ذوالفقار علی بھٹو … ایک اعلیٰ سیاست دان

April 03, 2020

تحریر:ہارون نعیم مرزا۔۔راچڈیل
(گزشتہ سے پیوستہ)
اب وقت کے حکمران کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں اپیل خارج ہونے کے فوری بعد ذوالفقار علی بھٹو سے بی کلاس کی سہولت واپس لے لی گئی ان کے سیل سے کرسی ‘ میز ‘ اور پلنگ وغیرہ اٹھا لیے گئے وہ دس یوم تک فرش پر سوتے رہے نگرانی پر مامور مجید احمد قریشی سے انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا پنکی اور نصرت بھٹو سے یہ ان کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے تو مجید احمد قریشی نے انہیں بتایا کہ جی ہا ں چیئرمین صاحب آ پ کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو چکے ہیں یہ آ پ کی آخری ملاقات ہے آپ کے وکلا نے آپ کی سختی سے کی جانے والی ہدایت کے باوجود صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کر دی مگر انہوں نے بھی اس رحم کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے صبح آپ کو پھانسی دے دی جائے گی یہ فقرے ادا کرنے کی دیر تھی کہ پنکی اور بیگم نصرت بھٹو نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا انکے رونے کی آواز سے پوری جیل گونج اٹھی اس وقت ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں تقریبا 80موت کے قیدیوں سمیت 12سو قیدی اور حوالاتی موجود تھے ماں بیٹی کے رونے کے اس منظر کو دیکھ کر موقع پر موجود عبد الرحمان مشقتی ‘ مجید احمد قریشی اور دیگر عملہ بھی اس رونے میں شامل ہو گیا ان کے بھی آنسو نکل آئے حتی کہ پوری جیل کے ملازمین کے علاوہ جیل کے حوالاتی ‘ قیدی بھی اونچی آواز میں رونا شروع ہو گئے جیل میں موجود قیدیوں کو یہ علم ہو گیا تھا کہ جیل میں لایا جانے والا مہمان جو اس ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے یہ منظر اس قدر دردناک اور کربناک تھا کہ جیل کی درو دیوار بھی روتے ہوئے محسوس ہونے لگی کافی دیر تک رونے دھونے کا یہ سلسلہ جاری رہا ذو الفقار علی بھٹو بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور جیل کی دیواروں سے اپنا سر پٹخنے لگے محترمہ بینظیر بھٹو مجید احمد قریشی کی منت سماجت کرنے لگیں ان کے سامنے انہوں نے ہاتھ باندھ دیے کہ خدا کے واسطے آج ان کی حوالات کے لوہے کا جنگلا کھول دو انہیں پایا کو سینے سے لگا لینے دو مگر یہ جیل قوانین کے خلاف تھا محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد کا ہاتھ جو انہو ں نے جنگلے سے باہر پیار دینے کے لیے نکالا تھا کو پکڑ کر چومتی رہیں جب کہ بیگم نصرت بھٹو بار بار بے ہوش ہو جاتیں جنہیں پانی پلا کر ہوش میں لایا جاتا ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس آخری ملاقات کے دوران ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ماں بیٹی کی آہ زاری سے زمین اور آسمان پھٹ جائے گا جیل حکام کو سختی سے اس امر کی ہدایت تھی کہ وہ احکامات کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں وگرنہ انہیں بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ملاقات کا وقت ختم ہوتے ہی مجید احمد قریشی نے انہیں
کہا کہ محترمہ اب آ پ کی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے اور انہیں ایک منٹ بھی زائد نہیں دیا جا سکتا لہذا زبردستی کیے بغیر وہ خود ہی جیل سے باہر نکل جائیں باپ ‘ بیٹی اور اہلیہ کی جدائی کا وقت دیدنی تھا محترمہ بینظیر بھٹو ‘ بیگم نصرت بھٹو ‘ کو زبردستی پکڑ کر جیل حکام نے مرکزی دروازے کی طرف لے جانا شروع کیا تو وہ دونوں ماں بیٹی پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھیں ان کے قدم ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے انہیں گھسیٹ کر مرکزی دروازے تک پہنچایا گیا تو اچانک محترمہ بینظیر بھٹو جیل حکام سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ان کے حصار کو توڑتی اور بھاگتی ہوئی ذو الفقار علی بھٹو کے سیل تک پھر پہنچ گئیں اور دیوانہ وار لوہے کے جنگلے کو چومنے لگیں جیل حکام ان کے پیچھے بھاگے اور محترمہ بینظیر کو دوبارہ پکڑ لیا تو انہوں نے مضبوطی سے لوہے کے جنگلے کو پکڑ لیا ذو الفقار علی بھٹو اس موقع پر انتہائی غصے میں یہ کہتے رہے کہ خبردار کسی نے پنکی کو ہاتھ لگایا یا ان پر تشدد کیا اگر یہ ان کی آخری ملاقات ہے تو یہ ادھوری ملاقات کیوں ہے جب تک ان کی بیٹی اور اہلیہ خود جیل سے باہر نہیں جاتیں انہیں ہرگز جیل سے باہر نہ نکالا جائے مگر ان کے احکامات اور مطالبات بالکل بے معنی تھے ان کی کوئی اہمیت نہ تھی اور ماں بیٹی کو زبردستی جیل سے باہر نکال دیا گیا جیل کے باہر کھڑے ان کے محافظوں نے انہیں گاڑی میں بٹھایا جو گھر واپس جاتے ہوئے ماں بیٹی گاڑی میں ہی بے ہوش ہو گئیں اور انہیں دوبارہ واپڈا ریسٹ ہائوس سہالہ میں نظر بند کر دیا گیا جیل میں موجود قیدی ساری رات سو نہ سکے اور مختلف بیرکوں سے کبھی رونے کبھی درود شریف اور کبھی نعتوں کی آواز آتی رہی پھانسی کی رات زبردست بارش ہوئی اور جیل میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہو گیا پھانسی سے قبل ذو الفقار علی بھٹو کے گلے کی پیمائش کی گئی ڈاکٹر نے ان کا طبی معائنہ اور رپورٹس مرتب کیں پھانسی کی رات ذو الفقار علی بھٹو نے دس روز سے بڑھی ہوئی داڑھی کی شیو کی نہا دھو کر کریم کلر کی شلوار پہنی اور سونے کی بجائے کوٹھڑی میں بیٹھ کر نوٹس لکھتے رہے رات گیارہ بجے مجید احمد قریشی نے موت کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولاتو ذو الفقار علی بھٹو انتہائی غمزدہ اور غصے میں دکھائی دے رہے تھے اچانک کھل کھلا کر ہنس دیے اور کہا میں نہیں کہتا تھا کہ مجھے پھانسی نہیں دے سکتے تم میرے لیے کوئی خوشخبری لائے ہوں نا مگر مجید احمد قریشی نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہاکہ نہیں چیئرمین صاحب آپ کے لیے کوئی خوشخبری نہیں لگتا ہے اس عارضی دنیا میں آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے آپ اٹھیں پھانسی کے لیے تیار ہو جائیں آپ نے 4اپریل 1979کا سورج نہیں دیکھنا بھٹو کو وارننگ اور تیاری کا حکم دینے کے بعد وہ انہیں پھانسی دینے کے انتظامات مکمل کرنے کے لیے چلے گئے اسلامی دنیا کے لیڈر منتخب وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے تارا مسیح کو بلایا گیا تھا جو اس امر سے بالکل بے خبر تھا کہ آج اس نے ملک کے معزول وزیر اعظم کو پھانسی دینی ہے اپنے کمرے میں نیند پوری کر رہا تھا اسے یہ جاننے کی بھی کوئی غرض نہ تھی کہ اس کے ہاتھوں سے کس بندے کی جان جائے گی اس رات جیل میں غیر معمولی حفاظتی اقدامات کر لیے گئے تھے جیل کی درو دیواروں پر طیارہ شکن توپیں نصب کر دی گئیں رات ایک بجے کے قریب جب جیل کا عملہ انہیں پھانسی گھاٹ لے جانے کے لیے ان کے سیل کے قریب پہنچا تو ذو الفقار علی بھٹو نے بھاری تعداد میں لکھے جانے والے نوٹس کو جلا دیا جلانے کے لیے ماچس کی ڈبی ان کے مشقتی عبد الرحمان نے انہیں دی ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی سے قبل اپنی نہایت قیمتی رولیکس گھڑی جو انہیں شاہ فیصل نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد پر تحفہ میں دی تھی اور یہ گھڑی شاہ فیصل نے اپنی کلائی سے اتار کر انہیں گفٹ کی تھی کو اپنے مشقتی عبد الرحمان کو دے دی۔ پھانسی گھاٹ پر وہ خود چل کر موت کے کنویں کے اوپر مخصوص دائرے پر کھڑے ہو گئے مجید احمد قریشی نے ذو الفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین صاحب پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈال لیں اور موت کو سینے سے لگا لیں خلاف معمول انہیں کریم کلر کی شلوار قمیض بھی نہ اتارنے دی گئی ایسا لگتا تھا جیسے اس وقت کے حکمرانوں کو انہیں پھانسی دینے کی جلدی ہے اور جلد از جلد وہ دنیا کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے بے چین ہیں ذو الفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا گیا گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے سے قبل ان کے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ڈال دیا گیا تارا مسیح کو پھانسی گھاٹ پر پہنچنے کے بعد یہ علم ہوا تھا کہ آج اس کے ہاتھوں ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانی ہے پھانسی کے تختے پر کھڑا ہونے کے بعد ان کے دونوں پائوں کو رسی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا اس موقع پر ذو الفقارعلی بھٹو نے جو آخری فقرے کہے تھے وہ یہ تھے کہ ان کے چہرے سے کالا نقاب ہٹا دیا جائے مگر ایسا ممکن نہ تھا پھانسی گھاٹ پر ذو الفقار علی بھٹو کی نظر قریب پڑے تابوت اور کفن پر پڑی تو انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ حقیقت ہے اس وقت کے جیل کے قوانین کے برعکس ذو الفقار علی بھٹو کو رات دو بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا پھانسی کے عمل کے موقع پر ڈاکٹر محمد اصغر‘ آئی جی جیل خانہ جات چوہدری نذیر احمد اختر ‘ سپرٹینڈنٹ جیل چوہدری یار محمد دویانہ ‘ خواجہ غلام رسول ڈپٹی سپرٹینڈنٹ ‘ مجید احمد قریشی کاظم بلوچ‘ چوہدری عارف ‘ ہیڈ وارڈن‘ اور آرمی کی طرف سے کرنل رفیع بھی موجود تھے ذو الفقار علی بھٹو کا جسم تین منٹ تک پھانسی گھاٹ میں پھڑکتا رہا اور جلد ہی ان کی روح پرواز کر گئی مگر جیل قوانین کے مطابق نصف گھنٹے تک ان کی لاش رسے سے جھولتی رہی نصف گھنٹے بعد ڈاکٹر محمد اصغر کنویں میں اترے اور ان کی نبض چیک کرنے کے بعد موت کی تصدیق کا فارم پر کرنے کے بعد چلے گئے جیل حکام نے انہیں جیل میں ہی غسل دینے کا اہتمام کر رکھا تھا ان کی نعش کو حافظ محمد حیات نے غسل دیا اور کفن پہنا کر تابوت میں رکھ دیا فوجی حکام
تابوت لیکر چکلالہ ائیر بیس روانہ ہو گئے نیلا دھاری دار سوٹ پہن کر 323دن قبل جیل کے مرکزی دروازے سے داخل ہو کر آنے والا مہمان سفید کفن پہنے جیل سے رخصت ہو چکا تھا ان کی 323دن مسلسل نگرانی کرنیوالے اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل مجید احمد قریشی بھٹو کا سامان جس میں انکی شادی کی انگوٹھی ‘ گلے میں ڈالی ہوئی تسبیح ‘ قران پاک ‘ جائے نماز‘ کراکری ‘ شلوار قمیض ‘ اور پشاوری چپل لیکر واپڈا ریسٹ ہائوس سہالہ پہنچے تو پہلے سے نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کے ہاتھ میں بھٹو کا سامان دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا بینظیر بھٹو نے مجید قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاپا کو رخصت کر کے آ گئے ہو کیا میرے پاپا نے حوصلہ کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما رو رو کر دونوں ماں بیٹی کی ہچکیاں بندھ گئیں بینظیر بھٹو اپنے پاپا کی نشانیاں دیکھ کر انہیں دیوانہ وار چومتی اور روتی رہیں دونوں ماں بیٹی دو گھنٹے تک ان سے بھٹو کے آخری لمحات کے بارے میں پوچھتی رہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو نے پھانسی کی رات مجید احمد قریشی کو اپنا ایک خوبصورت رومال جو انہیں ان کی پہلی بیگم امیر بیگم نے دیا تھا اور جس پر خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کڑھائی کرتے ہوئے لفظ بی کنندہ کیا ہوا تھا دیا جو ابھی بھی ان کے پاس محفوظ ہے ۔ (ختم شد)