ماہِ شعبان کی پندرہویں شب..!

April 08, 2020

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

شعبان کی پندرہویں شب کوعام بول چال میں’’شب برأت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سےبری کردیا جاتاہے۔اس رات کےبعض فضائل وبرکات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں،پہلے ہم اس سلسلے کی روایات نقل کرتے ہیں اور پھر ان روایات کی روشنی میں اس شب کے اعمال کاتذکرہ کریں گے۔

ترمذی شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پایا تو آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی، آپﷺ جنت البقیع میں تھے... آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں‘‘۔یعنی شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ جل شانہ کی رحمت کاملہ کا فیضان اس بیکراں طور پر ہوتا ہے کہ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے ریوڑ کے جتنے بال ہیں ،اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ وقت چونکہ برکات ربانی اور تجلیات رحمانی کے اترنے کا ہے ،اس لئے میں نے چاہا کہ ایسے با برکت اور مقدس وقت میں اپنی امت کے لوگوں کی بخشش کی دعا کروں، چناںچہ میں اپنے پروردگار سے مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہوگیا۔

اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ سر کاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا " کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہﷺ (مجھے تو معلوم نہیں آپ ہی بتائیے کہ ) کیا ہوتا ہے؟" آپ ﷺنے فرمایا " بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات کو اس کانام لکھا جاتا ہے، بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے، اس رات میں لکھ دیاجاتا ہے، اس رات بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات بندوں کے رزق اترتے ہیں" ۔نیز سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں صحابی رسول حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا " اللہ جل شانہ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برأت کو )دنیاوالوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے"۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بابرکت اور مقدس رات کو اپنی رحمت کاملہ کے ساتھ دنیا والوں پر متوجہ ہوتا ہے تو اس کا دریائے رحمت اتنے جوش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو بھی معاف کر دیتا ہے اور اپنی بندگی و عبادت اور اطاعت و فرماںبرداری میں سرزد ہوئی کو تاہیوں اور لغزشوں سے درگزر فرماتا ہے ، مگر کفر وشرک کو معاف نہیں فرماتا اور ان کے معاملے میں اتنی مہلت دیتا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے اور اگر توبہ نہ کریں اور اپنی بد اعتقادی اور بد عملی سے باز نہ آئیں تو انہیں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برأت) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں شعبان کو ) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرما تا ہے کہ " آگاہ رہو! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ رہو! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟آگاہ رہو! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ رہو! ہے کوئی ایسا اور ایسا ،یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے، مثلاً فرماتا ہے ،کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔"

ان تمام احادیث کریمہ نیزصحابۂ کرام ؓاوربزرگانِ دین کےعمل سےیہ ثابت ہوتاہےکہ اس رات میں مندرجہ ذیل تین کام کرنے کے ہیں:

۱۔مرحومین کےلئےایصال ثواب اوربخشش کی دعاکرنا ۔یادرہےکہ نبی کریم ﷺ سےپوری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک بارشب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے،اس لئےاگرکوئی شخص زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سےاس شب میں قبرستان چلاجائےتوسنت پوری ہوجائے گی اور اجر و ثواب حاصل ہوگا،جو چیز نبی کریم ﷺ سےجس درجےمیں ثابت ہے،اسےاسی درجے میں رکھناچاہئےاس کانام اتباع اوردین ہے۔

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت اورذکرواذکارکااہتمام کرنا ۔ اس بارے میں یہ واضح رہےکہ نفل ایک ایسی عبادت ہے، جس میں تنہائی اور خلوت مطلوب ہے، اس کے ذریعے انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنےگھرمیں اداکرکےاس موقع کوغنیمت جاننا چاہیے۔ نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانا ثابت نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب، میلے اوراجتماع منعقدکرنےکے لیے نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سےتعلق استوار کرنے کے قیمتی لمحات ہیں،انہیںضائع ہونےسےبچائیں۔

۳۔دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، ایک تو اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(یعنی تیرہ،چودہ ،پندرہ تاریخ) کے روزوں کا اہتمام فرماتےتھے۔لہٰذااس نیت سےروزہ رکھا جائے توموجب اجروثواب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخےپھوڑنا، آتش بازی کرنا یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ شیطان ان فضولیات میں انسان کو مشغول کرکےاللہ کی مغفرت اورعبادت سےمحروم کردیناچاہتا ہےاوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برأت کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں اور عبادت و بندگی کا مخلصا نہ نذرانہ پروردگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کی سعادتوں اور کامرانیوں کو حاصل کریںاور اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں جن کی اس مبارک رات میں مغفرت کردی جاتی ہے۔