خودی میں نام پیدا کر

April 26, 2020

بینظیر انکم سپورٹ اور اس جیسے دیگر پروگرام جو خواتین کے لیے یا دوسرے مستحق افراد کے لیے بنائے گئے ہیں، میری نظر میں غیر اہم ہیں، گو کہ یہ وقت کی ضرورت ہے مگر میں اسے عورت کی تذلیل قرار دیتی ہوں کیونکہ اس طرح خیرات تو ملتی ہے مگر جائز حق نہیں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ مرد کی بڑی سے بڑی زیادتی ظلم اور طعنوں کو سہہ کر خاموش رہنے والی اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور تعریفوں پر باپ، بھائی، شوہر، اولاد پر جان نثار کرنے والی عورت کا مقام جتنا اعلیٰ ہے وہ اس کو کبھی پہچان ہی نہیں سکی۔ اس میں کامیابی تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی صلاحیت کو پہچان پائے گی۔ میرا مشورہ یہ تو نہیں کہ وہ معاشرے میں علمِ بغاوت بلند کر دے یا پھر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی سازشوں کا شکار ہو بلکہ وہ جس مقام اور کردار میں ہے، اسے نبھانے میں پُراعتماد ہو۔ ایک ماں ہونے کے ناتے اپنے پچوں کی اچھی تربیت پورے یقین سے کر سکے نہ کہ سارا دن بچوں کو سنبھالنے کے بعد اسے کہنا پڑے کہ ’’آنے دے تیرے باپ کو‘‘۔ اپنی شخصیت کی انفرادیت کو کبھی ماند نہ پڑنے دے۔ عورت زیبائش و آرائش، نمود و نمائش اپنی ہم صنف سے حسد و جلن اور برتری کے جذبات سے بہت بلند کردار کا نام ہے۔ عورت وہ طاقت ہے جو نسلیں سنوارنے کی قابلیت رکھتی ہے، جو خود توانائی کا منبع ہے، ضرورت صرف اپنی صلاحیتوں کو مثبت استعمال میں لانے کی ہے۔ جب ایک عورت اپنی ناکامی کا ذمہ مرد پر ڈالتی ہے تو دراصل وہ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ وہ کمزور ہے۔ گھر کے روز مرہ کاموں کو جوئے شیر بنانے والی خواتین کبھی اپنی پہچان نہیں بنا پاتیں۔ اپنی پہچان، اپنا حق پانے کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں سے سستی، کاہلی اور ناشکری کی دھول جھاڑنا پڑتی ہے۔ کامیابی دفتری کرسی پر بیٹھ کر ہی نہیں، گھر کی سلطنت کو ایک منظم طریقے سے چلا کر بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس سے نسلوں کا مستقبل روشن کیا جا سکتا ہے۔ ہر عورت کے ہاتھ میں ایک ہنر تو لازمی ہوتا ہے، اگر تعلیم میسر نہ بھی ہو تب بھی گھر داری اور تربیت کا ہنرعورت کی سرشت میں شامل ہوتا ہے، اس ہنر کی بنیاد پر وہ معاشرے میں اپنا ایک مضبوط مقام پیدا کر سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اپنے ہنر اور صلاحیت سے واقف ہو جائے، پھر کوئی طاقت اسے ہرا نہیں سکتی۔
(صائمہ مبارک )