پاکستانی فلم انڈسٹری کا زوال و عروج

May 31, 2020

نِت نئی ایجادات نے جہاں انسان کو بیش بہا سہولتوں، آسانیوں سے بہرہ وَر کیا ہے، وہیں بِھیڑ بھاڑ میں گزرنے والے شب و روز اور بے پناہ مصروفیتوں نے اسے تنہا بھی کردیا ہے۔ آج کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا فارغ وقت کہاں ، کیسے گزارے اور ذرایع ابلاغِ عامّہ کی مقبولیت و ہر دل عزیزی اس مسئلے کا حل ہے۔ ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، موبائل فون اور فلم دفع الوقتی (To kill the time) کے بہترین ذرایع ہیں، جب کہ کُتب، رسائل اور اخبارات اپنی کشش کھوتے جا رہے ہیں، کیوں کہ ان سے استفادہ سہولت سے نہیں ہوتا۔ ان کا پڑھنے والا فاعل ہوتا ہے اور اسے آنکھوں کے ساتھ دل و دماغ کو بھی متحرّک رکھنا پڑتا ہے، کیوں کہ ذہن جب تک مطبوعہ الفاظ سے معنی اخذ نہ کرلے، حیرت و مسرّت یا افسوس اور صدمے کا کوئی پیغام اندر تک نہیں پہنچ پاتا۔ اس کے برعکس الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کُنندہ مفعول ہوتا ہے۔ اُسے صرف انگلیوں کو حرکت دینی ہوتی ہے اور پھر وہ خود کو تب تک کسی ڈیوائس یا آلے کے حوالے کر دیتا ہے کہ جب تک اُس کا دل و دماغ وہ سب کچھ حاصل نہ کر لے، جس کی اُسے طلب ہوتی ہے۔ بہر کیف، ہمیں یہاں اس بحث سے کوئی غرض نہیں کہ انسان کے لیے مطبوعہ ذرایع ابلاغ زیادہ مفید ہیں یا برقی۔ البتہ حقیقت یہی ہے کہ آج انسان کی توجّہ برقی ذرایع ابلاغ کی طرف مبذول ہے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں جب امریکا میں پہلی خاموش فلم بنی، تو شاید ہی کسی کو اندازہ ہو کہ بہت جلد فلم ایک صنعت بن کر ہر مُلک کی تہذیب و ثقافت پر اثر انداز ہونے والا اہم ترین عُنصر بن جائے گی۔ فلمی اداکار و اداکارائیں دِلوں کی دھڑکن ہوں گے اور ان کے ہیئر اسٹائل، لباس حتیٰ کہ چلنے پھرنے اور نشست و برخاست تک کی نقل و تقلید میں فخر و طمانیت محسوس کی جائے گی۔ نیز، اُن کے لیے ایک نئی اصطلاح، ’’سیلیبریٹی‘‘ وضع کی جائے گی اور ان کی شخصیت میں ایک ایسا گلیمر پیدا ہو جائے گا کہ انہیں صرف قریب سے دیکھنا اور چُھو کر اُن کے وجود کا حقیقی احساس کر لینا بھی زندگی کا ایک یادگار واقعہ بن جائے گا۔

امریکی باشندوں کے لیے ہالی وُڈ آج بھی ایک ’’ڈریم فیکٹری‘‘ ہے۔ ایک ایسا کارخانہ، جہاں خواب ڈھلتے ہیں۔ ہالی وڈ کے بعد بھارتی فلم انڈسٹری، بالی وُڈ کا نام آتا ہے، جب کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری، لالی وُڈ کہلاتی ہے، جہاں 1948ء سے لے کر اب تک تقریباً 10ہزار اُردو فلمیں بن چُکی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل 1930ء میں لاہور میں پہلی فلم عبدالرّشید کاردار نے ’’حُسن کا ڈاکو‘‘ بنائی تھی، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں بننے والی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ تھی، جس کی ہدایات داؤد چند نے دی تھیں۔ اس کے بعد مُلک میں فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور لاہور کے بعد کراچی اور سابق مشرقی پاکستان کا شہر، ڈھاکا فلمی صنعت کا مرکز بن گئے۔ چوں کہ ابتدا میں مُلک میں بھارتی فلموں کی نمایش کی اجازت تھی، چناں چہ پاکستانی فلمی صنعت نے بالی وُڈ کا میرٹ پہ مقابلہ کیا۔ بعد ازاں، 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے نتیجے میں بھارتی فلموں کی نمایش پر پابندی عاید کر دی گئی۔ تب ٹیلی ویژن گھر گھر موجود نہیں تھا اور لوگوں کے پاس تفریح کا سَستا اور بہتر ذریعہ فلم بینی ہی تھا۔

اُس زمانے میں پورے مُلک میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار سنیما گھر موجود تھے، جن میں مختلف موضوعات پر نِت نئی فلمیں نمایش کے لیے پیش کی جاتی تھیں اور فلم بین طبقہ انہیں دیکھنے کے لیے سنیما گھروں پہ ٹوٹ پڑتا تھا۔ تب لالی وُڈ میں سالانہ تقریباً 300فلمیں بنتی تھیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان سے ہماری فلمی صنعت کو بھی سخت دھچکا لگا۔ ایک نقصان تو یہ ہوا کہ ڈھاکا، جو عُمدہ اُردو فلموں کا مرکز تھا، ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسرا یہ کہ ہماری فلمی صنعت کی مارکیٹ مزید سُکڑ گئی، کیوں کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں اُردو فلمیں نہایت ذوق و شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔

بِلاشُبہ ستّر کی دہائی کے بعد بھی بہت اچّھی فلمیں بنیں، لیکن بہت سی وجوہ کی بِنا پر ہماری فلمی صنعت پر زوال آنا شروع ہو گیا۔ ان اسباب میں فلمی مرکز کی کراچی سے بتدریج لاہور منتقلی اور پُرانے ہدایت کاروں اور مکالمہ نگاروں کی دُنیا سے رخصتی کے بعد نئے تخلیقی اذہان کا فلمی صنعت کا حصّہ نہ بننا قابلِ ذکر ہیں۔ نتیجتاً فلموں کا معیار متاثر ہوا اور موضوعاتی فلموں کی بجائے سُوقیانہ فلم سازی نے فلم بین طبقے کو مایوس کیا۔ پھر ٹیلی ویژن تفریح کا متبادل ذریعہ بنا، تو اس طبقے نے سنیما گھروں کا رُخ کرنا ہی چھوڑ دیا۔

لاہور مرکز نے اُردو سے زیادہ پنجابی فلموں کی پروڈکشن پر توجّہ دی۔ تاہم، ’’ہیر رانجھا‘‘ جیسی ایک آدھ فلم چھوڑ کر زیادہ تر پنجابی فلموں میں گنڈاسے چلنے لگے، چناں چہ جنرل ضیاء الحق کے دَور سے پہلے ہی پاکستانی فلمی صنعت دَم توڑنے لگی۔ اسی زمانے میں وی سی آر آیا، تو فلمی بین گھروں میں بھارتی فلمیں دیکھنے لگے۔ 1980ء کی دہائی میں اسلامائزیشن کے نعرے اور سینسر بورڈ کی سختی نے فلمی صنعت کا بھٹّا ہی بٹھا دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل سالانہ ایک سو فلمیں بن رہی تھیں، جب کہ ان کے دَور میں یہ تعداد گَھٹ کر 40ہو گئی۔ پھر جب فلم منفعت بخش کاروبار نہ رہا، تو سنیما گھروں کے مالکان بھی بد دل ہو گئے اور سنیما گھروں کی جگہ پلازے، پیٹرول پمپس، شو رُومز اور میرج ہالز بننے لگے۔ قبل ازیں، جب وی سی آر مقبول ہوا، تو یہ پیش گوئی کی جانے لگی تھی کہ اب لوگ سنیما گھروں کا رُخ کرنا چھوڑ دیں گے، کیوں کہ اب وہ اچھی بھلی رقم خرچ کیے بغیر ہی گھر بیٹھے فلم دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، اس نوع کی پیش گوئی کرنے والے یہ بُھول گئے کہ سیر سپاٹے کی غرض سے سنیما جا کر فلم دیکھنا ایک ایسا خوش گوار تجربہ ہے کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

اس خیال کے پیشِ نظر ہی 2007ء میں ’’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘‘ (ناپا) جیسے تربیتی اداروں سے فارغ التّحصیل جواں سال اذہان نے ہماری بیمار فلم انڈسٹری کی رگوں میں نیا خون داخل کیا۔ نتیجتاً، فلمی صنعت نے انگڑائی لی اور پھر بھارتی فلموں کی نمایش کی اجازت ملی، تو پُرانے سنیما گھروں کی جگہ نئی سنیما اسکرینز لینے لگیں۔ دریں اثنا، پاکستانی گلوکار بھارتی فلموں کے لیے گانے گانے لگے اور اداکار بالی وُڈ میں اپنے فن کے جوہر دکھانے لگے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بننے والی فلموں میں بھارتی اداکاروں کے کام کرنے کی روایت بھی قائم ہوئی۔ تاہم، ابھی یہ روایت پنپنے ہی نہ پائی تھی کہ پاک، بھارت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے بھارتی فلموں کی نمایش پر پابندی لگ گئی، جو ہنوز برقرار ہے۔

دوسری جانب بھارت میں پروان چڑھتی انتہا پسندانہ جنونیت نے ہمارے اداکاروں کا بالی وُڈ میں پرفارم کرنا ایک پُر خطر کام بنا دیا۔ بہرکیف، اب پاکستانی فلمی صنعت کا طیّارہ ٹیک آف کر چُکا ہے اور حالیہ پاکستانی فلموں نے نہ صرف باکس آفس پہ کام یابی کے جھنڈے گاڑے ہیں، بلکہ فلم سازی کو ایک منافع بخش کاروبار بھی بنا دیا ہے۔ حال ہی میں بننے والی فلموں میں ’’سُپر اسٹار‘‘ نے 27کروڑ، ’’پرے ہَٹ لَو‘‘ نے 26 کروڑ، ’’چھلاوا‘‘ نے 17کروڑ اور ’’باجی‘‘ نے 11کروڑ سے زاید کا بزنس کیا ہے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فلمی صنعت خاصی تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ 1970ء تک ہمارا مُلک دُنیا میں زیادہ فلمیں بنانے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر تھا، لیکن پھر فلم انڈسٹری پر ایسا زوال و انحطاط آیا کہ لگتا تھا کہ اب یہ کبھی نہ اُبھر سکے گی۔ تاہم، فلمی صنعت میں تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ اذہان کی شمولیت نے مایوسی کو امید و یقین میں بدل دیا۔ ہر چند کہ اب بھی بہت کچھ ٹھیک ہونا باقی ہے۔ مثلاً، 20سے 25کروڑ کی آبادی کے مُلک میں سنیما اسکرینز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور ان میں اضافے کی کافی گنجایش ہے، جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔