حکومت کے بولڈ مالی اقدامات

April 03, 2020

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
11مارچ کے 350بلین کےبجٹ کو حکومت اور اپوزیشن دونوں فراخدلانہ کہہ رہی ہیں ۔ ’’کورونا وائرس ‘‘ کے اثرات کے نتیجہ میں حکومت کو فوری طور پر مزید مالی معاونت کے اعلانات کرنے پڑے ہیں تاکہ انڈسٹری اور عوام اقتصادی طور پر محفوط رہیں۔ برطانوی تاریخ میں اس طرح کے براہ راست مالی اقدامات جو براہ راست لوگوں پر ٹارگٹ ہوں، کی پہلے مثال موجود ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں اوسطاً 40سے 50افراد اپنی جانیں کھو رہے ہیں۔ حکومت افراتفری کے عالم میں بھی تمام وہ قدم اٹھا رہی ہے جن سے اموات کی شرح بھی کنٹرول ہوسکے اور لوگ پریشانیوں سے محفوظ رہیں۔ وائرس تمام ممالک میں کنٹرول سے باہر ہے اور ہر ملک بڑی حد تک غیریقینی کا شکار ہے جونہی حالات میں ٹھہرائو آیا معاشی اور معاشرتی نقصانات واضح ہونے شروع ہوجائیں گے، اسی لئے ہر ملک اپنے کم سے کم شعبہ جات معیشت کو بند کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی وبائی صورتحال کو مقامی سطح پر روکنے کی کوششیں بھی قابل فہم ہیں تاہم پھیلائو کس حد تک رک پاتا ہے۔ لوگوں کے ہدایات پر عمل کرنے، ہسپتالوں اور آئسولیشن یونٹ کے ماحول پر منحصر ہے۔ اس بار برطانوی بجٹ اور کورونا وائرس تقریباً ایک ساتھ ہی ملکی سطح پر نمودار ہوئے۔ 11مارچ کے بجٹ میں چانسلر نے اپنی طرف سے ایک ایسا پیکیج دیا جو ماہرین کی نظر میں فراخدلانہ تھا۔ 350بلین پونڈ کے پیکیج میں بیشتر طبقات کیلئے کافی کچھ موجود تھا اور بقول چانسلر یہ ایک مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک تاریخی بجٹ تھا۔ حالات کی سنگینی کی وجہ سے مزید مالی امداد کے اعلانات کرنے پڑے اور 20مارچ کو مزید 7بلین پونڈ کا مالی پیکیج دینا پڑا جس میں مرکزی نقطہ ملازمتوں میں موجود لوگوں کی تنخواہوں کا 80فی صد حصہ ادا کرنے کا اعلان ہے تاکہ ایمپلائر لوگوں کی نوکریاں ختم نہ کریں۔ برطانوی تاریخ میں اس طرح کی ’’مالی مداخلت‘‘ پہلی بار دیکھنے کو ملی ہے۔ ریولیشن فائونڈیشن کے مطابق وہ انڈسٹریز جو حکومت کے حکم کے تحت متاثر ہورہی ہیں جن میں نان فوڈ ریٹیل، ہوٹلز، ائرلائنز، ٹریول آپریٹرز اور انٹرٹینمنٹ شامل ہیں اور پانچ ملین افراد کو اپنی ملازمت فراہم کرتی ہیں۔ برطانیہ کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں تقریباً 2.7ملین افراد کام کرتے ہیں۔ ان اعلانات کا براہ راست اطلاق ان لوگوں پر ہوگا۔ ’’ریسولیشن‘‘ تھنک ٹینک کے مطابق تقریباً 7ملین افراد موجودہ معاشی بحران کے نتیجہ میں متاثر ہونگے۔ اگر تین ماہ کیلئے ایک ملین افراد عارضی طور پر متاثر ہوتے ہیں تو خزانہ پر 4.2بلین پونڈ کا بوجھ پڑے گا۔ 1.2سیلف ایمپلائیڈ لوگوں کا بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ کمپنیوں کو اس سال کی VATاگلے سال تک نہیں دینا پڑیگی۔ تازہ ترین معاشی سکیم کے تحت ٹریژری کی طرف سے اس ضمن میں مزید 44بلین پونڈ کا کیش انجکشن دیا گیا ہے تاکہ اوّل لوگوں کے روزگار بحال رہیں اور دوسرے معاشرے کے کمزور طبقے اس معاشی بحران سے محفوظ رہیں۔ اس سال بجٹ خسارہ کا تخمینہ10 -2009کے ’’عالمی مالی بحران‘‘ سے بھی زیادہ لگایا جارہا ہے جو 158بلین پونڈ تھا۔ اس سال کی شرح پیداوار میں صرف 1.1فیصد اضافہ ہوگا۔ وزارت خزانہ ’’اتنے بڑے اعلانات کے نتیجہ میں ہونے والے اخراجات کیلئے پیسے کہاں سے لائے گی‘‘؟ اخبار کے مطابق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بنک آف انگلینڈ 200بلین پونڈ کی مالی سہولت کا اعلان پہلے ہی کرچکا ہے۔ اور بالآخر اس معاشی بحران کا حل بنک آف انگلینڈ کے مزید نوٹ پرنٹ کرنے سے ہی نکل پائے گا۔ ایک مزید پیکیج سیلف ایمپلائیڈ لوگوں کی مدد کیلئے بھی سامنے آچکا ہے جس میں مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اس حوالہ سے لوگ اپنی پچھلے تین سال کی اوسط آمدن کے ساتھ یونیورسل کریڈٹ بھی کلیم کرسکتے ہیں۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں آمدنیوں کو ملا لوگوں کیلئے ایک معقول پیکیج سامنے آجائے گا، ہم میں سے اکثر کو اپنے اکائونٹنٹ سے رابطے کرنے پڑیں گے، توقع ہے اس مشکل صورتحال میں تمام ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھائیں گے، دنیا بھر کے اہم سیاسی اور معاشی دماغ اس وبا کی وجوہات کی تہہ تک نہیں پہنچ پا رہے لیکن اس بات سے اکثر کو اتفاق ہے کہ دنیا ہمیشہ کیلئے بدل گئی ہے ابھی تک اس وبا کے سرپیر کا پتہ بھی نہیں چل پایا اور برطانیہ کی اہم ہوائی کمپنیاں قومیانے کی خبریں معتبر اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوچکی ہیں، ریل کمپنیوں کے تجارتی کنٹریکٹ معطل کردیئے گئے ہیں تاکہ تجارتی وجوہات کی بنا پر لوگوں کے ریل سفر میں رکاوٹیں نہ پیدا ہوں۔ معاشرتی طور پر سماجی دوری کی طرف اس قوم کا بادل نخواستہ چل پڑنا، بازاروں، شاپنگ مالز اور تفریحی گاہوں کا بند ہوجانا، ہر کسی پر غیریقینی کی پرچھائیوں کا چھائے رہنا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھروں کو دنیا کے بیشتر حصوں میں بند کردیا جانا۔ چند ایک شواہد ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ دعا ہے موجودہ پریشانی سے وہ کچھ ابھرے جہاں سے معاشی اور معاشرتی بہتریوں کی ابتدا ہوچلے۔