلے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس کے علاوہ چند سرکاری (اردو) اخبارات اور چند نجی اخبارات بھی تھے۔ تاہم ان کی سرکولیشن اور مقبولیت جنگ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس زمانے میں (اور شاید اب بھی) روزنامہ جنگ میں کام کرنا کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہوتا تھا۔ الیکٹرنک میڈیا میں صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا جس کا رات9بجے اردو خبرنامہ اور شاید چھ یا سات بجے انگریزی میں خبریں ٹیلی کاسٹ ہوئی تھیں اور یہ خبریں بھی سرکاری سرپرستی میں بنتی اور چلتی تھیں۔ میں ان دنوں میں اپنے صحافتی سفر کا آغاز کررہا تھا اور ایک اخبار میں بطور سب ایڈیٹر دھاڑ داری (زیرو آور، کنٹریکٹ) پر نوکری بھی شروع کردی تھی۔ تاہم چونکہ وہ نیا اخبار تھا اور اس کی ڈیمی نکالنے میں دوماہ سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا، چنانچہ ان دو ماہ کی تنخواہ بھی گول ہوگئی تھی۔ فاقہ مستی سے بچنے کے لیے ایسی اخبار میں رہ کر اچھے وقت کا انتظار کرنے لگا کہ اسی دوران میرے صحافتی استاد لطیف آذر صاحب مرحوم نے مجھے اپنے مرحوم دوست اور روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر فاروق اعظم صاحب کے پاس بھیجا۔ مجھے اس دن اخبار میں نوکری مل گئی اور وعدہ کیا گیا کہ ایک ماہ میں مستقل ملازمت کا کنٹریکٹ بھی مل جائے گا۔ اس زمانے میں مستقل ملازمین کو چھ بونس سالانہ ملتے تھے اور میڈیکل اخراجات بھی فری تھے۔ آخر وہ دن آیا جب نئے بھرتی کیے گئے5/6سب ایڈیٹرز اور ٹرانسلیٹرز کو تقرری کے لیٹرز ملنے تھے۔ اس مقصد کے لیے میر خلیل الر حمٰن کے بڑے صاحبزادے میر جاویدالرحمٰن دفتر میں خود موجود تھے، جو کراچی سے تشریف لائے تھے۔ مجھے سب ایڈیٹر (گریڈ تھری) کا لیٹر ملنا تھا، مگر میرے لیٹر پر ٹرانسلیٹر (گریڈ فور) لکھا ہوا تھا۔ لیٹر پر میر جاوید الرحمٰن کے دستخط موجود تھے اور وہ اردو میں ٹائپ شدہ تھا۔ میں نے اس وقت کے یونین لیڈر علی ظفر شاہ مرحوم سے بات کی تو وہ مجھے میر جاوید الرحمٰن کے پاس لے گئے! میر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ ایک ہفتے میں کراچی سے نیا لیٹر بھیج دیں گے۔ میرے چہرے پر ابھرنے والے سوالات دیکھ کر انہوں نے کہا کہ فکر نہ کریں، میں آپ کے کام کو یاد رکھوں گا۔اس پر علی ظفر شاہ اور فاروق اعظم دونوں نے تائید کی اور مجھے بتایا کہ میر جاوید الرحمٰن کبھی کوئی بات نہیں بھولتے! اگرچہ میں کچھ مطمئن ہوا، مگر یہ شک بہرحال رہا کہ اتنا بڑا آدمی اپنے ایک نوجوان ملازم کو کس طرح یاد رکھ سکتا ہے، ان کے پاس تو ہزاروں کام ہوں گے، ان کے ہزاروں ملازمین ہیں۔ا ن سب کو یاد رکھنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ مگر میں غلط تھا اور ٹھیک ایک ہفتے بعد مجھے سب ایڈیٹر کا نیا لیٹر ملا اور میر جاوید الرحمٰن نے اس کے ساتھ یہ پیغام بھی بھجوایا کہ راٹھور صاحب کو بولنا کہ میں کبھی کسی کو نہیں بھولتا مجھے اپنے نام کے ساتھ ’’راٹھور‘‘ کے اضافے پر حیرت ہوئی اور پھر مجھے بتایا گیا کہ میر جاوید صاحب ایک بار جس کو جو نام دے دیتے ہیں تو ہمیشہ اسی نام سے پکارتے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے مجھے ’’راٹھور‘‘ ہی کا نام کیوں دیا؟ ہوسکتا ہے کہ چونکہ میں کشمیری ہوں اور اس وقت آزاد کشمیر میں ممتاز راٹھور بہت مقبول تھے جو بعد میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم بھی بنے۔ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے میرا نام راٹھور رکھا ہو۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بعد ان سے میری جتنی ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے مجھے اس نام سے پکارا۔ حتیٰ کہ میری ایک ملاقات کئی برس بعد لندن میں بھی ان سے ہوئی تو بھی انہوں نے مجھے اسی نام سے پکارا۔میں اس کا ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ ذاتی تعلق بناکر رکھتے تھے اور سب کو ان کا نام لے کر پکارتے تھے۔ ان کا حافظہ کمال تھا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس نے میر صاحب کے ساتھ دس سال پہلے جو بات کی تھی وہ اسے بھول ہوگئے ہوں گے۔ کارکن دوستی کا عالم یہ تھا کہ جب بھی راولپنڈی آتے، نیوز روم میں ضرور آتے تھے! ہمارے ساتھ ڈیسک پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے اور خبریں بھی بناتے تھے۔ کئی مرتبہ مجھ سے کہا کہ یار راٹھور صاحب چائے نہیں پلائیں گے۔ وہ سارے اخباری کارکنوں کے ساتھ اسی انداز میں گفتگو کرتے تھے، ہمیں ان کی نیوز روم میں آ مد پر کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ کوئی ’’باس‘‘ آیا ہے، بلکہ سارے کارکن ان کے آنے پر خوش ہوا کرتے تھے۔ انہیں جنگ کے ساتھ ساتھ اخبارجہاں سے بھی بہت زیادہ لگائو تھا۔ انہوں نے مجھے ایک دو مرتبہ کہا کہ میں اخبارجہاں کے لیے بھی کوئی ڈائری یا تحریر لکھ دیا کروں، مجھے اپنے آپ پر ان کے اس اعتماد سے خوف بھی آیا اور میں نے عرض کی کہ فاروق اقدس صاحب پنڈی سے پہلے ہی ڈائری لکھ رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو ضرور کچھ لکھوں۔ میر جاوید الرحمٰن کو اخبار کے پریس ورکرز کے ساتھ بھی خصوصی لگائو تھا۔ وہ ان کے ساتھ پریس میں جاکر گپ شپ کرتے اور ان سے ان کے مسائل بھی معلوم کرتے تھے، کسی کا کوئی کام رکا ہوا ہوتا تو اس کی مدد کرتے تھے۔ میں نے آج تک جنگ کے کسی بھی کارکن سے میر جاوید الرحمٰن کے بارے میں کوئی منفی الفاظ نہیں سنے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ (آمین)