یہ مشکل وقت اور تین اہم کام

April 03, 2020

اس وقت کورونا وائرس نے ہر طرف تباہی و بربادی مچا رکھی ہے۔ جہاں بھی دیکھیں ویرانی ہی ویرانی ہے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک تمام تر دولت اور جدید ٹیکنالوجیز کی موجودگی کے باوجود کورونا وائرس کے سامنے بےبس ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا تو حال ہی دور ہے۔ پاکستان بھی کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں یہاں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور اسی رفتار سے اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونیوالوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دکانیں، کارخانے اور چھوٹے بڑے ہر قسم کے کاروبار بند ہیں۔ دہاڑی دار مزدور، کارخانوں اور دکانوں پر کام کرنے والے وہ تمام افراد نہایت مشکلات سے دو چار ہیں جن کو عرفِ عام میں غریب کہا جاتا ہے۔ یہ پوری دنیا کیلئے نہایت مشکل وقت ہے۔ ایسے میں تین کام بہت ہی اہم اور ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ ہر فرد اس موذی وائرس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے، اور نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے بچوں، بوڑھوں اور گھر والوں کو بھی محفوظ رکھے۔ معاشرتی میل جول اور بلاضرورت کہیں بھی آنے جانے سے گریز کرے۔دوسرا یہ کہ جن کو اللہ کریم نے دولت و ثروت عطا کی ہے وہ اس موقع کو غنیمت سمجھیں کہ اس مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اور اسی میں اللہ پاک کی مرضی پوشیدہ ہے تو اس کی رضا حاصل کرنے کا یہ ایک سنہرا موقع ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دل کھول کر غریبوں کی مدد کریں۔ یہ مدد روپے پیسے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کی صورت میں بھی کی جا سکتی ہے۔ تیسرا اور بہت اہم کام حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کا اتفاق اور اس مہلک وبا سے اپنی قوم کو محفوظ بنانے کیلئے مشترکہ جدوجہد ہے۔ اس وقت ہر طرف کورونا وائرس کا ذکر تو ہو رہا ہے لیکن ان تینوں اہم کاموں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔ لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوں کا میل جول اور آمدورفت تو محدود ہو گئی ہے لیکن انفرادی طور پر ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل درآمد کا فقدان نظر آرہا ہے۔ غریب افراد کو کھانے پینے کے لالے پڑے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کورونا سے نہ مریں گے لیکن ان کے بھوک سے مرنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں اس لئے باہر نکل کر کسی طرح کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنے لگتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھر سکیں۔

یہ وہ حقیقت ہے جس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اگر ایسے وقت میں صاحبِ ثروت اور مخیر خواتین و حضرات آگے آجائیں اور ان غریبوں کی مدد کریں تو ان کی مشکلات میں کافی حد تک کمی اور اپنی نیکیوں میں بےپناہ اضافہ کر سکتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اربوں روپے اس مقصد کیلئے مختص کرنے کے اعلانات تو کر رکھے ہیں لیکن تاحال ان اعلانات پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے لے کر تمام افسران اور جوانوں نے اس نیک کام میں پہل کی ہے۔ اور حصہ بقدرِ جثہ کے مصداق اپنی تنخواہوں میں سے رقم عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف تاحال حکمرانوں نے تادمِ تحریر کوئی ایسا اعلان نہیں کیا ہے۔ اور ماضی کی روایت کو دیکھا جائے تو حکمرانوں کے اعلانات بس اعلانات ہی ہوتے ہیں۔ ان پر عمل درآمد شاذو نادر ہی نظر آتا ہے۔

حکمرانوں نے سرکاری خزانے سے جو اعلانات اس مقصد کیلئے کر رکھے ہیں، جو اربوں روپے کے ہیں ابھی تک ان میں سے ایک روپیہ بھی غریبوں کو نہیں ملا۔ ٹائیگر فورس کے نام پر جو فورس تیار کی جائے گی خدا جانے وہ کب تیار ہوتی ہے۔ ان میں شامل نوجوانوں کے کردار جانچنے کا کیا پیمانہ ہوگا۔ اس کی حکمتِ عملی کیا ہوگی، اس فورس کی حیثیت کیا ہوگی۔ ان کی کارکردگی کو کیسے دیکھا اور پرکھا جائے گا۔ راشن اور پیسوں وغیرہ کی تقسیم کا طریقہ کیا ہوگا اور اس تمام کام میں کتنا وقت لگے گا۔ بھوک تو کسی قسم کی فورس کا انتظار نہیں کرتی۔ اب اگر اپوزیشن اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو دیکھیں تو وہ اس جان لیوا وبا اور مشکل وقت میں بھی خود سامنے آکر اپنی قوم کی مدد کرنے کے بجائے حکومت کے اقدامات پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وڈیو لنک کے ذریعے منعقد آل پارٹیز کانفرنس بھی ناکام ہوئی جب وزیراعظم عمران خان نے اس میں شرکت صرف اپنی بات کرنے کی حد تک کی اور اپنی بات کر کے چلے گئے، نہ اپوزیشن جماعتوں کی بات سنی نہ ان سے تجاویز لینے کی زحمت گوارا کی۔ نہ تو حکومت کے پاس موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی ٹھوس اور جامع حکمتِ عملی ہے نہ اپوزیشن کی عملی کار کردگی نظر آتی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن اس قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ سب کو بلا کر کھلے دل کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی بنائے۔ ذمہ داریاں بانٹی جائیں اور یہ سب کرنے کیلئے وقت بہت کم ہے ورنہ بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔

ایک نہایت افسوسناک خبر میرِ صحافت میر خلیل الرحمٰن کے بڑے صاحبزادے میر جاوید رحمٰن کی رحلت کی ہے۔ میر جاوید رحمٰن اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کا نام اور ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ رحمٰن و رحیم ان کی مغفرت کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے تمام خاندان کو حوصلہ، ہمت اور صبرِ جلیل دے۔آمین

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)