میرے تایا اکیلے ہیں

April 03, 2020

گوجرانوالہ کو اردو صحافت کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ وزیر آباد اسی ضلع کی ایک تحصیل ہے اور پھر گوجرانوالہ اور وزیر آباد کے درمیان گکھڑ منڈی ہے۔ اسی دھرتی نے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کو جنم دیا۔

یہیں میرِ صحافت میر خلیل الرحمٰن پیدا ہوئے۔ منو بھائی اور عطاء الحق قاسمی کا بچپن وزیرآباد میں گزرا۔ جواد نظیر بھی تو گوجرانوالہ ہی کے تھے، اپنے طاہر سرور میر بھی اسی دھرتی کے ہیں۔

پاکستان کی صحافتی سیاست کے بڑے نام افضل بٹ کا تعلق گکھڑ منڈی سے ہے۔ یہ قلمی جہاد کرنے والوں کے نام ہیں، پاکستان کی سرحدوں کی پاسبان پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق بھی گکھڑ منڈی گوجرانوالہ ہی سے ہے۔

گوجرانوالہ کےسارے حوالے مجھے اس لیے یاد آ رہے ہیں کہ 31؍مارچ کو میرِ صحافت میر خلیل الرحمٰن مرحوم کے بڑے صاحبزادے میر جاوید رحمٰن یہ دنیا چھوڑ کر اگلے جہان چل بسے۔ میری میر جاوید رحمٰن سے خاص ملاقات تو نہیں رہی مگر میں نے رضیہ فرید، اخلاق احمد اور محمود شام کی تحریروں سے ان کے کام کا اندازہ لگایا ہے۔

اس حوالے سے حامد میر کی گفتگو بھی سنی ہے۔ چونکہ محمود شام اور حامد میر دونوں راوین ہیں، دونوں سے زبردست ملاقاتیں ہیں، ان دونوں کی آرا کا بھی خوب اندازہ ہے۔ سب کی باتوں کا محور یہی ہے کہ میر جاوید رحمٰن اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے، انہوں نے خود کو دنیاوی جھمیلوں سے بہت دور رکھا ہوا تھا، وہ خالصتاً ایک درویش صفت انسان تھے، محنت پر یقین رکھتے تھے۔

عرصہ ہوا میر جاوید رحمٰن کی کچھ باتیں مجھے نذیر ناجی نے بتائی تھیں، ان باتوں میں بھی محبت کی خوشبو تھی۔ یاد رہے کہ خوشبو کی حدود نہیں ہوتیں، شاید خوشبو کا وطن بھی نہیں ہوتا، یہ کسی وطن میں بھی ہو سکتی ہے اور بہت دور تک پھیل سکتی ہے۔

اگر خوشبو میں محبت شامل ہو جائے تو پھر اس کے رنگ اثر ضرور چھوڑتے ہیں، اخبار جہاں پوری دنیا میں خوشبو کی صورت پھیلا ہوا ہے، اس خوشبو میں میر جاوید رحمٰن کی محبت شامل ہے۔

دکھوں کو دیکھ کر انسان کو اپنے دکھ یاد آ جاتے ہیں، میں اپنی نوجوانی میں ملنے والے دکھوں میں کھویا ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو کا فون آیا، کہنے لگیں ’’مجھے جنگ گروپ کے چیئرمین میر جاوید رحمٰن کی وفات پر دکھ ہوا، زیادہ تکلیف اس لیے ہوئی کہ ان کے بھائی میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا ہوا ہے، یہ آمرانہ طرز کی نشانیاں ہیں۔

جب میرے دادا کا انتقال ہوا تو ملک میں ضیاء الحق کا مارشل لا تھا، میرے والد، دونوں تایا اور ماموں جیلوں میں تھے، ان سب کو تدفین کیلئے بھی رہائی نہ مل سکی، لوگ ہمارے گھر تعزیت کیلئے آتے تھے مگر ہمارے گھر کے مرد حضرات تو آمریت کی جیلیں بھگت رہے تھے۔

ہمارا خاندان دکھ کے وہ لمحات کبھی نہیں بھول سکتا، آج بالکل اسی طرز پر صحافت میں شاندار خدمات انجام دینے والے خاندان کےساتھ کیا جا رہا ہے‘‘۔

دکھ بولتے ہیں، ہمیشہ بولتے رہیں گے، سسی پلیجو دھرتی سے پیار کرنے والی، اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے والی زندہ دل سیاستدان ہے مگر صاحبو! دکھ تو دکھ ہوتے ہیں، دکھوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا، دکھ کی یادیں کسی موسم میں بھی اتر سکتی ہیں۔

ذرا سوچئے، جانے والا کتنا دکھی ہوگا کہ جب وہ بسترِ مرگ پر تھا تو اس کا چھوٹا پیارا بھائی پسِ دیوارِ زنداں تھا، اس کا لاڈلا بھتیجا اپنے والد کو انصاف دلانے کی تگ و دو میں تھا، جانے والے کے آخری لمحات کیسے ہوں گے کہ وہ خود تو بسترِ مرگ پہ تھا مگر اس کے پیاروں کو زمانے نے دکھی کر رکھا تھا۔

جانے والے کی وفات سے دو روز پہلے میری اس کے لاڈلے بھتیجے سے بات ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں؟ میرے اس سوال پر میر ابراہیم کہنے لگے ’’میں اس وقت موٹر وے پر ہوں، ادھر والد صاحب کی تاریخ ہے مگر میں چاہتا ہوں کراچی چلا جائوں، میرے تایا اکیلے ہیں، وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، میں ان کے بارے میں بہت فکر مند ہوں‘‘۔

خیر مجھے یہ تو پتا تھا کہ میر ابراہیم اپنے دادا، دادی اور تایا، تائی کا بہت لاڈلا ہے مگر اس کی دکھ سے بھری آواز نے مجھے بہت دیر بے چین کیے رکھا کہ ان کے خاندان پر آزمائش کی یہ گھڑی ایسے موسم میں آئی ہے جب کورونا نے آدھی سے زیادہ دنیا میں لاک ڈائون کروا رکھا ہے، جب ہمارے ملک میں فضائی سروس بھی بند ہے۔

شہروں کے شہر بند ہیں اور ایسے میں اس نوجوان کو مشکل ترین مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ میرے بس میں دعا کرنا تھا، سو میں نے دعائیں کیں کہ دعائیں بھنور میں بھی کام آتی ہیں۔ اب دعا ہے کہ خدا درویش صفت میر جاوید رحمٰن کی اگلی منزلیں آسان کرے۔ خدائے بزرگ و برتر میرِ صحافت کے خاندان کی آزمائش کی گھڑیوں میں مدد کرے۔

خواتین و حضرات! دنیائے ہست و بود میں ہر ایک کو جانا ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ مجھے میر ابراہیم کے وہ جملے نہیں بھول رہے، جانے اس نے کس دکھ میں کہا تھا ’’میرے تایا اکیلے ہیں‘‘ شاید ایسے ہی لمحات کیلئے خورشید رضوی نے کہا تھا کہ

کچھ بھی تو نہیں حسرت و حیرت کے علاوہ

آئینے کے اندر تیری صورت کے علاوہ

جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں

اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ