رنگوں کے شاعر، مصور مشرق... عبدالرحمٰن چغتائی

May 31, 2020

پروفیسر سلیم الرحمٰن

شعرو ادب، رقص و موسیقی، مصوّری، سنگ تراشی، تعمیرات، نقاشی، خطّاطی، میناکاری اور پچی کاری وغیرہ کا شمار فنونِ لطیفہ میں ہوتا ہے۔ یہ راحت افزا و لطیف فنون، جہاں دل و دماغ کی بالیدگی اور شگفتگی کا سبب بنتے ہیں، وہیں ان کے مشاہدے و مطالعے سے افسردہ دل ودماغ مسّرت اور آسودگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان ہی متذکرہ فنونِ لطیفہ میں ایک خُوب صُورت، دل نشیں اور پُرکشش فن، مصوّری بھی ہے۔ مصوّری، تصویرکشی، عکس سازی اور نقش گری کے حوالے سے ایسی ہی ایک باکمال شخصیت، عبدالرحمٰن چغتائی بھی ہیں، جن کا شُمار بیسویں صدی کے نام ور مصوّروں میں ہوتا ہے۔ اپنے فکروفن اور پروازِ تخیّل کے باعث وہ عالمی سطح کے مصوّروں میں شمار ہوئےاوربطورایک لاجواب پینٹر، بلند پایہ آرٹسٹ، افسانہ نگار، ادیب،اعلیٰ ناقدِ فنِ مصوّری و نقش گری میںبے پناہ شہرت پائی۔

اگرچہ،عبدالرحمٰن چغتائی کی شخصیت ہمہ جہت تھی، مگر اوّلین پہچان اور افضل شناخت فنِ مصوّری ہی ہے۔ مشرق کے اس عظیم آرٹسٹ کا آبائی تعلق لاہور سے تھا۔21ستمبر 1894ء کو لاہور کے مشہور و معروف شاہ عالمی دروازے ، رنگ محل سے متصل کوچہ چابک سوالاں میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام کریم بخش تھا، جو تعمیرات، آرایش و زیبایش سے متعلق دستی فن کارانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد کے جن ماہرینِ فنِ تعمیرات کا تذکرہ مغلوں کی تاریخ میں سنہری حروف میں مرقوم ہے۔یہی نابغہ روزگار،چغتائی کے آباء و اجداد تھے۔

عبدالرحمٰن چغتائی نے ابتدائی تعلیم ریلوے ٹیکنیکل اسکول لاہور سے حاصل کی۔ کم سِنی ہی سے اُن کا تخلیقی ذہن فنِ مصوّری اور نقاشی کی طرف مائل تھا۔ اپنے چچا، بابا مراں بخش سے نقاشی کی ابتدائی تعلیم اور ابجد سیکھنے کے بعد جلد ہی اس فن میں طاق ہوگئے۔1911ء میں میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی ادارے میںبطور فوٹو گرافر اور ڈرائنگ ماسٹر خدمات سرانجام دیں۔ کچھ عرصے بعد شعبہ Chromolithograhy میں ہینڈ انسٹرکٹر تعینات کردیئےگئے۔1916ء میں اُن کی اوّلین پینٹنگ، ماڈرن ریویومیگزین میں شایع ہوئی، انہی دنوں دھات پر تیزابی نقش نگاری میں بھی خصوصی دل چسپی پیدا ہوئی۔ اس فن کو فائن آرٹس کی زبان میں ایچنگ کہا جاتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے دی آرٹ آف ایچنگ میں کمال مہارت حاصل کرلی۔ 1920ء میں ان کی مصوّری کی پہلی باقاعدہ نمایش لاہور میں منعقد ہوئی، تو چھبیس سالہ اس نوعُمر مصوّر کی طرف ماہرین و ناقدین یک دَم متوجّہ ہوئے اور چونک اٹھے۔ یہ وہی دَور تھا، جب وہ اردو اور فارسی کے نام ور ترین شاعر، مرزا غالب کے منتخب اردو کلام کو اپنے موقلم سے مصوّری کے پیکر میں ڈھال رہے تھے اور بالآخر 1927ء میں جب غالب کی فکرانگیز شاعری کو بھرپور مصوّری کے قالب میںڈھالا، تو دنیا بھر میں ان کے فن کی دھوم مچ گئی۔

ان کا یہ تخلیقی سرمایہ ’’مرقّعِ چغتائی‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس نایاب اور پُرجمال مرقّعے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا پیش لفظ، حکیم الامّت علامہ محمد اقبال نے رقم کیا۔ اس دیباچے کا حوالہ نام وَر استاد اور نقاد، سیّد عابد علی نے اپنے لائقِ مطالعہ مقالے ’’مصوّر اور مصوّری‘‘ میں بھی دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’چغتائی نے جب غالب کا مصوّر نسخہ شایع کیا، تو علامہ اقبال نے اُنہیں عصرِ حاضر کا انقلاب آفریں مصوّر قرار دیا، جو اَن دیکھی دنیائوں کے چہروں سے پردہ اٹھاتا ہے، جو فطرت اور اس کے مصالح کو بہ جبرو قہر مسخر کرکے اپنے افکار، تعلقات اور تصوّرات کو تصاویر کے سانچوں میں یوں ڈھالتا ہے کہ وہ دنیا، جو اس کے ذہن میں موجود تھی، تصویر ہوجاتی ہے۔ اس کی رنگ آمیزی، ایرانی مصوّری کی بہترین رنگ آمیزی کی یاد دلاتی ہے۔‘‘حقیقتاً اپنے اس اسلوب کے (مع مرقّعِ چغتائی اور نقشِ چغتائی) خود ہی موجد اور خود ہی تعارف کنندہ ہیں۔

ان کا یہ انداز، ہنر، سلیقہ اسلوب اور آہنگ جلد ہی چغتائی آرٹ کے نام سے جانا پہچانا گیا۔ اور کئی دہائیوں سے ماہرین، ناقدین، صاحبِ ذوق، صاحبِ قلب و نظر اسی چغتائی آرٹ کی اہمیت و فضیلت اور حُسن و جمال کے قائل ہیں۔ پھر مغلیہ شہزادوں، شہزادیوں کی جو جھلک عبدالرحمن چغتائی نے دکھائی، وہ بجائے خود ایک الگ موضوع، ایک انفرادی تحقیقی مقالے کی متقاضی ہے۔ ’’چغتائی آرٹ‘‘ کے یہ متنّوع شاہ کار دیکھنے والے کو کشاں کشاں غالب کے اس شعر کی طرف لے جاتے ہیں کہ؎سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوّری.....تقریب کچھ تو بہرِملاقات چاہیے۔

تخلیقات میں ایرانی مصوّری کی فن کارانہ آمیزش کے سبب شائقینِ مصوّری نے عبدالرحمٰن چغتائی کو ’’بہزادِ عصر‘‘ کے خُوب صُورت لقب سے بھی نوازا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اُن کی شخصیت متنوع جہتوں کی حامل ہے۔ وہ مفکّر، دانش وَر اور اعلیٰ پائے کے ناقدِ فنِ مصوّری اور صاحبِ طرز افسانہ نگار بھی تھے۔ اُن کے افسانوں کے دو مجموعے ’’لگان‘‘ اور ’’کاجل‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آئے۔ ’’لاہور کا دبستانِ مصوّری‘‘ بھی اُن کے تخلیقی قلم کا ایک بلند پایہ کام ہے۔ گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی کے وسط میں چغتائی نے مغربی ممالک کی سیّاحت کرکےوہاں کے نام وَر مصوّروں سے ملاقاتیں کیں اور خود وہاں کے ماہرین اور ناقدینِ فن سے بھرپور داد وصول کی۔ ان کے ہم عصر، عالمی شہرت یافتہ ہسپانوی آرٹسٹ، پبلو پکاسو بھی ان کے فن کے قائل اور مدّاح تھے۔1934ء میں حکومتِ برطانیہ کی طرف سے چغتائی کو خان بہادر کا خطاب دیا گیا۔ 1939ء میں ان کا دوسرا شاہ کار ’’نقشِ چغتائی‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ جس میں غالب اور چغتائی ایک بار پھر بیک وقت جلوہ گر ہوئے۔

نقشِ چغتائی سے ایک سال قبل ’’چغتائی پینٹنگز ‘‘کی نمایش نے عالمی سطح پر قبولیت حاصل کی۔ پھر 1952ء میں ’’چغتائی انڈین پینٹنگز‘‘ نے اپنی دمک دکھائی۔ 1958ء میں انہیں تمغہ حُسن کارکردگی اور 1960ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔1951ءمیں یومِ آزادی کے موقعے پران کے فکر و تخیّل پر مبنی نوڈاک ٹکٹس پر مشتمل ایک ٹکٹ سیٹ کا اجرا ہوا،جنہیں آج بھی دنیا کی بہترین ڈاک ٹکٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے لوگوز بھی اسی عظیم مصوّر کی ہنرمندی اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے فن میں یک سانیت کے بجائے ایک اچھوتا فن کارانہ تنّوع پایا جاتا ہے اور ان متفرق شاہ کاروں نے فی الحقیقت ان کے فن کو ایک پینوراما بنادیا ہے۔ 1968ءمیں انہوںنے ’’عمل چغتائی‘‘ کے عنوان سے شاعرِ مشرق کے کلام کو مصوّر کیا، جسے شاعرِ مشرق اور مصوّرِ مشرق کا حسین امتزاج تسلیم کیا گیا۔

دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ ’’عملِ چغتائی‘‘ فکرِ اقبال کے ادراک و آگہی کے لیے ایک سنگِ میل ہے۔ چغتائی نے اپنے ساٹھ سالہ کیریئر میں دو ہزار کلر پینٹنگز بنائیں اورتین سو کے قریب دھاتوں پر تیزابی نقش نگاری کرکے دی آرٹ آف ایچنگ کے دامن کو وسعت دی۔ نیز، ہزاروں کی تعداد میں پینسل سے شاہ کاراسکیچز بھی بنائے۔ مختصر یہ کہ ان کے فن کا کوئی ایسا پہلو نہیں کہ جسے صاحبانِ ذوق اور ناقدینِ فنونِ لطیفہ نے سراہا نہ ہو۔ اسلامک آرٹ گریڈیشن کے حوالے سے بھی ان کا شمار ایشیا کے اہم ترین مسلمان مصوّر اور پینٹر کے طور پر ہوتا ہے۔

وہ اُن چند ایک خوش بخت ترین مصوّروں میں شامل ہیں کہ جنہیں مشرق و مغرب ہر دو دبستانوں نے متفقّہ طور پر صاحبِ اسلوب مصوّر تسلیم کیا ہے۔

ان ہی کے بارے میں حکیم الامّت نے کہا تھا ؎معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود۔ عبدالرحمٰن چغتائی کچھ اور بڑے، نام وَر شعرا کے منتخب کلام کو بھی مصوّر کرناچاہتے تھے، مگر موت نے مہلت نہ دی اور یہ عہد ساز فن کار 17جنوری 1975ء کو 80برس کی عُمرمیں داغِ مفارقت دےگیا۔